عامر لیاقت کی نئی شادی اور حارث روف کا تھپڑ


پاکستان میں جاری پی ایس ایل کے ایک میچ کے دوران لاہور قلندر کے تیز رفتار باؤلر حارث روف نے ساتھی کرکٹر کامران غلام کو کیچ چھوڑنے کے بعد تھپڑ رسید کر دیا۔ کامران غلام کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے تھپڑ کھانے کے بعد بھی کمال ضبط کا مظاہرہ کیا اور مسکراتا رہا۔

پوری دنیا نے ہمارے عدم برداشت کی یہ تصویر دیکھی۔ آپ اس کو عدم برداشت کے علاوہ جہالت، دیوانگی، نفرت، حقارت اور فرعونیت کا بھی نام دے سکتے ہیں۔ کامران غلام کو تھپڑ اس لئے پڑا کہ وہ اب تک مشہور نہیں ہوا ہے اور حارث روف کی نظر میں وہ ایک کم تر کھلاڑی ہے۔

اگر کامران غلام کی جگہ اگر کوئی غیر ملکی کھلاڑی یا محمد حفیظ یا شاہین شاہ آفریدی جیسے مشہور کھلاڑی کیچ چھوڑ دیتے تو کیا ان کو تھپڑ مارا جاتا؟ یقیناً نہیں! اس ایک بدصورت واقعہ نے بہت خوبصورتی سے ہماری سوچ اور معاشرے کی عکاسی کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ اگر غریب ہیں، گمنام ہیں اور اپنے کیریئر میں جدوجہد کر رہے ہیں تو آپ کی کوئی عزت نہیں ہے۔ آپ کو تھپڑ بھی پڑ سکتا ہے اور گالیاں بھی۔ یہ بدبو دار معاشرہ صرف امیروں، ڈاکوؤں، کرپٹ اور طاقتور لوگوں کے لئے بنا ہے۔ ان لوگوں کے علاوہ اس معاشرے میں غریب، ایماندار اور سچ بولنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

ایک دوسرا واقعہ مشہور کامیڈین اور سستی اور مفت تفریح فراہم کرنے والے عامر لیاقت کی شادی کا ہے۔ ایک شادی پر اتنا طوفان؟ شاعر تسلیم فاضلی سے معذرت کے ساتھ ایک شعر۔

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو چھوٹی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے

عامر لیاقت نے اٹھارہ سالہ خوبرو دوشیزہ سے نکاح کر لیا تو آپ کی ذات کو کیا تکلیف پہنچی؟ جب لڑکی راضی، اس کے والدین بھی خوش تو پھر دقت کیا ہے؟ تصویروں اور ویڈیو سے صاف نظر آ رہا ہے کہ دونوں خوش ہیں۔ لڑکی کو پتا ہے کہ یہ عامر لیاقت کی تیسری یا چوتھی شادی ہے۔ شاید اس لڑکی کو یہ بھی علم ہو کہ ایک دو سال کے بعد جب دل بھر جائے گا اور خمار اترے گا تو عامر لیاقت پھر ایک نئی لڑکی کی طرف مائل ہو جائے گا اور اس سے ترک تعلق کر لے گا۔

یہ سب تلخ حقائق جاننے کے بعد بھی اگر وہ لڑکی اس شادی میں خوش ہے تو ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم عامر لیاقت یا اس لڑکی کو برا بھلا کہیں۔ یاد رہے کہ لمبی زندگی ہونا معنی نہیں رکھتا بلکہ معنی یہ رکھتا ہے کہ ہمارے پاس جو بھی پل ہیں انہیں ہم کتنا حسین بنا پاتے ہیں۔ اگر وہ متوسط طبقے کی لڑکی اپنے اس فیصلے سے خوش اور مطمئن ہے تو خدارا اسے جینے دے۔ لوگوں کو ان کی اپنی زندگی جینے دیں۔

کسی کی شادی چھوٹی عمر کی لڑکی سے ہو رہی ہے تو تنقید۔ کوئی بیوہ سے یا پہلے سے شادی شدہ طلاق یافتہ عورت سے کر شادی کر رہا ہے تو مسئلہ۔ کوئی اپنی سی بڑی عمر کی عورت سے نکاح کرے تو طعن و دشنام۔

کسی لڑکی کی شادی میں ذرا سی دیر ہو جائے اور وہ پچیس سے اوپر نکل جائے تو والدین اپنے خاندان اور ملنے والوں کو وجوہات بتاتے بتاتے بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض بن جاتے ہیں۔

کس کے بچے کے کتنے نمبر آئے، کس کو کہاں نوکری ملی، کس کا چکر کس سے چل رہا ہے، کسی کی طلاق ہو رہی ہے تو کیوں؟ کسی میاں بیوی کے ہاں شادی کے ایک سال کے بعد اولاد نہیں ہوئی تو کیا وجہ ہے؟ کسی کے ہاں رب کریم نے اپنی حکمت سے صرف لڑکیاں یعنی رحمتیں بھیج دی ہیں تو باتیں۔

لوگوں کو اپنی آنکھ سے دیکھنا بند کریں۔ ہمارا معاشرہ ویسے ہی گھٹن کا شکار ہے۔ نہ کھیلنے کے میدان باقی رہے، نہ مشاعرے اور نہ ہی موسیقی کی محفلیں۔ ہماری تفریح صرف حلوہ پوری کھانے سے شروع ہو کر کڑھائی پر ختم ہو جاتی ہے۔

میرا کچھ سال پہلے کیوبا کے شہر واراڈیرو اور ہوانا جانا ہوا۔ کیوبا بہت ہی غریب ملک ہے لیکن سیاح پھر بھی جوق در جوق چلے آتے ہیں اور اپنی زندگی کا مزہ لیتے ہیں۔ میں نے اس کی وجہ جاننا چاہی اور میں اس مقام پر پہنچا کہ کیوبا میں زندگی ہے۔ وہ لوگ غریب ہیں لیکن انہوں نے رومانس، ادب، موسیقی اور مصوری کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

دنیا کا سب سے بڑا کتابوں کا فیسٹیول کیوبا کے شہر ہوانا میں ہوتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا سگار فیسٹیول بھی کیوبا میں ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ کتابیں پڑھتے ہیں اور جب آپ کتاب پڑھتے ہیں تو آپ آدمی سے انسان بنتے ہیں۔ آپ کے نزدیک پھر ان چیزوں اور واقعات کی اہمیت نہیں رہتی کہ عامر لیاقت نے اٹھارہ سالہ دوشیزہ سے نکاح کر لیا۔ کیوں کہ اس کی خود کی بھی گرل فرینڈ ہے۔ وہ احساس محرومی کا شکار نہیں ہے۔ بھلے اس کے پاس پیسے کم ہوں لیکن وہ کیوبن کتاب بھی خریدتا ہے، سگار بھی پیتا ہے، اس کی ایک خاتون دوست بھی ہوتی ہے، وہ موسیقی کے پروگراموں میں بھی شریک ہوتا ہے اور زندگی کا مزہ لیتا ہے۔

افریقی ملک مراکش میں بھی میں نے یہی ماحول دیکھا۔ لوگ غریب تھے مگر پر سکون اور خوش۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کا ماحول۔ خواتین چھوٹی اسکرٹ میں بھی تھیں اور حجاب میں بھی۔ وہاں لوگ ایک دوسرے پر اپنی رائے مسلط نہیں کرتے۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو جینے دیتے ہیں لیکن ہم ایسے نہیں ہے کیونکہ بقول جون ایلیا

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اسی سے جلتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments