خالی بھانڈے دا پرتاؤنا


ابن انشاء نے جاپان کے احوال میں لکھا تھا کہ تحفے کا لین دین بھی ان کی طبعی عادات و رسوم میں ہے۔ جس کو تحفہ دیا جائے اس کے لیے لازم ہے کہ اس سے دو پیسے زیادہ کا تحفہ لائے اور جوابی تحفے کی قیمت قدرے زیادہ ہونی چاہیے۔ اگر دو فریقوں میں پے درپے تحفوں کا تبادلہ ہوتا ہے تو جان لیجیے کہ تھوڑے دنوں میں یا تو دونوں دیوالیہ ہو جائیں گے یا سمجھدار ہوئے تو کوئی بات نکال کر ترک تعلق کر لیں گے۔ اسی سے ملتی جلتی روایت ہمارے ہاں بھی چلتی آ رہی ہے۔

بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ کسی ہمسائے کے گھر سے کوئی چیز آئے تو برتن خالی نہیں لوٹائے جاتے ’پہلے پہل لگا کہ شاید یہ ہمارے گھرکی ہی ریت ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ تو کم و بیش پورے محلے میں ایسا ہی چل رہا۔ صوبہ بدر ہوئے تو پتا چلا کہ وہاں بھی ایسی ہی روایت قائم ہے‘ یعنی اخلاقیات کی مثال تھی کہ اگر کوئی آپ کو کچھ ہدیہ بھیجے تو جو اباً اس کو بھی ہدیۃ کچھ نہ کچھ حسب استطاعت ضرور بھجوایا جائے۔

نئے تعلقات کو تحائف کے ذریعے مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور پہلے سے مضبوط تعلقات میں تحائف محبت اور خلوص کے اظہار کا باعث بنتے ہیں۔ تحائف کا تبادلہ نا صرف تعلقات کو مضبوط اردو بہتر کرتا ہے بلکہ آپس کے انہی تعلقات کو اس نہج پہ لے جاتا ہے جہاں جھجک اور کسی تامل کے بغیر باتیں کہی اور پوچھی جا سکتی ہیں۔

اس دنیا میں رہتے ہوئے ہمارے مختلف طرح کے تعلقات ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ رشتے دارانہ ’دوستانہ‘ کاروباری اور علمی طرز کے تعلقات نمایاں ہیں۔ ہر تعلق کی اپنی ایک ضرورت اور وقعت ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق ان تعلقات میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ان تمام تعلقات سے اوپر اور اصل منبع ہمارا وہ تعلق ہے جو ہمیں اپنے رب سے جوڑتا ہے۔

آج کل تو ویسے بھی جدید سائنس ’مادیت اور ترقی کا زمانہ ہے۔ کسی بھی چیز کی اہمیت کو فوری قیمت کے تناظر میں تول کر بتایا جا سکتا ہے۔ غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا وجود اور اس وجود کو قائم رکھنے کے لئے درکار سارے نظام کو اس پروردگار نے نہایت اعلیٰ تقویم اور مکمل سائنسی نظام کے مطابق مربوط طریقے سے ترتیب دیا ہے۔

محض بات کو سمجھنے کے لئے اگر ہم ان سب کو تحائف ہی کی کوئی شکل گردان لیں تو بدلے میں ہمیں بھی کوئی نہ کوئی تحفہ ’ہدیۃ دینا بنتا ہے۔ جیسے نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پہ تشریف لے گئے تو اللہ کریم کی بارگاہ میں ایسا تحفہ پیش کیا جو وہاں موجود نہیں تھا لیکن اس خالق و مالک کی عظمت و کبریائی کے شایان شان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں عاجزی و انکساری کا تحفہ پیش کیا۔

اسوہ حسنہ کی پیروی میں یہی عاجزی و انکساری مقصود ہے۔ چونکہ رب سے تعلق کسی طور ختم نہیں ہو سکتا اور اسے بہتر سے بہتر کرنے کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے ’لہذا اپنے تئیں ضرور کوشش کی جائے کہ یہ تعلق بہترین بن جائے اور اسی تعلق کی بدولت دو جہاں میں کامیابی نصیب ہو۔ انور مسعود صاحب نے بھی خوب کہا کہ:

حشر دیہاڑے اکھیاں وچ میں بھرکے لے گیا ہنجو
کوہجی گل سی خالم خالی بھانڈے دا پرتاؤنا
روز قیامت میں آنکھوں میں آنسو بھر کے لے گیا)
(کہ خالی برتن واپس کرتے ہوئے شرم محسوس ہوئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments