کوہ سلیمان اور سیر و سیاحت


ہم جب چھوٹے تھے تو بڑوں سے اکثر تخت سلیمانؑ کے قصے سنتے تھے اور دل میں خواہش جاگ اٹھتی کہ ہم بھی اس کی سیر کے لئے جائیں کیونکہ ایک تو سیر ہو گی اور دوسرے اس تاریخی جگہ کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔ اسی طرح صحافتی دور میں یہ خواہش کئی سالوں سے تھی کہ اس تاریخی جگہ کے بارے میں کچھ لکھ سکوں اور لوگوں کو اس جگہ کے اہمیت اور تاریخی پس منظر سے آگاہ کروں۔ ویسے تو خیبرپختونخوا اور فاٹا میں پہاڑوں کا بہت بڑا سلسلہ واقع ہے جو کہ خوبصورتی اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن کوہ سلیمانؑ نہ صرف جنگلات کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے بلکہ اس کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے۔

کوہ سلیمانؑ ڈیرہ اسماعیل خان سے مغرب کی طرف تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر فاصلے پر واقع ہے جو کہ سابقہ ایف آرڈیرہ اسماعیل خان درازندہ سے چند کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور بلوچستان کے ضلع ژوب کے مشرق کی جانب تقریباً 80 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تاریخی لحاظ سے تخت سلیمانؑ (کوہ سلیمان) بہت مشہور ہے کہا جاتا ہے کہ یہاں حضرت سلیمانؑ نے کسی زمانے میں اپنا تخت نصب فرمایا تھا جس کی و جہ سے یہ چوٹی بہت اہمیت رکھتی ہے لیکن مفتی محمد ذاکر کے مطابق کسی بھی اسلامی کتاب میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ یہاں حضرت سلیمانؑ نے کسی زمانے میں اپنا تخت نصب فرمایا تھا۔

یہ چوٹی چار ہزار میٹر بلند ہے۔ اور اس کی سیر کے لئے بہت سے سیاح کافی دشوار گزار راستہ طے کر کے آتے ہیں اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لوگ وہاں جا کر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور نوافل ادا کرتے ہیں۔ اس کے چاروں اطراف پہاڑوں کا سلسلہ واقع ہے جو لوئی کیس غر۔ منڑہ۔ تورغر، شین غر، کشمیر کڑ کے ناموں سے مشہور ہیں اور شمال میں جنوبی وزیرستان واقع ہے یہاں شیرانی قبیلہ آباد ہے۔ موسم کے لحاظ سے یہاں بہت زیادہ سردی ہوتی ہے۔

نومبر سے مارچ تک برف باری ہوتی ہے اور درجہ حرارت منفی 12 تک گر جاتا ہے ۔ ایک زمانہ میں یہاں کا جنگل نہایت ہی گھنا تھا 1892 میں ایلیٹ نے پہلے پہل اس علاقہ کا دورہ کیا تھا مگر آج وہی جنگل آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ماضی اور آج بھی اس جنگل کی بے دریغ کٹائی کی جا رہی ہے اس میں کئی قیمتی پودے آج بھی موجود ہیں جو مختلف قسم کی ادویات تیا ر کرنے کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں اور مختلف قسم کے جانوروں کی نشو و نما کے لئے کام آتے ہیں۔

مقامی صحافی سیف الدین شیرانی جو کہ کوہ سلیمانؑ خود گئے ہیں کہتے ہیں کہ ان کا تعلق درازندہ ہے اور وہ اپنے 35 دوستوں کے ساتھ یہاں کی سیر کر چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ان چار دن کا ٹورتھا پیدل راستہ انتہائی دشوار گزار تھا اور اشیائے خورد و نوش لے جانے کے لئے اونٹ سہارا لیا گیا۔ ان کا کہنا ہے یہاں چند فٹ پر مشتمل ایک قطعہ زمین ہے جہاں نفل پڑنا ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ یہ روایت زبان زد عام و خاص ہے کہ عبادت کے بعد یہاں مانگی گئی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے۔ وہ کوہ سلیمان براستہ راغہ سروہ گئے اور واپسی خیسرائی کے راستے سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور بہت سرد ہوا چلتی ہے آبادی لے لحاظ سے وہاں جھونپڑی کی شکل کے کچے گھر ہیں۔

اطلس خان شیرانی جو کوہ سلیمانؑ کی 15 بار سے زیادہ دفعہ زیارت کر چکے ہیں کہتے ہیں کہ کوہ سلیمانؑ کو عوامی زبان میں کیسہ غر کہا جاتا ہے ۔ یہ پہاڑوں کا سلسلہ ؒشمال اور جنوب میں 400 کلو میٹر سے بھی زیادہ لمبا ہے۔ اس کی سب سے بلند چوٹی تخت سلیمانؑ کہلاتی ہے جو سطح سمندر سے 11300 فٹ کی انچائی پر ہے۔ کوہ سلیمانؑ کا سب سے اونچا، خوبصورت اور تاریخی اہمیت کا حامل حصہ علاقہ شیرانی میں واقع ہے۔ کوہ سلیمانؑ یا کیسہ غر کا زیادہ تر علاقہ شیرانی ایف آر ڈی آئی خان اور کچھ علاقہ ضلع شیران بلوچستان پر مشتمل ہے۔

یہاں کی آبادی تقریباً ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ تعلیم کی شرح لگ بھگ دو فیصد تک ہے، 25 فیصد لوگ گلہ بانی، دس فیصد زراعت سے منسلک ہیں، دس فیصد لوگ بیرون ملک خلیجی ممالک میں ہیں اور ایک فیصد سرکاری نوکری سے منسلک ہیں۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر گندم اور مکئی کاشت کرتے ہیں، قابل کاشت زمین کا تین فیصد نہری اور باقی بارانی ہے۔ یہاں چلغوزے کی آمدن وسعت پیداوار 50 کروڑ زیادہ روپے سالانہ ہے۔

علاقہ میں جنگلی ہرن، مارخور، ریچھ، چیتا کے علاوہ کئی قسم کے نایاب پرندے پائے جاتے ہیں۔ دریائے گومل، شیخ حیدر زام، درازندا اور زام دو ماندہ اس علاقہ میں سے گزر کر آتے ہیں۔

کیسہ غرکی تاریخی وجہ شہرت کیس با با اور کاسی قبیلے کا مسکن ہے۔ کیس بابا پشتون قوم کے جد امجد بھی سمجھے جاتے ہیں، آپ کی قبر تخت سلیمان پر واقع ہے۔ اور لوگ ہزاروں سال سے اس کی زیارت کرنے کے لیے دور دراز علاقوں سے جوک در جوک آتے رہتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ علاقہ شیرانی دوسرے پشتون قبیلوں کی طرح فرنگی سامراجی سے وطن کی آزاد کے لیے بیش بہا قربانیاں دینے والا علاقہ ہے جس کے شہدا ء میں قتل خان، حکیم خان، جمال خان، مرتضی ٓخان، سادہ گل اور بازوں قابل ذکر ہیں۔ اس جدوجہد کی پاداش میں فرنگی حکومت نے شیرانی قبیلہ کو تقسیم اور ہر قسم کی مراعات سے محروم رکھا۔

ماضی سے لے کر آج تک کسی حکومت نے بھی یہاں کے باشندوں کی فلاح کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہاں سماجی جبر اور معاشرتی جبر معمول کی بات ہے اگر کوئی حکومت یہاں کے لوگوں کی حالت بدلنا چاہے تو دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ یہاں کے ماحول کے مطابق سیر و سیاحت کو ترقی دے کر لوگوں کی حالت بدلنا پڑے گی۔

لوگوں کا پر زور اصرار ہے کہ علاقہ کو ترقی دی جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جنگلات کی بے دریغ کھٹائی کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کوشش کرے تو چلغوزہ کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے اور علاقہ کے لوگوں کو ایک اچھا ذریعہ معاش میسر آ سکتا ہے۔ علاقہ میں جنگلات کو حالیہ لگنے والی آگ نے بھی کا فی حد تک متاثر کیا ہے حکومت ایک جامع حکمت عملی تیار کرے تاکہ یہاں رقبہ جنگلات کی بڑھوتری کے لئے شجر کاری مہم کا آغاز کیا جا سکے۔

سیر و سیاحت، تعلیمی، معلوماتی، کلچر، خوشی اور کاروباری مقاصد کے لیے اچھا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ضلع ژوب اور ڈیرہ اسماعیل خان کے گرم موسم کے درمیان میں کوہ سلیمانؑ بڑا خوشگوار موسم رکھتا ہے، ۔ اس علاقہ میں تفریحی مقامات کی خاصی کمی ہے اگر ارباب اقتدار توجہ دیں اور کوشش کی جائے تو اس کو ایک اچھے تفریحی مقام کا درجہ حاصل ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments