جب ڈپٹی کمشنر استانی جی کے عاشق ہوئے – سچی کہانی


کچھ عرصہ پہلے جیو ٹی وی سے نشر ہونے والے ایک ڈرامے ”ادھوری عورت“ کی چند ابتدائی قسطیں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ڈرامے کی کہانی میں اداکار (فیصل قریشی) زین کے نام سے ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔

ضلع کے بعض سرکاری سکولوں میں شام کی کلاسز شروع کرنے کے سلسلے میں سرکاری خواتین ٹیچرز کے انٹرویوز ڈپٹی کمشنر خود کر رہا ہوتا ہے۔ جبھی انٹرویو کے لیے آئی ہوئی سرکاری سکول کی ایک عام سی ٹیچر مریم (عائزہ خان) اپنے پراعتماد رویے، سوالوں کے جوابات اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر کے دل کو بھا جاتی ہے۔ پھر وہ اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے سارے خاندان سے ٹکرا کر، حتی کہ لڑکی سے تذلیل تک کروا کر پھر بھی اس سے شادی کرنے کے لیے آخری حد تک چلا جاتا ہے۔

وہ کہانی الگ سے ہے کہ آگے چل کر ڈپٹی کمشنر سے شادی کے بعد مریم کو اس کی فیملی کے کتنے ظالمانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ستائیس اقساط پر مشتمل ڈرامہ سیریل کی کہانی کافی دلچسپ ہے۔ یہ تو خیر ڈرامہ تھا۔ تاہم اسے دیکھتے ہوئے بالکل ایک سچی کہانی میرے ذہن میں گھوم گئی۔ آئیے آپ کو ایک حقیقی ڈپٹی کمشنر اور سکول کی استانی جی کی حقیقی کہانی سناتے ہیں۔

کافی سال پرانی بات ہے، جب ضلع سیالکوٹ میں ایک ڈپٹی کمشنر آ کر لگے۔ روایتی افسر شاہی والے رعب و دبدبے، متکبرانہ روئیے اور ’ڈپٹی کمشنری‘ کی ”پھوں پھاں“ کے ساتھ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ اپنی تعیناتی کے عرصے میں انہیں کسی نے مسکراتے ہوئے کم ہی دیکھا ہو گا۔

دیگر سرکاری ذمے داریوں کے علاوہ ڈپٹی کمشنر کے زیر کمان ایک وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ایک انگلش میڈیم سکول بھی تھا۔ جس کے بورڈ آف گورنرز کے وہ چیئرمین تھے۔ بورڈ آف گورنرز بھی کیا تھا۔ بس ایک ون مین شو تھا۔ سارے معاملات میں چیئرمین کی مرضی چلتی تھی۔ باقی ممبران اسی کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے تھے۔ اپنی تعیناتی کے کچھ دنوں بعد ایک دن ڈپٹی کمشنر مذکورہ سکول تشریف لے گئے۔

پرنسپل نے پرجوش طریقے سے ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں سکول کا ایک راؤنڈ لگوایا۔ ڈپٹی کمشنر نے پرنسپل سے کہا کہ وہ سکول کے ٹیچنگ سٹاف سے بھی ملنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش کے پیش نظر سکول کے کوئی سو کے قریب مرد و خواتین اساتذہ کو سکول کی لائبریری میں اکٹھا کیا گیا۔

میٹنگ کی ابتداء میں سکول کے پرنسپل نے نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر کا تعارف کرایا اور انہیں خطاب کی دعوت دی۔ ڈی سی صاحب نے کوئی چند منٹ بڑی اچھی انگریزی میں تعلیم اور اساتذہ کی ذمہ داریوں کے حوالے سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے اساتذہ کو دعوت دی کہ اگر کوئی سوال پوچھنا چاہے یا کوئی تجویز دینی چاہے، تو بے خوف دے سکتا ہے۔ ایک دو مرد ٹیچروں نے انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کیا اور پھر خاموشی چھا گئی۔

ڈپٹی کمشنر نے اپنے دائیں جانب بیٹھی ہوئی پچاس ساٹھ کے قریب خواتین ٹیچرز کی جانب نگاہ دوڑائی، تو ابتداء میں کسی نے سوال کی جرآت نہ کی۔ ایک گہرے سکوت کے ماحول میں سبھی کو خاموش پا کر ایک نسبتاً نوآموز، ایم اے انگریزی کر کے انگلش ٹیچر لگنے والی مس ثمرین نے آخر جرات کی، اور بولنے کے لیے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا دیا۔

سرخ و سفید رنگت، دلکش چہرے، متناسب بدن اور مناسب قامت کی اس ٹیچر کو ڈپٹی کمشنر نے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، ”یس پلیز“ ۔ پراعتماد مس ثمرین نے انگریزی کے شستہ لب و لہجے اور شیکسپیئرین سٹائل میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے سکول ہذا میں کون سا انگلش سلیبس پڑھایا جا رہا ہے اور کس طرح اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے، کے علاوہ عمومی تعلیمی نظام میں خرابیوں کی نشاندہی کی۔

تین چار منٹ کے اس فی البدیہہ بریف کو ڈپٹی کمشنر بڑے انہماک سے سنتے رہے۔ مس ثمرین نے جب اپنی بات ختم کی، تو ڈپٹی کمشنر کے سپاٹ چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے مس ثمرین کی تعریف کی اور اس کی جانب سے دی گئی تجاویز کو سراہا۔ اور یوں سٹاف کی ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ہونے والی یہ پہلی نشست برخاست ہو گئی۔

اب سکول میں مالیوں سے لے کر پرنسپل سمیت سبھی نے ایک بات نوٹ کی کہ سابق ڈپٹی کمشنرز کی نسبت موجودہ ڈی سی صاحب تواتر کے ساتھ سکول آنے جانے لگے ہیں۔ بعض اوقات تو ہر ہفتے تشریف لے آتے۔ جب بھی آتے، ان کی کوشش ہوتی کہ سٹاف میٹنگ ضرور ہو۔ ایسی میٹنگز میں شامل رہے واقفان حال کا کہنا ہے کہ اب ڈپٹی کمشنر کی زیادہ تر توجہ اور التفات کا مرکز مس ثمرین ہوتی تھی۔

بہانے بہانے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے اسی ”ماہ جبیں“ کی تجاویز سننے کے متمنی رہتے۔ ایک دو دفعہ تو اسے پرنسپل کے آفس میں بلوا کر، گو پرنسپل کی موجودگی میں، اس کے خیالات عالیہ سے مزید مستفید بھی ہوئے۔

کہتے ہیں ناں کہ ”عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے“ کے مصداق اب سکول میں ڈپٹی کمشنر اور مس ثمرین کے متعلق چہ میگوئیاں ہونے لگیں تھیں۔ حالانکہ دونوں کی عمروں میں تقریباً دوگنا فرق تھا۔ اب مس ثمرین کی بے تکلف سہیلیاں ڈپٹی کمشنر کی سکول آمد پر اسے ”لے نی تیرا ڈی سی آ گیا“ کہہ کر چھیڑتیں، تو پہلے پہل تو وہ ان پر خفا ہوتی رہی، مگر پھر آہستہ آہستہ ان کے کریدنے پر زیرلب مسکرا اور شرما کر مزید سرخ ہو جاتی۔

سکول میں اس بات کے اب کچھ زیادہ ہی چرچے ہونے لگے۔ تو دونوں محتاط ہو گئے۔ اور اب سلسلہ سکول سے ہٹ کر ٹیلی فون گفتگو سے ہوتا ہوا سکول سے باہر پرائیویٹ ملاقاتوں تک جا پہنچا۔ مس ثمرین کی ایک دو گھاگ سہیلیوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر اس کے ذریعے ڈپٹی کمشنر سے سکول میں اپنی مرضی کے فیصلے کروانے شروع کر دیے۔ ابتداء میں اپنے راستے کی رکاوٹ اور روک ٹوک کرنے والے وائس پرنسپل کو اس کے عہدے سے ہٹوا دیا گیا۔

اس کا فیصلہ بھی ایک دن انتہائی عجلت میں عمل میں آیا۔ ڈپٹی کمشنر ایک دن حسب معمول اچانک سکول کے معائنے پر آئے، اور سٹاف میٹنگ کے دوران اچانک پرنسپل سے مشورہ کیے بغیر ہی کہا کہ ”سکول کی بہتری کے لیے مسٹر وائس پرنسپل کو ان کے عہدے سے ہٹایا جا رہا ہے۔ ہاں اگر وہ بطور ٹیچر اپنی خدمات سکول کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں“ ۔ ساتھ ہی انہوں نے ان دو گھاگ ٹیچروں میں سے ایک کو وائس پرنسپل مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ دونوں فیصلے پرنسپل سمیت سارے سکول کے لیے انتہائی اچنبھے کا باعث تھے۔

کچھ عرصے بعد ہی وائس پرنسپل مقرر ہونے والی خاتون کی نظریں اب پرنسپل کی سیٹ پر لگ گئیں۔ اس کے لیے باقاعدہ لابنگ شروع کر دی گئی۔ اس مقصد کے لیے ایک بار پھر مس ثمرین استعمال ہوئی۔ اور جونہی موجودہ پرنسپل کا کنٹریکٹ ختم ہوا تو انہیں مزید توسیع دینے کی بجائے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے مذکورہ وائس پرنسپل کو پرنسپل بنوا دیا گیا۔

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر اور مس ثمرین کی لو سٹوری یا دوسرے لفظوں میں ”معاشقہ“ اندر کھاتے پورے زوروں پر تھا۔ اس بات کا سکول میں تو سب کو پتہ تھا۔ مگر سکول سے باہر اس معاملے کی بھنک کسی کسی کو ہی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کار سرکار کے ساتھ ساتھ اپنے عشق کے معاملات بھی خوب چلا رہے تھے۔

اب انہوں نے یہ کیا کہ جب سکول میں ان کے چرچے کچھ زیادہ ہی پھیلنے لگے تو انہوں نے مس ثمرین کی سکول کی ملازمت ختم کروا دی۔ انہی دنوں لاہور کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کی برانچ سیالکوٹ میں کھلنے جا رہی تھی۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے مس ثمرین کو سیالکوٹ میں اس ادارے کی ڈائریکٹ پرنسپل لگوا دیا۔ یہ تو ایسے ہی ہوا، جیسے کسی حوالدار کو تھانے کا ڈائریکٹ ایس ایچ او لگا دیا جائے۔

ایک سکول ٹیچر سے ایک بڑے سکول کی پرنسپل لگ کر مس ثمرین نے خوب پر پرزے نکالنے شروع کر دیے۔ ڈپٹی کمشنر نے اس پر مزید کرم فرمائی یہ کی کہ اس کے آنے جانے کے لیے ایک پرائیویٹ کار بمعہ ڈرائیور اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔

کچھ ہی عرصے بعد جب ڈپٹی کمشنر کے طفیل مس ثمرین کو ساری آسائشیں ملنی شروع ہو گئیں تو اسے اپنے مزید بہتر مستقبل کی فکر لاحق ہونی شروع ہو گئی۔ ڈپٹی کمشنر چونکہ عمر میں اس سے دگنے، پہلے سے شادی شدہ اور جوان بچوں کے باپ تھے۔ ان کے معاشقے کا یہ چکر بھی غالباً پہلی بیوی اور ان کے بچوں علم سے بالا بالا ہی چل رہا تھا۔

ایک دن موڈ میں دیکھ کر مس ثمرین نے کھل کر ڈپٹی کمشنر سے اپنے مستقبل، خصوصاً شادی کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے اسے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ وہ ان کی محبوبہ ہے۔ لیکن وہ نہیں چاہتے کہ اس کا علم ان کی فیملی کو ہو۔ جب ثمرین کا شادی کے حوالے سے اصرار بڑھا، تو انہوں نے حامی بھر لی کہ وہ اس سے نکاح کر لیں گے۔ مگر اسے اپنے گھر نہیں رکھیں گے۔ تم فی الحال اپنے والدین کے گھر ہی رہو گی۔ میں وہیں آ جایا کروں گا۔ یا پھر بعد میں تمہیں الگ گھر لے دوں گا۔

پھر اڑھائی تین سال بعد پروموشن ہونے پر ڈپٹی کمشنر کا سیالکوٹ سے لاہور تبادلہ ہو گیا۔ انہوں نے ثمرین سے نکاح تو کر لیا۔ مگر اسے خفیہ رکھا گیا۔ ثمرین کہتی، نکاح خفیہ کیوں؟ ڈپٹی کمشنر کا جواب ہوتا کہ وہ اپنی خانگی اور معاشرتی مجبوریوں کی بنا پر اسے افشا نہیں کر سکتے۔ ان دونوں کی بہتری اسی میں ہے کہ نکاح کو خفیہ ہی رکھا جائے۔ تمہیں اخراجات وغیرہ کے پیسے ملتے رہیں گے۔ تم میری سرکاری حیثیت سے جو بھی مفاد حاصل کرنا چاہو کر سکتی ہو۔ اس قسم کی اندرونی باتیں ثمرین کے ذریعے اس کی خاص سہیلیوں تک پہنچتی، جو بعد ازاں گھومتی پھرتی اس کے سابقہ دیگر کولیگز تک بھی پہنچ جاتیں۔

بالآخر ثمرین نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ ثمرین ایک طویل عرصہ پرکشش تنخواہ و دیگر مراعات کے ساتھ اسی سکول کی پرنسپل تعینات رہی۔ اور اپنی دوست کو بھی کئی سال دوسرے سکول کی پرنسپل بنوائے رکھا۔

اس معاملے سے واقفیت رکھنے والے ایک ذرائع نے مجھے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ ”سیالکوٹ سے تبادلے کے بعد جب ڈپٹی کمشنر لاہور چلے گئے۔ تو جس رات کو انہوں نے لاہور سے ثمرین کے گھر سیالکوٹ آنا ہوتا تھا، انہیں دن کے وقت ہی پتہ چل جاتا تھا کہ آج رات وہ آئیں گے۔ کیونکہ اس دن ثمرین کی جانب سے بکرے کی ایک ران کا مقامی ایک قصاب کو آرڈر دیا جاتا۔ جس کو پھر ایک جگہ سے مصالحہ جات لگوا کر روسٹ کروایا جاتا تھا۔

بکرے کی روسٹ ران ڈپٹی کمشنر کی مرغوب غذا تھی۔ وہ رات گئے سیالکوٹ کے ایک محلے کی ایک تنگ سی گلی میں ثمرین کے گھر آتے۔ رات وہیں گزارتے۔ بکرے کی روسٹ ران اور ثمرین کی صحبت سے خوب لطف اندوز ہوتے۔ اور اگلے دن واپس لوٹ جاتے۔ ایسا عمل مہینے میں ایک دو بار تو ضرور ہوتا تھا، اگر وہ خود سیالکوٹ نہ آ سکتے تو پھر ثمرین کو لاہور بلوا لیتے تھے۔

پھر وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا۔ ڈپٹی کمشنر کے گاہے بگاہے سیالکوٹ کے چکر بھی لگتے رہے۔ انہوں نے پہلے سے شادی شدہ ہوتے ہوئے عشق بھی خوب کیا اور ساتھ ساتھ ان کی محکمانہ ترقی بھی ہوتی رہی۔ پنجاب میں وہ کئی اہم صوبائی محکموں کے سیکرٹری بھی رہے۔

سینئر ہونے کے بعد پھر وہ اسلام آباد ٹرانسفر ہو گئے۔ جائنٹ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری سمیت کئی اہم جگہوں پر سینیئر پوسٹوں پر تعینات رہے۔ پھر انہیں گریڈ۔ 22 بھی مل گیا۔ بعد ازاں دو تین اہم وفاقی محکموں کے فیڈرل سیکرٹری تعینات رہنے کے بعد وہ سرکاری ملازمت ریٹائر ہو گئے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ڈپٹی کمشنر سے ثمرین کا ایک بیٹا بھی ہے۔ ثمرین کی فیملی میں تو سب کو اس کے نکاح کا پتہ ہے۔ مگر ڈپٹی کمشنر کی فیملی کو اس کے متعلق آگاہی ہے یا نہیں اس کے متعلق علم نہیں ہو سکا۔ اس کہانی سے واقفیت رکھنے والے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے اسے کچھ عرصہ تو دوسرے شہر میں رکھا مگر پھر واپس سیالکوٹ بھیج دیا۔

ثمرین اب بھی اسی تنگ و تاریک گلی میں اپنے والدین کے گھر میں رہتی ہے۔ اس کی ماند پڑتی دلکشی وجہ ہے یا ڈپٹی کمشنر کی بڑھتی ہوئی عمر یا اس کی دیگر مجبوریاں۔ وہ کبھی کبھار آتا تو ہے مگر اس کے سیالکوٹ میں اپنی محبوبہ کی گلی میں لگنے والے چکروں میں اب وہ پہلے والی مستعدی اور گرمجوشی نہیں رہی۔ ***

نوٹ: (شناخت چھپانے کے لیے اس سچی کہانی کے بعض کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ کسی سے مطابقت محض اتفاقیہ ہو گی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments