مال روڈ کا باغ جناح اور ہمارا عشق


انسان ایک عام انسان فطرت کو پسند کرتا ہے، اسے ہر وہ چیز اچھی لگتی ہے جس میں تصنع نہ ہو یا تصنع فطرت کی کاریگری میں مزید نکھار پیدا کر رہا ہو۔ دنیا میں جہاں بھی نئی بستیاں تعمیر ہوتی وہاں سے فطرت روٹھ جاتی ہے۔ اب انسان فطرت پسند ہے وہ فطرت کی تلاش میں رہتا ہے کچھ سر پھرے جنگلوں پہاڑوں کی سرکوبی کو مقصد حیات بنا لیتے ہیں۔ ان کے غول کے غول فطرت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ قومی ریاست کی لکیروں نے ان فطرت پسندوں پر قدغنیں لگائی ہیں مگر پھر بھی جستجو جاری ہے۔

پہاڑوں کے دلکش نظارے، بادلوں کا بلند و بالا چوٹیوں کا طواف اور سرسبز وادیوں کا بادلوں کو آغوش میں لینے کے حسین مناظر فطرت پسندوں کے لیے اس خوبرو حسینیہ کی طرح دلکش و دلپذیر ہوتے ہیں۔ خود ساختہ ضروریات کی تکمیل میں بڑھتی مصروفیات نے فطرت کی طرف بڑھتے قدموں کو جکڑ لیا ہے۔ اس فطرت پسندی کی تکمیل کے لیے نئی بستیاں بسانے والوں نے پارکس اور باغات کی صورت میں ذرا قریب میں کچھ نظارے فراہم کرنے کی کوشش کی۔

یوں لگتا ہے جب مال روڈ بنایا جا رہا تھا اور صوبائی اسمبلی کی عمارات اور اشرافیہ کے دیگر مراکز مال روڈ پر قائم ہو رہے تھے تو اس وقت کوئی فطرت پسند طاقت کے ایوانوں میں موجود تھا جس نے خود مال روڈ درختوں سے یوں ڈھک دیا کہ ہر پرانے شہر میں موجود ٹھنڈی سڑک کا گمان ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اکثر کینال کالونیوں کے ساتھ موجود روڈ ہی ٹھنڈی سڑک ہونے کا اعزاز حاصل کر پائے۔ سنا ہے لاہور باغوں کا شہر ہے ایسا ہی ہو گا مگر ہم جس باغ سے آگاہ ہیں یا یوں کہہ لیجیے ہم جس باغ کے عاشق ہیں وہ باغ جناح ہے۔ 1999 میں پہلی بار لاہور آئے تو چڑیا گھر کے ساتھ جس باغ کو دیکھا وہ یہی باغ تھا اس طرح یہ باغ ہماری لاہور میں پہلی محبت ٹھہرا۔ اس میں کھائی گئی آئسکریم کا لطف پھر کہیں نہ ملا۔

باغ تہذیبوں کی علامت ہوتے ہیں ایسے نشانات حکمران چھوڑنا چاہتے ہیں کہ ان کے بعد بھی ان کی یاد دلاتے رہیں۔ باغ جناح بھی ایسا ہی ایک باغ ہے اس کو انگریزوں نے بڑی نفاست سے بنوایا اور اس وقت کے ہندو، مسلم اور سکھ کاریگروں نے سنوارا، یوں یہ شاہکار وجود میں آیا۔ اب یہاں کی شامیں مسرور کن ہیں اور یہاں کی صبح دلپذیر ہے۔ آپ مال روڈ کی طرف سے باغ میں داخل ہوں تو آپ کے دائیں طرف جی سی یونیورسٹی لاہور کی بائیو لیب ہے اس طرف باغ بزرگ بسی ہوئے ہیں۔

یوں سمجھ لیجیے ان کی عمریں پاکستان سے زیادہ ہیں کبھی ان کے سائے میں پیٹر و سمتھ بیٹھا کرتے تھے اور آج ندیم و حفیظ پر سایہ فگن ہوتے ہیں۔ آپ کے بائیں طرف ایک خوبصورت جناح لائبریری قائم ہے سنا ہے یہاں بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں اور سی ایس ایس کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے اس لائبریری کی آغوش میں تربیت پائی ہے۔

اس باغ کی وسعت و نفاست متاثر کن ہے اس میں بنی راہداریاں اور بلند و بالا درخت اس کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ آپ صبح صبح تشریف لائے ہیں تو یہاں کا خاص میوزک آپ کی روح کو تازہ کرنے کا سامان فراہم کر رہا ہو گا۔ پرندوں کے چہچہانے سے پیدا ہونے والی قسما قسم کی مسرور کن آوازیں آپ کے دماغ کی بند نسوں کو کھول دیں گی اور آپ چند لمحوں کے لیے فطرت کو بہت قریب سے محسوس کریں گے۔ آج تو نہیں دیکھ سکا مگر بچپن میں میرے لیے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہوا کرتی تھی کہ چمگادڑوں کو الٹے لٹا دیکھا جائے۔ مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے اسے الٹے لٹکنا کہاں سے سمجھا ہے؟ حالانکہ چمگادڑ غالباً اپنی تخلیق میں اس طرح ہی سیدھی ہوتی ہے۔ ہمارے مفتی امجد صاحب ایسے مواقع پر ارشاد فرمایا کرتے ہیں کہ آپ اس پر مزید اندھیر ڈال سکتے ہیں۔

مجھے اس باغ کی محفلوں اور ان محفلوں سے اٹھتے قہقہوں نے بہت متاثر کیا اور یقین جانیے ایک اسلام آبادی کے ذہن میں موجود خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں شریک بزم ہوا اور ان زندہ دلان کو کھلے ہاتھوں استقبال کرتے ہی پایا۔ آپ اگر صبح آئے ہیں تو آپ کو کہیں دور سے کچھ گنگنانے کی آواز ضرور آ رہی ہو گی آپ اس کا تعاقب کریں یہ کہیں صوفیانہ اشعار پڑھے جا رہے ہیں۔ آپ چند منٹس اس بزم میں ضرور شریک ہوں۔ اس بزم میں گایا جانے والا کلام پنجابی اردو دونوں میں ہو سکتا ہے مگر زیادہ تر پنجابی میں ہی ہو گا۔ یہ اس شہر کی روایت ہے کہ اس نے اردو کو گلے لگایا اور پنجابی کو دل سے لگائے ہے اور جو چیز دل میں ہو وہ سرکاری اشرافیہ کے فیصلوں سے نہیں نکل سکتی۔

لاہور بہت کم آنا ہوتا ہے ابھی تفہیم پروجیکٹ کی ایک ٹریننگ کے لیے آیا ہوا تھا کل شام کو ڈیڑھ گھنٹہ باغ جناح کی دامن میں گزارا اور آج نماز کے بعد ایک گھنٹہ دلربا سے ملاقات رہی اس نے دماغ کو معطر کر دیا ہے۔ آنکھوں کے سامنے وہ مناظر گھوم رہے جس میں بزرگوں کی ایک ٹولی محفل سجائے بیٹھی قہقہے لگا رہی ہے ایک بزرگ کہہ رہا ہے کوئی ایسی بات کرو یہ پیر بخش بھی ہنس پڑے، ایک قہقہہ لگتا ہے پیر بخش سیریس ہی ہے اور سامنے والا کہتا ہے انہیں ہنسانے کے لیے بات کی نہیں دو کلو بکرے کے پائے کا شوربہ درکار ہے۔

یہ سنتے ہی پیر بخش بھی بے ساختہ ہنس دیتا ہے۔ یہ باغ جناح کے دروازے کے پاس موجود آخری ٹولی تھی۔ یہ لوگ بڑے تعلق والے ہیں نسلوں سے اسی باغ میں آ رہے ہیں اس نے اس تہذیب کو جنم دیا ہے اور خوبصورت روایات کو وجود بخشا ہے۔ ہمارا شہر تبادلوں کا مارا شہر ہے، اگرچہ شہر اقتدار ہے مگر یہاں کی ہر چیز ہی سرکاری ہے کچھ دوست ناراض ہو جائیں گے مگر یہاں کا ادب و ادیب بھی سرکاری ہیں اور سرکاری ادب کی اپنی قیود ہوتی ہیں۔ باغ جناح کے قہقہے، پرندوں کا چہچہانا اور جوانوں کی خوش گپیاں خدا ان سب کو سلامت رکھے۔ کسی نامعلوم شاعر نے کسی نامعلوم اور بعض کے بقول معلوم مقام یعنی لاہور کی شان میں کیا خوب کہا تھا:

گر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments