کیا لاڑکانہ میں میڈیکل کی طالبات نمرتا اور نوشین کے ریپ اور قتل کا مجرم ایک ہی ہے؟


آج کل پورے سندھ میں ایک مرتبہ پھر میڈیکل تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس کو ریپ کر کے مرڈر کرنے کے مبینہ واقعات یا خودکشی کے واقعات نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔

گزشتہ دو سال سے ایسے واقعات سندھ، پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور سندھ بھر میں والدین اپنی بچیوں کو یونیورسٹیز میں پڑھنے کے لیے بھیجنے پر خوف کا شکار ہیں۔ ان واقعات کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے،

1۔ شہید بی نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ کے آصفہ میڈیکل کالج میں 19 ستمبر 2019 کو ایک طالبہ نمرتا مہر چندانی اپنے ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئیں۔ خبر سندھ بہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ لڑکی کو مبینہ طور پر ریپ کر کے قتل کیا گیا ہے اور اس قتل کو خودکشی کا رنگ دیا گیا ہے۔ یہ واقعہ قانون کی گرفت میں حل ہوائی نہیں کہ دو سال بعد 24 نومبر 2021 کو اسی یونیورسٹی میں چوتھے سال ایم بی بی ایس کی اسٹوڈنٹ نوشین کاظمی کی لاش گرلز ہاسٹل میں پنکھے میں لٹکتی پائی گئی۔

پہر وہی بات سامنے آئی کہ اس لڑکی کو بھی ریپ کر کے قتل کیا گیا ہے۔ ان دونو کیسز میں میڈیکل رپورٹ کے مطابق نمرتا کے ساتھ سیکس ہوا تھا مگر نوشین کے ساتھ سیکس کے کوئی شواہد نہیں ملے تھے۔ نوشین کے کیس میں بھی سندھ بہر میں ایک طوفان مچا جو ابھی تک نہیں تھما۔ ایک خوف کی فضا ہے اور تعلیمی اداروں میں لوگ اپنی بچیوں کو بھیجتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ ان واقعات سے سندھ اور پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے۔ خاص کر کے امرتا مہر چندانی کے کیس میں کیونکہ معاملہ ہندو لڑکی کا ہے اس لیے پوری دنیا میں رہنے والے سندھیوں خاص کر کے ہندو سندھیوں میں خوف پیدا ہوا اور یوں معاملہ اٹھا کہ پاکستان میں اب ہندو اسٹوڈنٹس خاص کر کے لڑکیاں غیر محفوظ ہیں۔ ان دونوں کیسز میں۔ پولیس تفتیش، پہر جوڈیشل تفتیش۔ فارنسک تفتیش۔ میڈیا ہائیک، یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف سب کچھ آپس میں ایسے الجھے کہ معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھتا جا رہا ہے۔

ایک دوسرے پر الزامات، سیاسی مداخلت، گالم گلوچ، ہر دوسرے فریق کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد سب نے معاملے کو ایک خطرناک رخ دے دیا ہے۔ ایسے میں حال ہی میں اچانک جامشورو سے ایک لوکل ٹی وی کے نمائندے کی ایک خبر نے طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ خبر میں نمرتا اور نوشین کی ڈی این اے رپورٹ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو کی فارنسک لیبارٹری کے لیٹر ہیڈ پر ٹی وی اسکرین پر دکھائی گئی جس میں لکھا ہوا ہے کہ نمرتا اور نوشین کے جسم کے اندر جس مرد کے اجزا پائے گئے ہیں وہ ایک ہی شخص ہے اور ڈی این اے 50 فیصد میچ ہو رہا ہے۔

اس رپورٹ نے عوام میں ایک مرتبہ دوبارہ غم اور غصہ پیدا کیا ہے اور سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا لاڑکانہ کی اس یونیورسٹی میں کوئی سیریل ریپسٹ اور قاتل موجود ہے؟ ادھر مالیکیولر سائنس کے ماہر امریکا میں گزشتہ 25 سال سے دنیا کے ایک بھت بڑے ادارے سے منسلک ڈاکٹر نور خاصخیلی، جو کہ اسی لیاقت یونیورسٹی کی مالیکیولر لیب کے بانیوں میں سے ہیں سے میں نے پوچھا تو ان کا کہنا ہے کہ ڈی این اے 50 فیصد میچ کا کوئی کانسیپٹ ہے ہی نہیں۔ ( 50 فیصد صرف والدین سے میچ ہوتا ہے ) اس صورتحال میں اس رپورٹ نے پہلے سے مشکوک معاملات کو اور مشکوک بنا دیا ہے کہ یہ رپورٹ کیوں دی گئی اور ایک انتہائی خفیہ رکھی گئی ڈی این اے رپورٹ ایک عام سے لوکل صحافی کو کیسے ملی؟ ایسی رپورٹ ایک خاص وقت پر جاری کرنے کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں۔ میں اس اسٹوری پر دو سال سے ریسرچ کر رہا ہوں جس کے مطابق سمجھ میں آ رہا ہے کہ

1۔ لوکل پولیس، شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی انتظامیہ، لاڑکانہ کے کچھ سیاستدان، جامشورو کی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ اور سندھ حکومت نے اس کیس کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور اس کیس کی ایک کرمنل کیس کے طور پر میرٹ پہ تفتیش نہیں کی ہے۔ اس معاملے میں شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ انہوں نے ان واقعات پر بارہا سندھ حکومت۔ سندھ پولیس کو خطوط لکھے حتی کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے کی مگر یونیورسٹی کو کسی تفتیشی عمل کی کسی رپورٹ کی کوئی کاپی نہیں دی گئی حتی کہ نمرتا چندانی کی ڈی این اے رپورٹ آؤٹ تو کی گئی مگر یونیورسٹی کو آج تک نہیں ملی۔

اس کیس کے مندرجہ ذیل سوالات کے جواب مل جائیں تو یہ کیس حل ہو جائے گا۔

1، نمرتا چندانی کے خاندان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کیس بند کرنے کی درخواست کیوں کی؟

2 نمرتا کے ڈی این اے کس کے ساتھ میچ ہیں؟ کیا لیاقت یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر بیکھا رام نے نمرتا کی فیملی کو آف دی رکارڈ بتا دیا ہے کہ نمرتا کے جسم سے ڈی این اے کس کے ساتھ میچ ہو رہے ہیں؟ جس کے بعد اس کیس کو ایسا بند کیا گیا کہ دو سال ہونے کو ہیں سندھ حکومت خاموش ہے

3 لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو کے موجودہ وقتی وائس چانسلر ڈاکٹر اکرام اجن سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ ان کی یونیورسٹی سے دو سال سے بند اتنی کانفیڈنشل ڈی این اے رپورٹ عین اس وقت کیسے لیک ہوئی جب ان کی جگہ یونیورسٹی کی وائس چانسلر بننے کے پراسس سے گزر کر ایک خاتون متوقع وی سی بننے کے لیے میرٹ لسٹ میں ٹاپ پر ہیں۔ کیا اس خاتون کو وائس چانسلر بننے سے روکنے کے لیے تو رپورٹ لیک نہیں کروائی گئی؟

4 ڈاکٹر اکرام اجن سے یہ سوال بھی بنتا ہے کہ، 50 فیصد ڈی این میچ کا سن کر مالیکیولر سائنس کا ہر ماہر لیاقت میڈیکل یونیورسٹی پر ہنس رہا ہے کیونکہ ڈی این اے 100 فیصد میچ ہوتا ہے نہ کہ 50 فیصد۔ ہاں 50 فیصد صرف والدین سے میچ ہوتا ہے۔ اس رپورٹ سے تو پھر نمرتا، اس کی فیملی اور نوشین فیملی سب کا تعلق جڑ جائے گا۔ اس سوال کا جواب بھی ڈاکٹر اکرام اجن اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے فارنسک ہیڈ اکبر قاضی صاحب ہی دے سکتے ہیں،

5 شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کیونکہ لاڑکانہ میں ہے اس لیے مشہور ہے کہ اس یونیورسٹی کا پتا بھی کچھ سیاسی شخصیات اور کچھ سرکاری ملازمین کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا۔ بلاول بھٹو زرداری کے استاد جمیل سومرو، زرداری صاحب کی بہن ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے صلاح کار قاسم سومرو، سیکشن افسر فہیم چاچڑ، زرداری صاحب کی دوسری بہن فریال ٹالپر صاحبہ کے پی ای مصطفی لغاری، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے وقتی وائس چانسلر ڈاکٹر اکرام اجن اور شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے ڈاکٹر حاکم ابڑو صاحبان کیونکہ سندھ کے اداروں کو چلاتے ہیں وہ بتائیں کہ دو سال سے اس یونیورسٹی میں ریپ، مرڈر، خودکشی کے واقعات ہو رہے ہیں مگر اب تک کیس حل نہ ہونے کا کیا سبب ہے؟

بہرحال ان سب واقعات سے پاکستان کے سب ادارے ایسے لاتعلق بنے ہوئے ہیں جیسے لاڑکانہ پاکستان میں ہے ہی نہیں۔
یہ کوئی عام کیس نہیں۔ لوکل انتظامیہ اور سندھ گورنمنٹ اس مسئلے کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے ہیں۔

اس معاملے پر وفاقی حکومت وفاقی ایجنسیز پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دینے اور سارے معاملات کی از سر نو تفتیش کرنے کے ساتھ ہر قسم کی فارنسک جانچ سندھ سے باہر کی لیبارٹری سے کروائی جائے اور فارنسک لیبارٹری لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو سے سب سیمپل اور رکارڈ واپس لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments