واہ ری مٹی


والد صاحب کی وفات پر ان کی قبر پر لکھوایا شعر آج پھر سامنے کھڑا تھا، میں اپنے دوست محمد عارف وڑائچ کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے بیٹوں کے پاس چک نمبر 265 ڈی اے، لیہ میں موجود تھا

”واہ نی مٹیے جین جوگیے
واہ نی تیرے کمال
کتھے جمیں، کتے پالیں
کتھے کریں وصال ”
(واہ ری مٹی، جیتی رہ، تیرے گن کمال ہیں، ہم ہجر ماروں کو کہاں پیدا کرتی ہے اور کہاں لا کر مارتی ہے )

عارف صاحب کے آبا و اجداد کبھی وڑائچ پٹی، جلالپور جٹاں سے ساندل بار میں زمینیں لینے نکلے تھے، زمین جٹ کا پہلا اور ہیر دوسرا عشق ہوا کرتی ہے، جبھی پنجاب کی پانچ باروں، ریاست بہاولپور اور ریگ زار تھل کی زلف گرہ گیر کے اسیروں میں یہ دیوانے سب سے زیادہ تھے، گجراتی تو جیسے چناب کے پانیوں کے ساتھ ساتھ سوہنی کے کچے گھڑے کی آس میں چلتے چلے آئے تھے، پاکستان کا کوئی کونا دیکھ لیجیے گجراتی کاشتکار مہینوال کی طرح دھرتی کی سوہنی کے لئے اپنے تن کا ماس لیے حاضر ملیں گے

عارف صاحب کے دادا نے ساندل بار کے گاؤں 234 ر۔ ب، صاحب نگر میں آبادی کی۔ میری جنم بھومی ڈجکوٹ یہاں سے زیادہ دور نہ تھی، مگر ڈجکوٹ سے میری دربدری اور صاحب نگر سے عارف صاحب کی بے وطنی میں کئی عشروں کا فاصلہ تھا، ترنجن سے بچھڑی ان سہیلیوں کی طرح کہ جو برسوں بعد کسی دور دراز گاؤں میں اچانک مل جائیں، ہم نے بھی بچپن کے اس لالہ زار کی کہانی اس وقت کہی کہ جب 2011 میں، میں ایک اور بن باس کاٹ کر ان کے گاؤں کے سکول میں تعینات ہوا، یوں ہماری صحبتیں، صاحب نگر، دسوھہ، چوہدری ابادان ارائیں ڈجکوٹ، ماسٹر گلزار اور گجرات جیسے پھولوں کی خوشبو سے مہک اٹھیں، اگرچہ ارد گرد کے گاؤں گجراتیوں سے بھرے پڑے تھے مگر زمان و مکان سے جھوجھنے کی کہانی سب کی مختلف تھی، میری اور عارف صاحب کی دوستی کا سبب یہ تھا کہ ہماری کہانی کے کچھ باب مشترک تھے۔

میں 265 ٹی ڈی اے میں آمد سے پہلے دو سال گجرات یونیورسٹی میں بسر کر کے آیا تھا، یوں تو یہ ”ریسرچ افسری“ تھی مگر درحقیقت، کوتاہ نظر اور خوشامد پسند دربار کی چاکری تھی۔ پروفیسر شبیر حسین شاہ ( شہید) ، پروفیسر مسعود الرحمن چھبر اور ڈاکٹر زاہد بلال اس دشت نوردی کا حاصل تھے۔ کامریڈ شبیر حسین شاہ بلاسفیمی کے مقدمے کی اس فائل کا شکار ہوئے کہ جو یونیورسٹی میں ان کے احسان تلے دبے ایک کم ظرف کی دراز میں موجود رہتی تھی۔ پروفیسر مسعود اور ڈاکٹر زاہد بلال البتہ صاحب حیات ہیں مگر وقت کی اس ستم ظریفی کا کیا کیجئے کہ ان کے دیکھنے کو اب آنکھیں ترستی ہیں

دوبارہ پی ٹی سی ٹیچر کی نوکری جوائن کی تو یونیورسٹی کو تین طلاق دے کر آیا تھا۔ عارف صاحب پہلے ہی دن ملنے آئے تو کہنے لگے ”جناب تسیں تھوڑے دن ای ایتھے او، جے یونیورسٹی چھڈ آئے او تے پنڈ وچ تے نہیں نا بہ رہنا، اک دن اچانک چلے جاؤ گے“

میں نے سوچا، طارق کشتیاں جلا کر آیا ہے مگر مولانا سمجھ رہے ہیں کہ پیچھے بڑے بندوبست کر کے آیا ہے،

مگر وہ ہر ملنے جلنے والے سے یہی کہتے ”یہ چند دن یا چند مہینے رہے گا دیکھنا ایک دن اچانک چلا جائے گا“

عارف صاحب یہ پیشین گوئی اتنے یقین سے کرتے کہ کبھی کبھی میں بھی سوچنے لگتا کہ اگرچہ سارے راستے بند کر کے آیا ہوں مگر شاید کوئی در ابھی کھلا ہو؛

کالجز کے لیے لیکچرر پنجابی کی پوسٹیں آئیں تو میں سلیکٹ ہو گیا، ایک عجیب طرح کی مہاجرت پھر ہم قدم تھی، پاؤں انہی راستوں کی طرف تھے کہ عشروں پہلے جہاں سے میں اور عارف صاحب نوخیز رتوں کا نوحہ بن کر نکلے تھے۔

گورنمنٹ کالج سمندری سے میرے واپس چلے آنے پر کبھی کبھار ملاقات ہوتی تو بڑے جوش سے وہی بات کہتے ”میں آکھیا سی نا، توں ایتھے تھوڑا چر ای ایں، اک دن اچانک چلا جائیں گا“ (میں نے کہا تھا نا، تو یہاں تھوڑے دن ہی ہے، ایک دن اچانک چلا جائے گا”۔

قریب بائیس دن پہلے میں اسی ڈجکوٹ میں تھا کہ جہاں سے میری اور عارف صاحب کی کہانی شروع ہوتی ہے، اچانک ان کے بیٹے کا فون آیا

”سر ابو فوت ہو گئے نیں“
میں ایک دم سن ہو کر رہ گیا، ان کے ساتھ کی گئی باتیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں

صاحب نگر، دسوھہ، چوہدری ابادان ارائیں، ڈجکوٹ، ماسٹر گلزار، گجرات، چک نمبر 265 کا پرائمری سکول، اور پھر اچانک میرے کانوں میں ان کی آواز گونجی

”توں ایتھے تھوڑے دن ای ایں، اک دن اچانک چلا جائیں گا“ (تو یہاں تھوڑے دن ہی ہے، ایک دن اچانک چلا جائے گا”۔)
مجھے لگا، ہم عبادت گزار عارف کو مولوی سمجھتے رہے، وہ رمز آشنا صوفی تھے، ہم سمجھ نہیں پائے
حق مغفرت کرے

طارق گجر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

طارق گجر

طارق گجر بنیادی طور پر پنجابی شاعر اور افسانہ نگار ہیں، تقسیم پنجاب ان کی تخلیقی شخصیت کا ہمیشہ سے محرک رہا ہے۔ وہ ان پنجابی لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 1947 کے بعد پنجابیوں کو درپیش شناختی بحران کے حوالے سے قابل قدر تخلیقی کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شاعری کی کتاب ”رت رلے پانی“ قابل ذکر ہے۔ پچھلے چند سالوں سے انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کے ذریعے تقسیم پنجاب کے سلیبسی نقطہ نظر کے متوازی پنجاب کے عوام کا نقطہ نطر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی کام کیا ہے۔ طارق گجر جمہوریت، مکالمے، صنفی برابری اور آزادیٔ رائے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور پاکستانی میں بسنے والی اقوام کے درمیان مکالمے کے لیے کوشاں رہتے ہیں

tariq-mahmood-gujjar has 10 posts and counting.See all posts by tariq-mahmood-gujjar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments