داستان افغان فروشوں کی


جاڑے کی گلابی سہ پہر ماضی کی یادیں یوں یلغار کرتی ہیں جیسے صاحبقراں امیر تیمور کے لشکر غنیم کو تہہ تیغ کرنے بڑھے آتے ہوں۔ وائے افسوس۔ کیسے گہر تھے جو خاک میں مل گئے۔ کیسی ذہانتیں تھیں جو ستائش کی تمنا سے ماورا غیاب و خاموشی میں وطن پر قربان ہو گئیں۔

نصف صدی ادھر، جاڑے کے یہی دن۔ فقیر مشروب کی تلاش میں سرگرداں۔ جارج گھسیٹے خاں مگر، جیسز کرائسٹ ان کے کیسکٹ کو نور سے بھر دے، پکڑائی نہ دیتے تھے۔ اسی گربہ حالی میں پہلی دفعہ ان سے ملاقات ہوئی۔ زیرو پوائنٹ کے سناٹے میں فقیر درویشی بوٹی کی چنائی میں مشغول تھا کہ اچانک بائیسکل کی جرس نے متوجہ کیا۔

باریک ہونٹ، کشادہ پیشانی، شام کے جھٹپٹے میں نور سے دمکتا چہرہ، دبادب بائیسکل کے پیڈل مارتا یونانی دیوتا۔ فقیر کہ ان دنوں آتش جواں تھا خود بھی رحیم یار خانی حسن کا نمونہ تھا۔ پھتے نائی کی دکان پر بال بناتے ہوئے اپنے ہی حسن سے شرما کر فقیر اکثر ماشاءاللہ کہہ کر پھونک مار دیا کرتا۔ گھنے بالوں کے گچھے کہ اب یہ گپ لگتی ہے، فقیر کے شانوں پر جھولا کرتے۔ قصہ مختصر۔ پہلی نگہ میں طالبعلم اس جوان رعنا کا قتیل ہو گیا۔ لتا یاد آئیں۔

یہ ملاقات اک بہانہ ہے۔ پیار کا سلسلہ پرانا ہے

فاتح بائیسکل سے قلانچ بھر کے اترے اور فقیر سے یوں مخاطب ہوئے، ۔ ابے او ٭٭٭٭٭٭ والے چچا۔ کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ ”طالبعلم کا دل خوں، جگر چاک ہوا۔ عمر کا فرق اگر تھا بھی تو عشرے سے کم اور اس وقت تو بدنام زمانہ“ مرزا پور ”کے لکھاری پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ فقیر رئیلی میں ہرٹ ہوا۔ آہستگی سے فاتح کے قریب جا کر شانوں سے زلفیں سمیٹیں، پونی بنائی اور کہا،“ ہمارے سپلائر گیڑا کرا گئے۔ درویشی بوٹی کی تلاش میں ہیں۔ آج شب ورنہ شب فراق سے طویل ہو جائے گی۔ ” فاتح یکلخت ٹھٹکے۔ کہا، اتنی سی بات تھی، پہلے بتایا ہوتا۔ فاتح نے کوٹ کی اندرونی جیب سے مون وہسکی کا پوا نکالا۔ طویل گھونٹ لیا۔ بوتل فقیر کی طرف بڑھا دی۔ طالبعلم کے کاٹو تو بدن میں لہو ندارد۔ یقین ہمارے ڈھلمل، ایمان شکستہ۔

وہ رات اپن دو بجے تک پیا۔

ایسے درویش بے ریا کو کیا ضرورت پیش آئی کہ پیسے گن گن کر رکھتا رہا؟ خدا کی قسم یہ جھوٹ ہے۔ فقیر کو سارے قصے کا علم ہے۔ ایک دن آئے گا کہ پوری کہانی بیان کر دی جائے گی۔ اس شام سے جڑا تعلق ساری زندگی پر محیط ہوا۔ گرمی کی کوئی سہ پہر ایسی نہ تھی کہ فقیر گنڈیریاں لے کر فاتح کے دفتر حاضر نہ ہوا ہو۔ ڈالروں کے توڑے کہ پورا دفتر ان سے بھرا ہوتا۔ شام تک سارا مال غنیمت تقسیم کر دیا جاتا۔ خالی توڑے چھان بورے والے کو بیچ کر مرونڈے کے چھ سات ٹکڑے ملتے۔ گنڈیریاں چوپ کر مرونڈا تناول کیا جاتا۔ اس معمول سے طالبعلم کو شوگر اور فاتح کو مثانے کی تکلیف ہوئی۔ دوستی مگر ہر درد کی دوا ہے۔ شیری مان نے حق فرمایا۔

یار ان ملے ٭۔ ۔ ۔ہوا دے بلے ٭۔ ۔ ۔
(یہاں ملے سے مراد مولوی نہیں اور نہ ہی ہوا دے بلے سے اشارہ گیسٹرک ٹربل کی طرف ہے۔ پلیز نوٹ)

این جی اوز اب اس ملک پر قابض۔ جس کی چاہیں پگڑی اچھالیں۔ کوئی ان سے پوچھنے کی جرات نہیں رکھتا۔ ڈالر ان کو دساور سے ملتے ہیں۔ اساطیری شہرت کے حاملین پر یہ بدعنوانی کی زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ اگست کی ایک شام جنرل ضیاءالحق نے کہا تھا، اگر محمد حنیف کے آموں والے ناول سے بچ نکلا تو ان اسلام دشمن اور وطن فروش این جی اوز کا وجود مٹا دوں گا۔ خدا کو مگر آزمائش مقصود تھی۔ باقی کہانی ہے۔

جاڑے کی گلابی سہ پہر ماضی کی یادیں یوں یلغار کرتی ہیں جیسے صاحبقراں امیر تیمور کے لشکر غنیم کو تہہ تیغ کرنے بڑھے آتے ہوں۔ وائے افسوس۔ کیسے گہر تھے جو خاک میں مل گئے۔ کیسی ذہانتیں تھیں جو ستائش کی تمنا سے ماورا غیاب و خاموشی میں وطن پر قربان ہو گئیں۔

جعفر حسین
Latest posts by جعفر حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جعفر حسین

جعفر حسین ایک معروف طنز نگار ہیں۔ وہ کالم نگاروں کی پیروڈی کرنے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سنجیدہ انداز میں تاریخ گھڑتے ہیں

jafar-hussain has 113 posts and counting.See all posts by jafar-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments