ادبی گستاخیاں


دنیا کے دیگر ممالک کی طرح آسٹریلیا میں بھی اردو زبان و ادب کے حوالے سے تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ ان تقریبات میں زیادہ تر مشاعرے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اردو بولنے والوں نے اور کسی حوالے سے ترقی کی ہو یا نہیں، کم از کم شاعری کے حوالے سے خود کفیل ہو چکے ہیں۔ نہ صرف خود کفیل ہوچکے ہیں بلکہ اپنی زائد از ضرورت شاعری برآمد کرنے کی بھی استطاعت رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ شاعری ان کے لیے بھی زائد از ضرورت ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اسے ذخیرہ کر کے رکھا جا سکتا ہے۔ تاکہ برے وقتوں میں کام آ سکے۔ اس برے وقت کا تعین آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ اس سے ہمارے کاندھوں پر سے کچھ بوجھ تو ہلکا ہو گا۔

صرف سڈنی میں ماشا االلہ اتنے شاعر ہوچکے ہیں کہ کسی بھی مشاعرے میں تمام شعرا کو پڑھوانا تقریباً نا ممکن ہے۔ اگر ان میں سے کچھ شعرا کا انتخاب کرنا ہو تو منتخب کرنے والے کی راتوں کی نیند آرام ہو جاتی ہے۔ اس کا حل اکثر یہ نکالا جاتا ہے کہ اپنے گروپ اور اپنے احباب کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر کسی مشاعرے میں گنے چنے مقامی شعرا کو موقع دیا جاتا ہے تو پھر یہ شعرا اگلی پچھلی ساری کسر نکال کر سٹیج سے اترتے ہیں۔

حالانکہ مشاعرے سے پہلے ان شعرا سے تقریبا تقریباً حلف لیا جاتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ غزل یا نظم نہیں پڑھیں گے۔ لیکن ایسے وعدے اکثر ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ زیادہ تر شعرا کے ہاتھ میں جب مائیک آتا ہے تو پھر وہ اپنی مرضی کر گزرتے ہیں چاہے اس دوران حاضرین اور سامعین جان سے گزر جائیں۔ ہمارے یہ چہیتے شعرا جب سامعین کو اپنے شاعری سے مستفیض فرما رہے ہوتے ہیں تو میزبان کی جان پر بنی ہوتی ہے۔ اس دوران یہ شاعر میزبان کی طرف دیکھنے سے اجتناب کرتے ہیں جو عملی طور پر ہاتھ باندھتا نظر آتا ہے۔

ہمارے یہ مستقل مزاج اور ادب دوست شاعر اس وقت تک اپنی شاعری کا جادو جگاتے رہتے ہیں، جب تک میزبان پہلے ان کے پاس آ کر کھڑا ہوتا ہے، پھر ہلکا سا کھنکار کر اپنی طرف اور گھڑی کی طرف متوجہ کرتا ہے اور بالآخر مائیک کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اس وقت بھی ہمارے یہ محترم شاعر فرماتے ہیں کہ وہ سنانا تو بہت کچھ چاہتے تھے لیکن وقت کی نزاکت کے پیش نظر باقی پھر۔ کچھ حاضرین اس باقی پھرسے ہی ڈر اور سہم جاتے ہیں۔ اس دوران کوئی دوسرا شاعر انہیں ”محظوظ“ کرنے کے لئے سٹیج پر وارد ہو جاتا ہے۔

یہ تو ان بین الاقوامی مشاعروں میں ہوتا ہے جہاں پاکستان یا بھارت سے مہمان شعرا بھی مدعو ہوتے ہیں۔ حاضرین کی توجہ کا مرکز یا آمد کی وجہ وہ مہمان شعرا ہی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر یہ محفل کسی کے گھر منعقد ہوئی ہو جہاں صرف یہ مقامی شعرا ہوتے ہیں تو پھر تو انہیں خوب کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسے میں میزبان بھی آداب میزبانی کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ اس آداب میزبانی میں زیادہ سے زیادہ داد دینا بھی شامل ہوتا ہے۔

ایسے میں چند ایک کو چھوڑ کر ان شعرا اور ادیبوں کو برداشت کرنا دل جگرے کا کام ہوتا ہے۔ دوران شاعری اکثر حاضرین جمائیاں لے رہے ہوتے ہیں۔ کچھ کی توجہ کھانے کا وقت ہونے کی وجہ سے باورچی خانے کی طرف ہوتی ہے۔ کچھ گھڑی کی طرف بار بار دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کو گھر جانے، سونے اور اگلے دن کام پر جانے کی فکر ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں شاعروں اور ادیبوں کے پاور گروپ ہیں۔ گروپ کے بانی سینئر شاعروں اور ادیبوں میں طے ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی جی بھر کر تعریف کریں گے۔ ایک دوسرے کے کلام پر دل کھول کر داد دیں گے، چاہے اس کلام میں کوئی جان ہو یہ نہ ہو۔ ان میں سے کچھ بزعم خود استاد اور نقاد بھی ہوتے ہیں۔ اس کی سند انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو دے رکھی ہوتی ہے۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں بھٹی برادران گزرے ہیں۔ ان میں سے عنایت حسین بھٹی گلوکار اور ان کے چھوٹے بھائی کیفی اداکار تھے۔

ان بھائیوں کا ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا۔ ہوا یوں کہ عنایت حسین بھٹی کا ٹی وی انٹرویو ہوا۔ ان سے پوچھا گیا کہ ان کا پسندیدہ اداکار کون سا ہے۔ انہوں نے بلا تامل جواب دیا میرا چھوٹا بھائی کیفی۔ اگلے ہفتے اداکار کیفی کا اسی پروگرام میں انٹرویو تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ ان کا پسندیدہ گلوکار کون ہے۔ انہوں نے فوراً کہا میرے بڑے بھائی عنایت حسین بھٹی۔ اس طرح ان بھائیوں نے اپنی پسند کو گھر تک ہی محدود رکھا۔ بالکل وہی حالت ہمارے ان اساتذہ اور نقادوں کی ہے۔

انہوں نے اپنی پسند کو ایک دوسرے کی حد تک لاک کر دیا ہے۔ یہی اساتذہ اور نقاد ان پاور گروپوں کی مدد سے مشاعروں اور ادبی تقریبات میں چھائے رہتے ہیں۔ ان کا کلام غلطیوں سے مبرا، ان کی آرا مستند اور ان کے فیصلے حرف آخر ہوتے ہیں۔ کوئی نیا شاعر یا ادیب کچھ بھی لکھے اس کو شک و شبے کی نظر سے دیکھنا اور اس میں کیڑے نکالنا ان نقادوں کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے۔ اگر کسی محفل میں کوئی نیا لکھنے والا اپنی شاعری یا نثر پیش کر رہا ہو توان اساتذہ کے ہونٹ سختی سے بھنچے ہونا، چہرہ مسکراہٹ سے عاری ہونا اور انداز میں بے اعتنائی ہونا، ان کی استادی کو قائم و دائم رکھنے کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی سے ہی ان نقادوں اور استادوں کی استادی کا بھرم قائم رہ سکتا ہے۔

جونہی اسٹیج پر کسی سینئر شاعر کو مدعو کیا جاتا ہے ان کی نیم وا آنکھیں پوری طرح کھل جاتی ہیں۔ ابھی شاعر اپنی نشست سے کھڑا بھی نہیں ہوتا کہ ارشاد ارشاد کی گردان شروع ہو جاتی ہے۔ جونہی شاعر کے ہونٹوں پر پہلا لفظ آتا ہے واہ واہ کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ کئی دفعہ تو شاعر نے کلام سنانا شروع بھی نہیں کیا ہوتا بلکہ کوئی تمہیدی جملہ کہا ہوتا ہے اس پر بھی واہ واہ کے ڈونگرے برسنے شروع ہو جاتے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی استاد محترم ہیں جو تھوڑی دیر پہلے خواب خرگوش میں دکھائی دیتے تھے۔

ان ادبی تنظیموں کی ایک اور خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ پورا سال تو سب ارکان کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کسی حد تک محفلوں میں ان کی بات بھی سنی جاتی ہے۔ مشاعرے کے انتظامات میں ان سے پورا کام لیا جاتا ہے۔ لیکن جس دن مشاعرہ ہوتا ہے اس دن نئے ارکان کو اسٹیج کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا۔ جنھوں نے پورا سال کام کیا ہوتا ہے اور ہال کو خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے، انہیں ہال کے کسی کونے کھدرے میں اس طرح چھپا کر رکھا جاتا ہے جیسے بعض فیشن زدہ مائیں جوان نظر آنے کے لئے مہمانوں کے سامنے بڑے بچوں کو نہیں آنے دیتیں۔

کیونکہ ان بچوں کے سامنے آنے سے ان کی میک اپ زدہ جوانی دھندلانے کا احتمال ہوتا ہے۔ نئے ارکان سالوں تک بھی اسی جانفشانی سے کام کرتے رہیں پھر بھی انہیں عوام کے سامنے لانے سے ہر ممکن احتراز برتا جاتا ہے۔ مشاعرے والے دن یہ نقاد اور استاد اسٹیج پر اس طرح چھا جاتے ہیں جیسے یہ سب کچھ انہی کا کیا دھرا ہے۔ وہ نہ صرف دونوں ہاتھوں سے داد و تحسین سمیٹتے ہیں بلکہ پورا سال بھی اس کا پھل کھاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ دوسری تنظیمیں بھی اپنے پروگراموں میں انھی کو بلاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت یا پاکستان سے آنے والے شعرا سے خصوصی مراسم قائم کر لیتے ہیں اور وہاں جاکر اپنے اعزاز میں تقریبات منعقد کرواتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ اور جہاں تک نئے ارکان کا تعلق ہے وہ اس امید پر ایک اور سال گزار لیتے ہیں کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ لیکن اس امید کے پھول اکثر بن کھلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔

ادبی تقریبات کی ایک اور قسم کتابوں کی تقریب رونمائی ہے۔ ایسی تقریبات میں بھی کئی لطیفے جنم لیتے ہیں۔ مثلاً عمان میں میں نے ایک ایسی تقریب رونمائی میں شرکت کی، جس میں کسی بھی مقرر نے نہ صرف وہ کتاب نہیں پڑھی تھی بلکہ مصنف کی کوئی تحریر بھی ان کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ ہوا یوں کہ ایک صاحب نے اپنی شاعری کی کتاب چھپنے کے لئے ہندوستان بھجوائی اور ساتھ ہی کتاب کی تقریب رونمائی کا بھی اعلان کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف اعلان کیا بلکہ مہمان خصوصی ( جو سفیر ہندوستان تھے ) کو مدعو کرنے سمیت باقی انتظامات بھی بڑی چابکدستی سے انجام دے دیے۔

سارے انتظامات ہو گئے لیکن کتاب چھپ کر نہیں آئی۔ ان صاحب کی یہ پہلی کتاب تھی۔ لہذا کسی کو ان کی شاعری سننے یا پڑھنے کا کبھی موقع نہیں ملا تھا۔ لیکن آپ یقین کریں بھائی لوگوں نے پھر بھی مصنف کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ بعد میں مجھے ان کی کتاب پڑھنے کا موقع ملا تو میں نے سوچا اچھا ہی ہوا لوگوں کو پہلے کتاب نہیں ملی۔

ویسے میرے اب تک کے مشاہدے کے مطابق جن لوگوں کو کتاب کی تقریب رونمائی میں تقریر کے لئے مدعو کیا جاتا ہے، ان میں درج ذیل خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔ :

1۔ تقریر سے پہلے انہوں نے کتاب بالکل نہ پڑھی ہو۔ اس لئے یا تو انہیں سرے سے کتاب دی ہی نہ جائے یا پھر تقریر شروع کرنے سے چند لمحے پہلے دی جائے تاکہ وہ کتاب کا ٹائٹل دیکھ کر یا کسی مشہور مصنف کا تعارفی نوٹ پڑھ کر تقریر موزوں کر سکیں۔

2۔ وہ کتاب پر کم سے کم بات کریں لیکن مصنف کی دل کھول کر بمع بیوی بچوں کے تعریف کریں اور مصنف سے اپنی دیرینہ شناسائی کا دل کھول کر ڈھنڈورا پیٹیں۔

3۔ ان میں سے کسی نہ کسی کا میڈیا سے تعلق ضرور ہو تاکہ اس تقریب کی رپورٹ شائع ہو سکے۔
4۔ ادبی یا سیاسی گروپوں کے لیڈر، چاہے ان کا اس صنف سخن سے کوئی تعلق نہ ہو۔
4۔ ایک آدھ خاتون مقرر کا زیب محفل کے لئے ہونا ضروری ہے۔
5۔ اسی طرح ایک آدھ سرکاری افسر تاکہ کار سرکار بھی رواں دواں رہے۔
6۔ مقررین کا اچھے عہدوں پر فائز ہونا یا ڈاکٹر یا انجینئر ہونا لازمی ہے۔

7۔ وہ خواتین و حضرات بھی کتاب کی رونمائی میں تقریر کر سکتے ہیں جنہوں نے اس تقریب کے انعقاد میں کسی قسم کی معاونت کی ہو یا ان سے آئندہ کسی معاونت کی توقع ہو۔

اس کے علاوہ بھی کئی اور صفات اور خدمات ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہیں جن کا اس مختصر مضمون میں احاطہ مشکل ہے۔

تاہم بعض خواتین و حضرات اس کام کے لئے انتہائی ناموزوں ہوتے ہیں۔ مقررین کا انتخاب کرتے وقت ان سے احتیاط کرنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ سب کیے کرائے پر پانی پھیر سکتا ہے۔ جن لوگوں سے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ وہ سٹیج کے قریب بھی نہ پھٹک سکیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔ :

1۔ ایسے مقرر سے مکمل پرہیز ضروری ہے جو اس صنف سخن پر دسترس رکھتا ہو۔
2۔ جس نے خود کوئی کتاب لکھ رکھی ہو۔
3۔ جس کا مطالعہ وسیع ہو۔
4۔ جو کتاب کے ہر پہلو پر روشنی ڈال سکے۔
5۔ ایسے شخص سے خصوصی طور پر دور رہنے کی ضرورت ہے جسے سچ بولنے کی بیماری ہو۔

6۔ جس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، حاجی یا سرکاری افسر کے رینک کا سابقہ یا لاحقہ موجود نہ ہو۔

7۔ جس کے تعلقات وسیع نہ ہوں۔
8۔ جو کتاب چھپوانے، بکوانے یا تقریب رونمائی میں معاونت نہ کرے۔

امید ہے کہ میرے اس مختصر مضمون سے احباب کو اچھا مقرر منتخب کرنے میں ضرور مدد ملے گی۔ ویسے میرے ذاتی تجربے کے مطابق کسی بہت بڑے فلاسفر کو بھی بلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کا تجربہ مجھے اپنی کتاب۔ ’خوشبو کا سفر‘ کی اسلام آباد میں تقریب رونمائی میں پی ٹی وی کے مشہور اینکر اور دانشور خورشید ندیم کو بلا کر ہو چکا ہے۔ موصوف نے آدھ گھنٹے کی تقریر میں دنیا بھر کا فلسفہ گھول کر ہمیں پلا دیا۔ لیکن یہ بھول گئے کہ وہ کس تقریب میں اپنا زور خطاب صرف کر رہے ہیں۔ آخری چند جملوں میں انہوں نے کتاب کا اس طرح ذکر کیا جیسے شلجم پر سے مٹی جھاڑ رہے ہوں۔

تقریب کے بعد جب چائے کی میز پر بیٹھے تو انہوں نے کتاب کے دلچسپ مندرجات کا اس تفصیل اور اس خوبی سے ذکر کیا کہ یہ نکات ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی اور مقرر یا قاری نے آج تک بیان نہیں کیے ۔ لگتا تھا یہ نکات وہ تقریر کے لئے تیار کر کے لائے تھے لیکن جوش خطابت میں دوران تقریر بھول گئے۔ جو گفتگو انہوں نے چائے کی میز پر کرنی تھی اس کی تقریر کردی۔ اور جو مواد وہ تقریر کے لئے لائے تھے وہ انہوں نے چائے کی میز پر دوران گفتگو بیان کیا، جہاں صرف چار لوگ تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments