ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی گرفتاری کے لئے اڑتے جہاز کو اتارا گیا


بلوچ سیاستدان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ 77 سال کی عمر میں جمعہ 25 فروری 2022 کے روز گاڑی کے حادثے میں انتقال کر گئے۔

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی زندگی یا تو سیاست یا راہ چلتے ہوئے ہر جانے انجانے کو سلام کرتے ہوئے گزری۔ وہ دونوں ہاتھ جوڑتے یا سینے پر رکھتے، ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے اور ذرا سا جھک کر بلوچوں کو واجہ اور باقیوں کو جناب کہہ سلام کرتے یا کچھ دیر کے لئے رک جاتے۔ حال احوال کا سلسلہ ان کی کم مسافت کو طویل فاصلے میں بدل دیتا۔ اتنا عوامی کے ایک دفعہ اسلام آباد کے ایم این اے ہاسٹل کے سامنے ٹیکسی سے اترے، ٹیکسی والے کو سلام کیا، تھوڑا آگے بڑھے ایک اور شخص کی خیریت پوچھی اور پھر جوں ہی پنجاب سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے دو ممبران کو سلام کر کے بڑھے تو ایک نے اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا، یار! یہ ڈاکٹر صاحب بھی بڑے عوامی آدمی ہیں، دوسرے نے جو جواب دیا وہ تو بظاہر تھا طنز لیکن اصل میں ان کے عوامی پن، خاکساری اور عاجزی کو خراج تحسین تحسین تھا ”ہاں، اتنا عوامی کہ عوام بھی ان سے تنگ ہیں“

اگر عوام ان سے تنگ ہوتے تو انہیں اپنا نمائندہ بنا کر اسلام آباد نہ بھیجتے۔

بلوچ کی زندگی سیاست اور مزاحمت یعنی مزاحمتی سیاست میں گزرتی ہے اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے 1960 کی دہائی میں جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں شامل ہو مزاحمتی سیاست کی جو شال اوڑھ لی اس سے مرتے دم تک اوڑھے رکھا۔ اس کی قیمت انہوں نے قید و بند اور روپوشی کی صورت میں ادا کی۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کرنے کے دوران وہ چھ ماہ کے لئے پابند سلاسل ہوئے۔

وہ بلوچوں کے سیاسی مدرسے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین بنے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے طالب علم تھے کہ اس دوران 1970 میں عام انتخابات ہوئے۔ انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کے امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا۔

ان کا مقابلہ خان آف قلات کے بیٹے شہزادہ یحیی سے تھا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی نے کہا تھا کہ شہزادہ بمقابلہ کنگلا۔ لیکن جب شام کو ووٹوں کی گنتی ہوئی تو کنگلے نے شہزادے کو شکست دی۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہوا ہو کہ ایک غریب سیاسی کارکن نے خان آف قلات کے خاندان کو شکست دی ہو۔

لیکن بلوچ شہزادے کو شکست دینے کے بعد جب وہ اسلام آباد پہنچے تو وہاں پر طاقت کے شہزادوں سے الجھ پڑے۔

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ قومی اسمبلی کے ان بلوچ ارکان میں سے تھے جنہوں نے انیس سو تہتر کے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔ اس کی وجہ انہوں نے اپنی جانب سے آئین میں تجویز کردہ ترامیم کو شامل نہ کرنا بتایا۔ ان ترامیم میں پاکستان میں آباد قوموں کی تاریخ، ثقافت، زبان اور شناخت اور بلوچوں کو حق خود ارادیت کی ضمانت دینا شامل تھا۔

جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور حزب اختلاف نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان اختلافات نے شدت اختیار کی تو ڈاکٹر صاحب کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کا قصہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔

وہ پی آئی اے کی پرواز میں کراچی سے کوئٹہ جا رہے تھے کہ جہاز نے جوں ہی اڑان بھری تو پائلٹ کو اترنے کا حکم ملا۔ اترنے کے بعد محافظ آئے اور باآواز بلند کہا، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کون ہیں؟ ڈاکٹر صاحب اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور یوں انہیں ائرپورٹ تھانے لے جایا گیا۔

اتفاق سے وہ جس پولیس افسر کے سامنے پیش ہوئے ان کا نام سردار عبدالعزیز تھا جو خود بھی کوئٹہ سے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے گرفتاری کی وجہ پوچھی تو سردار صاحب نے کہا کہ آپ کو اس لئے گرفتار کیا جا رہا ہے کہ ہمیں یہ رپورٹ ملی ہے کہ آپ کابل فرار ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ میں تو پی آئی اے میں سفر کر رہا تھا جس نے کوئٹہ میں اترنا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ لوگوں کے ہی جہاز میں میں کابل فرار ہو جاؤں؟

یہاں سے ڈاکٹر صاحب کے اسیری کے تلخ دن شروع ہو گئے۔ انہیں پندرہ دن تک لیٹرین میں بند کر دیا گیا، کھانا دے دیتے لیکن سخت بدبو کی وجہ سے انہیں ابکائیاں آتی تھیں۔ صرف پانی ہی سے ان کی گزر بسر ہو رہی تھی۔

جیل میں بلوچ گوریلا کمانڈر شیروف مری اور باقی سیاسی کارکن بھی قید تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اصرار کیا کہ انہیں بھی سیاسی قیدیوں کے ساتھ رکھا جائے لیکن جیل انتظامیہ نے الٹا انہیں پیشہ ور مجرموں کے بیرک میں ڈال دیا۔ کچھ روز بعد انہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے اٹھارہ ماہ تنہائی میں گزارے۔ ان کی نیند محض تین گھنٹے ہوتی یعنی پوری رات جاگ کر صبح سویرے پانچ بجے سوتے اور تین گھنٹے بعد آٹھ بجے جاگ اٹھتے۔

یہاں انہوں نے دو بلیاں پال رکھی تھیں جن سے اتنی قربت ہوئی کہ بستر میں ساتھ سوتے۔ ایک بلی نے بچے ان کے ہی بستر میں جنے جس کی وجہ سے پورا بستر خون آلود ہوا۔

تقریباً بیس ماہ کی اسیری کے بعد عدالت کے حکم پر جیل سے باہر تو آئے لیکن باہر کا وسیع و عریض جہان بھی ان کے لئے بڑی جیل ثابت ہوئی۔ رہائی کے بعد ایک ساتھی انہیں لینے جیل کی گیٹ پر آئے اور جوں ہی ڈاکٹر صاحب موٹر سائیکل پر سوار ہوئے تو پولیس نے ایک اور مقدمے میں انہیں گرفتار کرنی کی کوشش کی لیکن ان کے ساتھی نے موٹرسائیکل بھگایا اور یوں کراچی کی گلی کوچوں میں پولیس اور ان کے درمیاں آنکھ مچولی شروع ہو گئی۔ بالآخر وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

ڈاکٹر صاحب چھپتے چھپتے بلوچستان پہنچ گئے اور وہاں روپوش ہو گئے۔ پولیس گھروں پر چھاپتے مارتی رہی لیکن وہ ہاتھ نہ آتے۔ ایک دن پولیس نے ان کا پیچھا کیا، وہ آگے اور پولیس پیچھے، بھاگتے بھاگتے انہوں نے کھیتوں میں کچھ لوگوں کو فصل کاٹتے ہوئے دیکھا۔ اپنے اوپر چادر ڈال کر فصل کی کٹائی میں جت گئے اور یوں پولیس ان کی تلاش میں ان کے قریب گزرتی ہوئی آگے نکل گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments