تعلیم یا آموزش


تاریخ شاہد ہے کہ کوئی قوم اس وقت بام عروج پر پہنچتی ہے، جب اس کے افراد جسمانی، روحانی اور ذہنی طور پر کم از کم بشریت اور اکملیت کے کمال پر پہنچے ہوئے ہوئے ہوں۔ افراد کو معاشرے کا مفید فرد بنانے میں والدین اور اساتذہ ایک کامیاب کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے اہم ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے افراد کی تربیت کے لئے ایسا نظام متعارف کروائیں جو علاقائی اور معاشرتی مسائل کا مکمل حل پیش کرے اور ایسا ایک بہترین نظام تعلیم کی بدولت ہی ممکن ہے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے 80 فیصد ریاستی تعلیمی ادارے نونہالان وطن کو سکھانے کی بجائے صرف پڑھانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم بچے کو ایک انصاف پسند اور پر امن شہری بنائیں، ہم اس کو سکھانے کے لئے معاشرے اور وقت کے بے رحم جبڑوں میں لا کر پھینک دیتے ہیں اور وہ ظالم معاشرتی تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے کے لئے یکا و تنہا رہ جاتا ہے۔ نا اہل افسران اور اساتذہ اس کو معاشرے میں ایک پرامن انسان کی طرح زندہ رہنے کی بجائے جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کے قانون کا درس دے کراس کے ذہن میں نا انصافی کی تصور راسخ کرنے کی حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں۔

کہتے ہیں کہ امام غزالیؒ سے ایک مرتبہ بادشاہ وقت نے کچھ تجاویز مانگیں تو انہوں نے کہا کہ مدرسے میں داخلے کے لئے یہ شرط رکھی جائے کہ ہر طالب علم کوئی ہنر سیکھے گا، جو کوئی ہنر نہ سیکھنا چاہے اسے مدرسے میں داخلہ نہ دیا جائے۔ ایک ادنیٰ طالب علم اور ہمارے تعلیمی نظام کا چالیس سال تک مشاہدہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارا نظام تعلیم ڈگری کے نام پر کاغذات کے چند ٹکڑے دینے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکا۔

نرسری سے لے کر ماسٹرز کی ڈگری تک مجھے آج ایک بھی ایسا طالب علم نہیں ملا جس کو اپنے مضمون پر مکمل عبور حاصل ہو اور اپنے اس علم کی مدد سے وہ معاشرے کو کوئی فائدہ پہنچا رہا ہو۔ علم اور کتاب سے دوری کا رونا تو ہر شخص اور اہل دل روتا ہے لیکن کوئی بھی ایسا موثر حل پیش کرنے میں ہم ہمیشہ ناکام رہے ہیں اور اگر کوئی مجھ جیسا کم فہم طالب علم فرسودہ اور پرانے نظام تعلیم میں تبدیلی کے لئے مناسب اقدامات اٹھانے کی بات کرتا ہے تو اس کی آواز کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔

تقسیم سے لے کر آج تک ہمارا نظام ایسے مفاد پرست اور نا اہل عناصر کے پاس ہے جن کو مغربی تقلید کا جنون ہے۔ یہ ارباب اختیار زمینی حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہمیشہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ مغربی تقلید میں اپنے ہی گلے پر استرا پھیر دیں۔ ایک کمزور نظام تعلیم کی وجہ سے ہی معاشرے میں بے روزگاری، اقرباء پروری اور سماجی نا انصافی جیسی برائیاں بڑھتی ہیں، جس کا لامحالہ نقصان پوری قوم کو اٹھانا پڑتا ہے۔

مختلف سروے اس امر کے شاہد ہیں کہ دنیا میں اس وقت بہترین نظام تعلیم کے حامل ممالک میں فن لینڈ، جاپان، جنوبی کوریا اور ڈنمارک صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستہائے متحدہ امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور دبئی میں بچوں کو کھیل، آرٹس اور مختلف سرگرمیوں کے ذریعہ صرف تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے ان کو کچھ نہ کچھ سکھا یا جاتا ہے۔ فن لینڈ جو دنیا میں اس وقت تعلیم اور آموزش کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے، فن لینڈ میں طلباء کو کھیل ہی کھیل میں سکھایا جاتا ہے اور والدین کو اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ 6 سال سے پہلے آپ اپنے بچے کو کسی سکول یا ادارے میں داخل نہیں کر سکتے۔

چھ سال تک والدین نے خود ہی بچے کی تربیت کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ متذکرہ بالا تمام ممالک میں بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے اور سکول نہ بھیجنے والدین کے خلاف قانونی کارروائی بھی ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ ان تمام ممالک میں تعلیم کی شرح 90 فیصد سے 99 فیصد تک ہے۔ ان تمام ممالک میں بچوں کی ذہنی، روحانی اور جسمانی تربیت پر توجہ دے کر ایک مفید، قابل، ذہین اور جسمانی طور پر مضبوط شہری بنا کر معاشرے کے حوالے کیا جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں اگر ہم اپنے نظام تعلیم کا مشاہدہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ والدین اور اساتذہ تو کجا خود بچے کو سیکنڈری سطح تک یہ علم نہیں ہوتا کہ کون سے شعبے کو اختیار کر کے ملک و ملت کے لئے کوئی خدمت سر انجام دے۔ ہمارے نظام کی خوبی دیکھیں کہ ایک فنکار یا آرٹسٹ کو ڈرائنگ اور مصوری سکھانے کی عمر میں اس کو ریاضی، بیالوجی اور کیمسٹری کی مساوات اور فارمولے سکھائے جاتے ہیں، ایک ایسا طالب علم جو شاعری میں دلچسپی رکھتا ہے اس کو انگریزی اور مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ سائنس کی لازمی تعلیم دی جاتی ہے، مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ شاعر اپنی سائنس کی کتاب سے یا ایک مصور اپنی ریاضی کی کتاب سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

اس کے علاوہ ایک ایسا طالب علم جس نے ایک کامیاب سرجن بننا ہے اس کو ایف ایس سی تک، اردو، مطالعہ پاکستان اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ریاضی کا الجبرا کیوں پڑھایا جاتا ہے؟ میرے خیال میں ابھی تک ہمارے وطن عزیز میں کوئی بھی ایسا تعلیمی ادارہ نہیں ہے جہاں بچے کو اس کی مرضی یا دلچسپی کے مطابق تعلیم دی جا رہی ہو یا اسے کچھ سکھایا جا رہا ہو۔ دیکھا جائے تو پانچویں گریڈ تک دنیا کا ہر طالب لکھنے اور پڑھنے جیسی استعداد تو لازمی حاصل کر لیتا ہے۔

اس استعداد کے بعد وہ کم از کم اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اس زبان کی ہر کتاب کو پڑھ سکے جو دوران تعلیم اس کو سکھائی گئی ہے۔ اگر پانچویں جماعت کے بعد ہر طالب علم کا نفسیاتی اور ذہنی جائزہ لے کر اس کو اپنے من پسند مضامین کا نصاب دے دیا جائے تو لامحالہ وہ خوشی خوشی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں معاشرے کا ایم مفید رکن ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک کا المیہ بھی یہی ہے کہ بچے کے مزید پانچ سال ہر مضمون کی بنیادیں مہارتیں سیکھنے میں ضائع کر دیے جاتے ہیں۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مہارتوں کو سکھانے کی بجائے صرف پڑھایا جاتا ہے اور رٹا لگوا کر بچے کو صرف امتحان میں اچھے نمبر لینے کے ہی تیار کیا جاتا ہے۔ میڈیکل یا انجینئرنگ کے داخلہ ٹسٹ اٹھا کر دیکھ لیں یا کسی بھی بڑے تعلیمی ادارے کے داخلہ ٹسٹ کا مشاہدہ کریں، صرف طالب علم کے انٹرنل گریڈ کو ہی میرٹ بنا کر اس کو متعلقہ شعبے میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ آج تک کسی بھی ادارے نے کسی بھی بچے کی متعلقہ شعبے میں خفتہ اور ظاہری صلاحیتوں کی جانچ نہیں کی۔

ایلیمنٹری اور پرائمری سطح پر بچوں کے لئے کوئی بھی عملی امتحان نہیں لیا جاتا اور نہ ہی اس مقصد کے لئے مڈل اور پرائمری سکولوں میں کوئی لیبارٹریز قائم کی گئی ہیں۔ میرے علم میں ایسے بے شمار اساتذہ ہیں جو شہادۃ العالمیہ کی ڈگری کے حامل ہیں لیکن پرائمری سکولوں میں طلباء کو سائنس کی تعلیم بھی دے رہے ہیں، ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ایسے اساتذہ بچوں کو سائنس پڑھا تو سکتے ہیں لیکن سکھانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

ہنر سیکھنے اور سکھانے کی بات ہو تو ہمارے ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں اس وقت میٹرک کے بعد چھ ماہ، ایک سال اور تین سال کے مختلف کورسز میں داخلہ دیا جا رہا ہے اور ڈگری بھی دی جا رہی ہے لیکن ان کے لئے روزگار کا کوئی بندوبست نہیں کیا جا تا، جس کی وجہ سے ان ووکیشنل اداروں سے فارغ التحصیل طلباء کی بڑی تعداد بے روز گار ہو کر مزدوری کرنے کے ساتھ غیر متعلقہ شعبہ جات میں اپنے فرائض سر انجام دینے پر مجبور ہے۔

ضرورت تو اس امر کی ہے کہ فنی تعلیم کے یہ ادارے مختلف کارخانوں، اداروں، دفاتر اور فیکٹریوں کو انسانی وسائل فراہم کرنے کے لئے پہلے ہی اپنے اعداد و شمار جمع کر لیں اور جن اداروں کو ماہرین کی زیادہ ضرورت ہے، اسی طرح کے ہنر مند مہیا کریں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ فنی تعلیم کے یہ ادارے بچوں کو پانچویں گریڈ کی تعلیم کے بعد ہی سکولوں سے منتخب کر لیں اور ان کو پانچ سال کے عرصہ میں انتہائی قابل اور مفید ہنرمند بنا دیں۔ میرے خیال میں دنیا کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے چھ ماہ کی قلیل مدت کی تربیت کافی ثابت ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments