جنگ کیوں؟ فرائیڈ اور آئن سٹائن کی خط کتابت


عالمی منظر نامے پر جنگ کا نقارہ بج رہا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ خانہ جنگی نے تمام دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے۔ کچھ ماہرین عسکری امور اس کو تیسری عالمی جنگ قرار دینے پر تلے ہیں تو بعض مبصرین کے نزدیک یہ جز وقتی ہاؤ ہو کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عالمی وبا کرونا اور عالمی سطح پر پھیلی معاشی ابتری سے دنیا اس وقت جنگ تو کیا معمولی چپقلش کی بھی متحمل نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ روس، امریکہ اور چائنہ سمیت ترقی یافتہ و ترقی پذیر کئی ممالک براہ راست جنگ محاذوں پر برسر پیکار ہیں۔ دنیا پر امن کی آشاؤں اور کلچرل طائفوں کا تبادلہ بھی کسی ایک بارڈر یا ایک دور کی کہانی نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں ہر روز دوہرائے جانے والا سبق ہے۔

حالیہ جنگ کی بات کی جائے تو جہاں کئی ممالک حریفین کو اپنی اپنی حمایت کی یقین دہانی کروا رہے ہیں تو ایسے میں کچھ جنگ بندی، صلح، امن اور بھائی چارے کے لیے بھی کوشاں نظر آتے ہیں۔ جنگوں کی تاریخ اور ان کے نقصانات کے اعداد و شمار پیش کرنا تو شاید ممکن ہی نہیں لیکن محض انسانی جانوں کے ضیاع کی بات کی جائے تو فقط ان دو عالمی جنگوں میں ایک سو بیس ملین کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا پر ہونے والی بڑی جنگوں اور ان کی تباہ کاریوں سے انسان نے کیا سیکھا ہے؟ کیا وہ ہمیشہ کے لیے بارود کی بو سے چھٹکارا نہیں پا سکتا؟ اقوام متحدہ اور ایسے بیسیوں عالمی ادارے آج بھی اقوام میں حقیقی اتحاد پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟

کیا حضرت انسان نے اس سے پہلے جنگ سے ہمیشہ کی نجات پانے کا کوئی وسیلہ تلاشا۔ جنگ کے محرکات اور اس سے بچنے کی تدابیر کے متعلق کچھ جاننا مطلوب ہو تو تاریخ کی پنوں میں کچھ نادر دستاویزات آج بھی موجود ہیں۔ مشہور سائنس دان آئن سٹائن اور معروف ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کی درمیان 1932 ء میں لکھے گئے دو خطوط میں جنگ کے محرکات اور اس سے بچنے کی تدابیر کے تبادلے پر سیر حاصل گفتگو ملتی ہے۔ یہ خطوط انٹرنیٹ پہ
”Why war by Sigmund Freud and Einstein“
کے عنوان سے باآسانی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

یہ اس دور کی کہا نی ہے جب یورپ ایک جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد دوسری عالمی جنگ کے بالکل قریب تھا پوری دنیا جنگی حکمت عملیوں اور گٹھ جوڑ میں مصروف تھی۔ اس وقت لیگ آف نیشنز نے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انٹلیکچوئل کی مدد سے اس وقت کے نمائندہ ترین دانشوران کو خطوط کے ذریعے اہم فکری مسائل کو زیر بحث لانے کی ذمہ داری سونپی تو معروف ماہر طبعیات آئن سٹائن نے ”ڈیئر پروفیسر فرائیڈ“ کو مخاطب کرتے ہوئے جنگ ’اس کے محرکات اور انسانیت کو جنگ جیسی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے طریقہ کی بابت استفسار کیا۔

ٓٓآئن سٹائن خود بھی اس خط میں مفصل انداز میں جنگ کے محرکات کو بیان کرتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سو سال پہلے جو جنگ کی وجوہات یورپ میں تھیں آج بھی دنیا بھر کو انہی سے واسطہ ہے۔ آئن سٹائن لکھتا ہے کہ ایک طرف جہاں سیاستدانوں میں اقتدار کی ہوس ہے تو دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جن کے اقتصادی و معاشی مفادات جنگ سے وابستہ ہیں۔ ان سب کے مفادات جنگ اور افراتفری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں جس سے عوام کی ہلاکت و تباہی یقینی ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ وہ اپنا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے کی گئی تمام کاوشیں بے سود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوئی طاقت ور نفسیاتی قوت ایسی ہے جو انسان کو اس میدان میں جھونکے ہوئے ہے۔ آئن سٹائن اپنے اس خط میں سگمنڈ فرائیڈ کی انسانی جبلت پر گہری نظر رکھنے کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو جنگ کی وجوہات کا احاطہ کرنے اور اس کے تدارک کی تدبیر دریافت کرتا ہے۔

فرائیڈ نے آئن سٹائن کے خط کا خاصا مفصل اور جامع انداز میں جواب دیا۔ جس میں فرائیڈ نے انسانی جبلت اور اس کے نفسیاتی مباحث کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسان کے پاس اپنی اس نفرت، جنگ اور تشدد پر مبنی جبلت سے مکمل طور پر چھٹکارا پانے کا کوئی حل موجود نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کی اس تخریبی جبلت کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے زیادہ سے زیادہ اتنا کیا جا سکتا ہے کہ ایسی طاقتوں کا رخ موڑ کر تشدد اور جنگ کے امکانات کو کم کر دیا جائے۔

فرائیڈ کے نزدیک تہذیبی ترقی انسان جبلتوں کی شدت کو کم کرتے ہوئے اس کی طاقت کا رخ سماجی روابط، باہمی ہم آہنگی اور اجتماعی عمومی مسائل وغیرہ کی طرف موڑ دیتی ہے جس کے باعث معاشرے میں امن و سکون پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے کہ قدیم دور کا جنگلوں میں رہنے والا انسانی آج کے تہذیب یافتہ دور کی نسبت کئی گنا زائد جھگڑالو اور حیوانی جبلتوں سے زیادہ جڑا ہوا انسان تھا۔ فرائیڈ اپنے خط میں ایک جاہل یا کم پڑھے لکھے معاشرے کی نسبت ترقی یافتہ معاشروں میں شرح پیدائش کے واضح فرق کو سامنے رکھتے ہوئے انسان کی جنسی جبلت کے سست پڑنے یا اس توانائی کا رخ دیگر مثبت کاموں میں بٹ جانے کی مثال دیتا ہے۔

فرائیڈ کے نزدیک تہذیبی عمل کے دوران انسان کے فطرتی و جبلتی عزائم آہستہ آہستہ پس پردہ جانے لگتے ہیں اور ایک وقت پہ انسان خود جبلت پر قابو پا لیتا ہے۔ وہ احساسات جو ہمارے آبا و اجداد کے لیے باعث نشاط اور خوش کن تھے آج ہمارے نزدیک شاید نا پسندیدہ ہوں۔ المختصر وہ تمام عوامل جو تہذیب کو مضبوط کرتے ہیں جنگ کے خطرے کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

دشمن کے جارحانہ عزائم اور شر سے بچنے کی خاطر اپنے دفاع کے لیے ہر وقت تیار رہنا کسی بھی ریاست کی سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اپنے عوام کو جنگ کے خوف سے نکالنا اور ان کے اندر کے جارحانہ عزائم کا رخ کسی مثبت سر گرمی کی طرف موڑنا بھی تہذیبی ترقی اور قومی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ لہٰذا یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ جنگ انسانی جبلت کا ایک خاصا ہے آج کے انسان کو روایتی جنگ کی بجائے اس جبلی خواہش کا رخ موڑتے ہوئے سماجی ترقی اور خوشحالی کی راہیں ہموار کرنے والے عوامل کو فروغ دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments