شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا


محبت، متانت، اخلاص، شرافت اور انسان دوستی کو آپ نے مجسم صورت میں دیکھنا ہے تو پالا گرین کو دیکھئے۔ پالا جیسے معدودے چند کردار ہی ہوتے ہیں جو آپ کو انسانوں کے اس بے پناہ ہجوم میں انسانیت کے درشن کراتے رہتے ہیں۔ آپ پالا سے ملیں تو آپ کو لگے گا جیسے کسی لق و دق صحرا میں آپ کی ملاقات کسی چشمے سے ہوئی ہے۔ پالا نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، وہ زندگی کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کی مشن پر نکلی ہیں، اور اس مشن میں ان کے سامنے رنگ، نسل، مذہب، قومیت، زبان، جغرافیہ اور ان جیسے اور عوامل دیواروں کی صورت نہیں آئے بلکہ پالا نے ان کو زینوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔

رنگ، نسل، مذہب، قومیت، زبان اور جغرافیہ پالا کے نزدیک انسانوں کی وہ مشترکہ میراث ہیں جو اپنے تنوع سے زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں نہ کہ بدصورت۔ پالا انسانی بقاء کے لئے کرہ ارض پر پھیلے انسانوں کی ایک قابل ذکر تعداد کے ہاتھوں بپا ہونے والی اس تبدیلی کو انسانی بقاء کے لئے لازم سمجھتی ہیں جس میں انسان وطنی اور قبائلی وفاداری سے آگے نکل بحیثیت مجموعی زندگی کے وفادار بنیں۔

پالا کے ہزاروں شاگرد دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہیں۔ دنیا کے کسی براعظم کا شاید ہی کوئی ملک ہو گا جہاں پالا کے دل سے نکلنے والی بے پناہ محبت نہیں پہنچی ہو۔ مجھے فخر حاصل ہے کہ 2013 میں مجھے پالا سے ملنے اور ان سے زندگی کے اسرار و رموز سیکھنے کا موقع ملا۔ دنیا کے چالیس سے زائد ممالک سے ہم اسی ( 80 ) لوگوں کو ایک جگہ اکٹھے کر کے پالا نے اپنے رفقاء کار کے ہمراہ ہمیں آج کی دنیا میں امن، محبت، انصاف، مساوات، عدم تشدد اور بھائی چارے کی ضرورت اور انہیں درپیش چیلنجز سے کچھ یوں آگاہ کیا کہ ہم سب ایک دوسرے کی بلائیں لینے لگے۔ ٹرانسفارمیشن کے اس لفظ کے لئے مجھے اردو میں کوئی مناسب لفظ نہیں مل رہا اور یہ لفظ پالا کا محبوب لفظ ہے۔ تنازعات کو ٹرانسفارم کرنے کے واسطے پالا نے دنیا کی مختلف ثقافتوں کو ملا کر ایک پروگرام ترتیب دیا جس کنٹیکٹ یعنی کنفلیکٹس ٹرانسفارمیشن اکراس کلچر کا نام دیا۔

میں ایک دن امریکی ریاست ورمنٹ کے شہر بریٹل برو کے لئے عازم سفر ہوا۔ شام کے گھنے سائے تاریک ہوتے آسمان سے اتر اور پھیل رہے تھے جب میں بریٹل برو پہنچا۔ پالا سے کل ملاقات ہونی تھی لیکن اس شام میں جینا سے ملا۔ جینا نفسیات کی پروفیسر تھیں، ریٹائرڈ ہونے کے بعد خود کو کسی مفید سرگرمی میں مصروف کرنے کے لئے وہ بھی کنٹیکٹ آئی تھیں۔ جینا سے مل کر یوں لگا کہ شرف انسانیت، انسانیت کے شروع سے ہوتے ہوتے زینہ بہ زینہ اور سینہ بہ سینہ جینا کے دل میں اتری ہے۔

جینا کا قصہ پھر کسی دن لکھوں گا لیکن اس شام جینا سے مل کر ساری تھکن اتر گئی، سارے اندیشے ہوا ہو گئے۔ دل کو یقین ہو چلا کہ ہزاروں میل دور پاکستان سے امریکہ تک کا یہ سفر رائیگاں نہیں جائے گا۔ اگلے دن علی الصبح ہم سب لوگ ایک ہال میں جمع ہوئے، پالا گرین آئیں، چھہتر سالہ عورت لیکن توانائی ایسی کہ نوجوانوں کو شرمندہ کرے۔ وہ بولنے لگیں تو یوں لگا جیسے صاف اور شفاف پانی کا جھرنا پھوٹ پڑا ہے۔ ایک ایک لفظ فصاحت اور بلاغت کی علامت، معانی اور مفاہیم دل میں یوں اترنے لگے جیسا کہ کسی صحرا میں باد نسیم کے جھونکے آپ کے دل و دماغ کو طمانیت بخشتے ہیں۔

تین ہفتے ہر روز پالا کو سنا، ان سے بات چیت ہوئی۔ زندگی یکایک خوبصورت محسوس ہونے لگی۔ لگا جیسے جنت کا حصول اس کی مسلسل جستجو اور تلاش کا نام ہے۔ پالا کی نظر سے دیکھیں تو یہ دنیا واقعی ایک جنت ہے۔ ہم اس دنیا کو جنت بنانے کی جو سعی اور کوشش کرتے ہیں وہ نہ صرف اس دنیا کو خوبصورت بناتی ہے بلکہ اسی کوشش کے جزا کے طور پر ہمیں اس لافانی زندگی میں بھی اپنی کوشش کے حساب سے جنت کا کوئی ٹکڑا مل جائے گا۔

کورس کی تکمیل کے بعد پاکستان آیا تو پالا سے کبھی کبھار رابطہ ہوتا رہا۔ سکول کے بچوں کی تصویریں دیکھ کر پالا کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کبھی پاکستان آئی ہوں لیکن پاکستان ان کے دل میں بستا ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے بتایا کہ امریکہ اور پاکستان دنیا کے امن کے کلیدی کردار ہیں، امریکہ پاکستان کو خود سے کمتر سمجھ کر اس سے معاملہ کرتا ہے، پاکستان امریکہ سے کسی طور کمتر نہیں، برابری کی بنیاد پر بات ہو تو بات بنے۔

پالا باچا خان کی مداح تھیں۔ باچا خان کے متعلق بات کرتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ وہ ننانوے فیصد پختونوں سے زیادہ باچا خان کو جانتی ہیں۔ کنٹیکٹ کے دوران پالا نے ہمیں رینڈی نامی ایک بندے سے ملوایا، رینڈی کے لئے ایک شام خصوصی لیکچر رکھا گیا۔ رینڈی ایک عجیب و غریب شخصیت تھے۔ وہ امریکی فوج میں افسر تھے۔ ویت نام کے وار میں شریک تھے۔ بعد ازاں رینڈی نے باچا خان کے متعلق پڑھا تو ان پر فدا ہو گئے۔ فوج کی نوکری چھوڑ کر انہوں نے عدم تشدد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

امریکی حکومت کو خط لکھا کہ وہ دنیا میں جنگیں بند کر دے، بصورت دیگر وہ ٹیکس نہیں دیں گے۔ رینڈی نے ٹیکس دینا بند کر دیا اور ہر سال اپنی اور اپنی بیوی کی کمائی کا حساب کر کے ٹیکس کی رقم افغانستان اور عراق بچوں کی تعلیم کے لئے بھجوانے لگے۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا، اس سے بات نہیں بنی تو اس کی نوکری ختم کرا دی۔ نوکری ختم ہونے کے بعد رینڈی نے اپنا کام شروع کیا لیکن حکومت کی قہر سے بچ نہ سکے۔

ٹیکس کی رقم کی ادائیگی کے لئے اس کا گھر چھین لیا گیا گیا اور وہ سڑک پر آ گئے لیکن ہمت نہیں ہاری اور برابر مزاحمت جاری رکھی۔ علاقے کے لوگ آگے آئے اور رینڈی، اس کی بیوی اور ایک بچی کے لیے نیا گھر حاصل کیا۔ رینڈی کی دیکھا دیکھی اور لوگ اس کے ہم خیال بن گئے اور امریکہ میں ٹیکس نہ دینے کی ایک تحریک نے جنم لیا۔

کووڈ نے دنیا کو اپنی گرفت میں لیا تو پالا نے ہم کنٹیکٹ کولیگز کو ایک معرکتہ الآرا خط لکھا۔ خط اتنا زبردست تھا کہ میرے دل و دماغ سے وائرس کا خوف یک دم اتر گیا۔ خط میں نے بار بار پڑا، کورونا جیسی بلا میں بھی حکیمانہ ذہن نے مثبت پہلو تلاش کر کے انہیں کمال فصاحت اور بلاغت سے سپرد قلم کیا تھا۔ خط میں نے ترجمہ کیا جو ’ہم سب‘ پر شائع ہوا؛ ”وائرس کا طیش جنگ کی حماقت کو سمجھا رہا ہے“ ۔

تین ہفتے قبل مجھے پالا کا ایک اور خط ملا۔ پالا نے لکھا کہ وہ ایک کتاب پر کام کر رہی ہیں۔ اس کتاب کے ایک حصے میں ہزاروں لوگوں سے منتخب کردہ چند افراد کی زندگی کی مختصر کہانی لکھی جائے گی کہ کس طرح انہوں نے کنٹیکٹ سے حاصل کردہ ہنر اور علم کو اپنے ممالک میں عملی شکل میں ڈال کر اپنے لوگوں کی خدمت کی۔ پالا نے چند سوالات بھیجے کہ ان کا جواب لکھوں اور کچھ دنوں میں زوم پر ایک گھنٹے کا انٹرویو ہو گا جس میں مزید تفصیل سے بات ہوگی۔

مصروفیت کے باعث مجھے لکھنے میں تاخیر ہوئی تو پالا کا ایک اور ایمیل آیا۔ انہوں نے مجھے انٹرویو کے لئے لکھا اور کہا کہ جوابات بعد میں لکھے جا سکتے ہیں۔ انٹرویو کے لئے وقت مختص ہوا تو میں نے دل میں اٹل فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو، انٹرویو سے پہلے اپنے جوابات لکھ کر بھیجوں گا۔ پرسوں رات گئے تک لکھتا رہا، تمام جوابات لکھ چکا تو فیصلہ کیا کہ کل صبح نظر ثانی کر کے اولین فرصت میں پالا کو ایمیل کر دوں گا۔ صبح دفتر پہنچ کر اپنا اکاؤنٹ کھولا تو ہمارے رفیق کار جان پیشن جو کہ پالا کی خط و کتابت کی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، کا ایمیل آیا تھا۔ انہوں نے گروپ میں پالا کا ایمیل نقل کیا تھا۔

”عزیز کنٹیکٹ برادری،

جم (پالا کے شوہر) اور میں ایک صدمہ انگیز بحران میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ کینسر کسی مال بردار ریل گاڑی کی طرح میرے جسم میں دوبارہ داخل ہو چکا ہے۔ یہ تیز رفتار تغیر اور خبر اس وقت آئی جب ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم فلوریڈا میں چھٹیاں منا رہے ہیں۔ میری صحت اتنی سرعت سے بگڑی کہ ہم ایک ہفتے میں تین ہسپتالوں میں گئے اور ابھی تک گھر نہیں گئے ؛ شاید آج۔

ہسپتال کے اس بستر سے لکھنا بہت مشکل ہے جہاں میں تاروں سے بندھی ہوئی ہوں، کئی انگلیاں مشین سے لکھائی جانچنے کے لئے منسلک ہیں لیکن میرا دل و دماغ آپ سے رابطے کی اتنی شدید خواہش کر رہا ہے کہ میں نے لکھنا شروع کیا۔ ہر ایک فقرہ ایک ایک قوی مشقت ہے۔

اس کینسر کا اور کوئی سودمند علاج نہیں، یہ لاعلاج ہے۔ میں اپنے گھر کی سرائے میں جا رہی ہوں کیونکہ علاج کی کوئی صورت نہیں اور میں کسی حد تک آرام سے جانا چاہتی ہوں۔ میں اور دوسرے پہلے ہی بہت تکلیف میں ہیں۔

یہ ایک عجیب قسم کی سزائے موت ہے، ۔ کسی بھی وقت، 2022 میں، جو کبھی کبھار ایسا لگتا ہے جیسا کہ کل اور کبھی بہت ہی طویل۔ میں اور جم گہرے کرب، خوف اور دہشت کی لپیٹ میں ہیں۔ کون نہیں ہو گا زندگی کے خوفناک اختتام پر؟

میں نے ایک بھرپور زندگی سے لطف اٹھایا ہے۔ چوراسی ایک پختہ عدد ہے اور یقیناً ہم مزید چاہتے ہیں۔ ہم آپ کو کیئرنگ برج کے ویب سائٹ پر آگاہ رکھیں گے۔

نیک تمنائیں
پالا ”
۔ ۔

پالا کے ایمیل نے میرے دل کو شدید صدمے میں جکڑ لیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس بے بدل زندگی کی بجھتی روشنی کو روشن کرنے کے لئے کیا کروں؟ لبوں پر دعائیں جاری ہوئیں۔ سکول میں بچوں کو اپنے ساتھ دعا میں شریک کیا۔ گھر پہنچا تو رات کو پالا کی کولیگ اور نزدیکی دوست اولیویا نے زوم پر میرا انٹرویو کیا۔ اولیویا نے بتایا کہ پالا چاہتی ہیں کہ میں جلد از جلد آپ کا انٹرویو کروں۔ پالا کے متعلق بات کرتے ہوئے وہ مسلسل مسکرائے جاتی تھی۔

ایک بھرپور با مقصد زندگی کے اختتام پر اطمینان سے بھرپور مسکراہٹ بنتی ہے۔ پالا کے پراجیکٹ کیئرنگ برج کے ویب سائٹ پر دعاؤں کا تانتا بندھ گیا۔ دنیا کے ہر گوشے سے ہزاروں لوگوں نے عقائد، رنگ، نسل اور قومیت سے اوپر اٹھ کر، ان گنت دعاؤں کی صورت محبت کے پھول برسائے۔ کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا یہودی، کیا عیسائی، کیا بدھ، کیا گورے، کیا کالے ؛ سب نے ہم آواز ہو کر اپنے اس عظیم استاد کے لئے دل سے دعائیں مانگیں۔

کل نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، اپنے کمرے میں بستر پر لیٹا میں پالا کو یاد کیے جا رہا تھا کہ نصف شب کو ایمیل موصول ہوئی کہ وہ عظیم زندگی نہ رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments