ایک عام پاکستانی کا خط وزیراعظم عمران خان کے نام
محترم جناب وزیراعظم پاکستان
عمران خان صاحب
اسلام علیکم
میں یہاں بالکل بھی خیریت سے نہیں ہوں، لیکن امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے ، آپ وہاں خیریت سے اس لئے ہوں گے کہ آپ میری جگہ نہیں ہیں، اور میں یہاں خیریت سے اس لئے نہیں ہوں کہ میں آپ کی جگہ نہیں ہوں۔
خیر۔ عرض صرف اتنا کرنا چاہتا ہوں کہ میں وہ عام پاکستانی ہوں کہ جس نے آپ کے وزیر اعظم بننے سے پہلے آپ کے ملک و قوم کے حوالے سے خیالات سن کر آپ کی سپورٹ کی۔ ہزار اردگرد کے لوگوں دوستوں اور رشتے داروں کے منع کرنے کے باوجود بھی آپ کی سپورٹ کی۔ صرف اس امید پر کہ شاید آپ کے بہانے اس ملک کے اور اس ملک کے لوگوں کے حالات بدل جائیں۔
میں وہ عام پاکستانی ہوں کہ جس نے اپنی پوری زندگی کسی بھی الیکشن کے رزلٹ لمحہ بہ لمحہ دیکھتے رہنا ایک فضول کام سمجھا، لیکن۔ صرف آپ کے الیکشن کے رزلٹ دیکھنے کے لئے ٹیلی ویژن سے چپکا رہا۔ میں وہ عام پاکستانی ہوں کہ جس نے زندگی میں کبھی کسی وزیراعظم کی اوتھ ٹیکنگ سیرمنی نہیں دیکھی، لیکن۔ یقین جانئے، میں نے آپ کی اوتھ ٹیکنگ سیرمنی شروع سے آخر تک دیکھی۔ میں وہ عام پاکستانی ہوں جس نے کبھی کسی وزیراعظم کی کوئی بھی تقریر پوری نہیں سنی، لیکن۔ آپ کی تقریر پوری سنی۔
کیونکہ آپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے آپ کے خیالات سن کہ مجھے یہ لگتا تھا کہ ملک و قوم کی بہتری اس وقت کے موجودہ سیاستدانوں میں سے آپ سے زیادہ اور کوئی نہیں چاہتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد کئی ایسے اقدامات آپ نے اٹھائے ہیں جو ایک عام پاکستانی کے لئے خواب تھے، اور یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل بجا ہے کہ 70 سالوں کی خرابی ایک دم ٹھیک نہیں ہوگی۔
مگر حکومت میں آنے سے پہلے آپ کی ٹاک شوز اور انٹرویوز میں کی جانے والی باتوں اور کنٹینر پہ کھڑے ہو کر پوری قوم کو دکھائے جانے والے خوابوں کا کیا ہو گا؟ کہ جن کے بر عکس آج آپ خود چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
حکومت روز دعویٰ کرتی ہے لارج اسکیل مینوفیکچرز نے ہزار ارب روپے کما لئے، حکومت نے زرعی شعبوں میں چودہ سو ارب روپے ڈال دیے، تجارتی خسارہ کم ہو گیا، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی پیداوار بڑھ گئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی سطح پر پہنچ گئے اور تارکین وطن نے ملک میں ڈالروں کے انبار لگا دیے وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت تو یہ ہے کے ہم آپ اور آپ کے وزیروں کے منہ سے معاشی ترقی کے دعوے سن سن کر تھک چکے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہیں۔ آپ کی سوشل میڈیا ٹیم جو کہ لوگوں کے سامنے ہر وقت آپ کو ہیرو دکھانے پر ٹلی ہوئی ہے، وہ ٹیم جو آپ کی نماز اور تسبیح کرنے کی تصویریں اور وڈیوز تک اپلوڈ کرنا اپنا فریضہ سمجھتی ہے، مہربانی فرما کر اپنے ساتھ ساتھ انہیں بھی یہ سمجھانے کی کوشش کیجئے کے آپ کی عبادات اور آپ کے تقوٰی کا ایک عام پاکستانی کی زندگی سے کچھ تعلق نہیں ہے، یہ سب آپ کا اور اللہ کا آپس میں معاملہ ہے۔ آپ کتنے شریف کتنے ایماندار اور کتنے عبادت گزار ہیں یہ بھی آپ کا ذاتی معاملہ ہے، دیکھا اور تاریخ میں لکھا یہ جائے گا کہ آپ جس منصب پر فائز تھے اس حوالے سے آپ کار آمد کتنے تھے۔
بڑے اور اہم منصب پر فائز لوگوں کے کارنامے دیکھے اور لکھے جاتے ہیں، نہ کے ذاتی زندگیاں۔
ویسے بھی اگر سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو اس وقت پاکستان میں صرف 16 پرسنٹ لوگ سوشل میڈیا سے منسلک ہیں جو کہ تقریباً ً ساڑھے تین کروڑ لوگ بنتے ہیں، اور اب تو ان میں بھی بے شمار لوگ آپ کی بلا وجہ کی تعریفوں سے باز آ گئے ہیں۔ اور ویسے بھی سوشل میڈیا کی پاپولیرٹی سے ایک عام پاکستانی کا کیا جائے۔ گراؤنڈ ریئیلٹی اور حقیقت یہ ہے کہ ہیلتھ اور ایجوکیشن تو دور کی بات، ایک عام پاکستانی اپنے بچوں کے دو وقت کے کھانے اور دودھ تک کو پورا نہیں کر پا رہا۔ مہنگائی نے ایک عام پاکستانی کو ذہنی مریض بنا کے رکھ دیا ہے، لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہر عام پاکستانی کی زندگی آپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد کے فرق کی بنیاد پر اپنے اپنے معاشی حالات اور لائف سٹائل میں نہ جانے کتنے قدم پیچھے جا چکی ہے۔ کاش آپ یہ بات سمجھ سکتے کہ جو لوگ امیر ہیں اور اسٹیبلشڈ لائف گزار رہے ہیں ان کی زندگی میں شاید دس قدم پیچھے چلے جانا بھی کوئی بڑی بات نہ ہو، مگر جو عام آدمی ہے عام پاکستانی ہے اس کا اپنی جگہ سے ذرا سا ہل جانا بھی نہ جانے کتنے عرصے تک اسے سیدھا نہیں ہونے دیتا۔
جس طرح میں ایک عام پاکستانی اپنی غربت اور پریشانی میں ڈوبی ہوئی زندگی کے باوجود آپ کی بات کو چاہتے نہ چاہتے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ 70 سال کی خرابی ٹھیک کرنے کے لئے ہمیں قربانی تو دینی پڑے گی، امید کرتا ہوں کہ بالکل اسی طرح آپ بھی یہ بات ضرور سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ یہ قربانی آپ یا اس ملک کا کوئی بھی امیر شخص نہیں دے رہا۔ یہ بات طے ہے کہ یہ قربانی خالصتاً مڈل کلاس لوور مڈل کلاس اور غریب طبقہ دے رہا ہے۔
میں ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم صرف اس امید پہ یہ زہر کا گھونٹ پی تو رہے ہیں کہ ایک دن اس ملک کہ حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ لیکن آپ یہ بات ضرور ذہن میں رکھئے گا کہ اگر آپ کے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی حالات ٹھیک نہیں ہوئے تو یہ قوم آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی، اور روز قیامت اس ملک کے عام آدمی کے ہاتھ ہوں گے اور آپ کی گریبان۔ اور پھر یہ بھی طے ہے کہ اللہ کے ہاں اس ملک کے عام آدمی پہ گزرنے والی اذیتوں تکلیفوں اور پریشانیوں کا حساب آپ کو دینا پڑے گا۔
اپنا خود سے بہت خیال رکھئے گا، کیونکہ آپ کا خیال رکھنے والے اپنے سابقہ طور طریقے کے عین مطابق آپ کا خیال صرف تب تک رکھیں گے جب تک وہ رکھنا چاہتے ہیں۔
اللہ حافظ
طالب رحم
ایک عام پاکستانی
- سیکھنے کی ضرورت ہے - 14/03/2022
- مدارس اور عطیات: ایک فتوے کی ضرورت ہے - 05/03/2022
- ایک عام پاکستانی کا خط وزیراعظم عمران خان کے نام - 25/02/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).