غربت اور بچوں کے مسائل


جب پوری دنیا میں رنگ نور اور روشنیوں کے سیلاب میں نئے سال کا آغاز ہو رہا تھا۔ لوگ چمکتے دمکتے مسکراتے چہروں کے ساتھ نئے سال کا استقبال کر رہے تھے۔ اس وقت میرے پیارے ملک پاکستان میں سال نو کی پہلی صبح صوبے پنجاب کے شہر جہلم میں غربت سے تنگ ایک ماں نے بھوک سے بلکتی سردی سے ٹھٹھرتی اپنی تین بچیوں کو ذبح کر کے خود کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی۔ اس ہولناک دلخراش واقعے کے بعد دو دن تو مجھے اس عورت سے حیرت انگیز نفرت سی محسوس ہوتی رہی۔

پھر اگلے دو دن اس عورت اس ماں سے نفرت ہمدردی اور ترس میں بدل گئی کہ جرم سے نفرت کی جاتی ہے نہ کہ مجرم سے اس کے اگلے دو دن میں اس عورت کے فعل پر غور کرتی رہی۔ پھر میں نے اس سارے واقعے کو دوسرے زاویے سے دیکھنا شروع کیا ور سوچتے سوچتے مجھے اس عورت سے محبت سی محسوس ہونے لگی۔ مجھے لگا کہ اس عورت نے تو بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔ وہ کام جو ریاست کی ذمہ داری تھا۔ یا شاید ہم سب کی ذمہ داری۔ اپنی تین بچیوں کی زندگی ختم کر کے اس نے بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔

آپ بھی حیران ہو رہے ہیں نا! آپ بھی سوچیں اس نے کیا کمال کیا ہے۔ غیر محسوس طریقے سے ریاست کی مدد کی ہے۔ اس نے اپنی بچیوں کو محفوظ کیا ہے غربت، بھوک، جہالت اور دکھ بھری زندگی سے۔ اپنے بچوں کو بچا لیا ہے اچھے کپڑوں کھلونوں اور غذا کے لئے ترسنے اور بلکنے سے۔ اپنے بچوں کو بچا لیا ہے غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جانے سے۔ اسکول یا مدرسہ جا کر استاد یا معلم کے تشدد اور زیادتی کا شکار ہو جانے سے غذا کی کمی سے لا حق ہو جانے والی بیماریوں سے۔

ملاوٹ والا دودھ مضر صحت کھانے کی اشیا ء آلودہ پانی اور جعلی دواؤں سے۔ گھر سے باہر بغیر ڈھکن کے گٹر میں گرنے سے۔ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے بھیک مانگنے سے۔ یا پھر کوڑے دان سے کھانے کی چیزیں ڈھونڈنے سے۔ یا کسی غلط سمت سے آتی ہوئی گاڑی سے ٹکرا کر مر جانے سے۔ گھر کے باہر آوارہ کتوں کے کاٹنے سے۔ یا باہر کھیلتے ہوئے کسی دو پاؤں والے درندے کی ہوس کا شکار ہو کر کسی کوڑے کے ڈھیر یا کسی کھیت میں پڑی لاش کی صورت میں ملنے سے۔

کم عمری کی شادی سے، جرگے کے فیصلے پر زیادتی کا شکار ہو جانے سے سڑکوں پر برہنہ گھسیٹے جانے سے کاری یادنی ہونے سے۔ نصیب سے کالج یا یونیورسٹی پہنچ کر ہراسمنٹ کے نتیجے میں خود کشی کرنے سے۔ یا پھر نور مقدم اور عثمان مرزا۔ مگر نہیں وہ تو غریب کی بچیاں تھیں۔ انھیں تو اپنی زندگیوں میں جبر مسلسل، ظلم اور استبداد کا شکار ہونا تھا۔ انھیں تو ذہنی جسمانی، سماجی اور روحانی تشدد کا شکار بننا تھا سو وہ ان سے بھی محفوظ ہو گئیں۔

بے فیض نا آسودہ زندگی کا تسلسل رک گیا۔ وہ کام جو ریاست کی ذمہ داری تھے اس غریب تنہا عورت نے سر انجام دے دیے۔ آج کل ایوارڈز کا موسم ہے میرے خیال میں تو اس عورت کے لئے بھی ایوارڈ تو بنتا ہے۔ اب ظاہر ہے ”ایوارڈ برائے حسن کارکردگی“ تو نہیں ہو سکتا مگر ایوارڈ برائے ”تحفظ طفلاں“ یا پھر ”ایوارڈ برائے انسداد بے کسی بے چارگی“ تو ہو سکتا ہے۔ یہی خیال ہے پریشان مجھ میں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments