روس و یوکرائن کی جنگ حقائق کے تناظر میں


وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ یک بیک نہیں ہوتا

یورپ ایک بار پھر جنگ کے بھڑکتے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ روس نے یوکرائن پر تین اطراف سے حملہ کر دیا ہے۔ یوکرائن کی فوج اسلحے اور تعداد کے لحاظ سے روس کے مقابلے کی نہیں، رشین صدر ولادی میر پوٹن نے روسی افواج کو جدید اسلحے سے لیس کر دیا ہوا ہے اور جنگی ساز و سامان پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے، مغربی سیکورٹی حکام کے اندازوں کے بقول روس نے تقریباٰ ایک لاکھ 90 ہزار کے لگ بھگ فوجیوں کی تعیناتی یوکرائن کی سرحدوں پر کی ہے جب کہ یوکرائن کی پوری فوج تقریباٰ ایک لاکھ 25 ہزار فوجیوں پر مشتمل ہے، دریں حالات یہ ہیں کہ جنگ کی شدت ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے، لاکھوں لوگ پناہ کی تلاش میں نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اب تک اس جنگ میں کم و بیش 137 سے زیادہ یوکرائنی سویلین اور آرمی کے افراد شامل ہیں جو موت کی چاپ سن کر راہی ملک عدم ہوچکے ہیں۔

جب کہ ہلاکتوں کی تعداد ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے، کیونکہ جنگیں کسی کی خیر خواہی نہیں کرتی، جنگوں میں سب سے ارزاں چیز جو ہوتی ہے وہ انسانی جان ہوتی ہے، نہ جس کی حرمت ہوتی ہے اور نہ موت سے مفر ہوتا ہے، حکومت یوکرائن نے باقی ماندہ شہریوں کی زندگی کی حفاظت کی خاطر اپنے شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ میٹرو سٹیشنز میں یا بنکرز میں پناہ لینے کی ہدایت کر دی ہے ویسے تو مارشل لا اور کرفیو کی صورتحال ہے مگر میٹرو سٹیشنز کھلے ہیں تاکہ لوگ پناہ گزین ہو سکیں، امریکہ اور برطانیہ نے روسی بینکس کے اکاوئنٹس منجمد کر دیے ہیں اور یورپی یونین اور اتحادی روس کو سخت نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ روس ہے کہ آگے سے خبردار کرتا پھر رہا ہے کہ اگر کسی نے یوکرائن کی حمایت میں میرے ساتھ الجھنے کی کوشش کی تو اس کے اثرات ایسے بھیانک ہوں گے جو کسی کو توقع بھی نہیں ہوگی۔

سنیک آئی لینڈ میں روسی بحری جہاز نے جب جزیرے پر قابض ہونے کے لئے حملہ کیا تو اس جھڑپ میں اس چھوٹے سے جزیرے پر تعینات 13 یوکرائینی محافظین نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا، رشین جہاز سے ان کو خبردار کیا گیا کہ آپ لوگوں کی سلامتی اسی میں ہے کہ اپنے ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دیں ورنہ ہم فائرنگ کر کے آپ کو ختم کر دیں گے، تو اس کے جواب میں یوکرائنی محافظین نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے کہا بس بہت ہو چکا، روسی بحری جہاز ہماری حدود سے نکل جاؤ، پھر جب وہ جزیرے سے نہ نکلے تو بحری جہاز سے فائرنگ کر کے ان کو ہلاک کر دیا گیا اور جزیرے پر قبضہ کر لیا گیا بی بی سی کے بقول ان محافظین کی آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے، جب کہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چرنوبل جوہری سائٹ پر شدید جھڑپیں دیکھی گئیں مگر اب یہ علاقہ روسی قبضے میں ہے، امریکہ کا یہ کہنا ہے کہ یہاں پر بہت سے یوکرائنی فوجی یرغمال بنا کر رکھے گئے ہیں، یورپی یونین، آسٹریلیا اور جاپان نے روس پر عائد پابندیوں کو بہت سخت کر دیا ہے۔

یوکرائن کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے مغربی ممالک کے اقدامات کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے یوکرائن کل کی طرح آج بھی تن تنہا اپنا اپنی ریاست کا دفاع کر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کی طرح دنیا کے طاقتور ممالک دور سے بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ کیا روس کل کی پابندیوں سے متاثر ہواء ہے؟ ہم اپنے آسمانوں میں سن رہے ہیں اور اپنی زمین پر دیکھ رہے ہیں کہ یہ کافی نہیں ہے، ۔ یہ ہیں موجودہ حالات و واقعات، اب آپ کی وسعت ذہن کے لئے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کا پس منظر کیا ہے، کہانی کیا ہے جو ان دو ممالک کے دوران تناؤ کا باعث بنی اور چھوٹی چھوٹی چنگاریوں نے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی شکل کیوں اختیار کر لی۔

میری حقیرانہ تحقیق کا نچوڑ آپ کے پیش خدمت ہے۔ دونوں پڑوسی ممالک 1000 سال سے زیادہ کی ہنگامہ پرور تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ یوکرائن یورپ کے لئے ایک اہم ٹرانزٹ روٹ ہے۔ تقریباٰ 7.5 نسلی روسی یوکرائن اور کریمیا کے جنوبی علاقے میں رہتے ہیں۔ یوکرائن کے کم و بیش 46 ملین لوگوں میں سے تقریباٰ 25 % روسی زبان کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکشر و بیشتر یوکرائنی باشندے روسی نژاد ہیں سوائے گالیشیائی باشندوں کے، اب یہاں ازہان میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ روسی کیوں یوکرائن کو اپنا علاقہ سمجھتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں قومیں اپنی جڑیں یا بنیادیں پہلی مشرقی سلاوی ریاست کیوان روس سے جوڑتے ہیں جو کہ نویں صدی سے 13 ویں صدی کے درمیان تک بالٹک سے بحیرہ اسود تک پھیلی ہوئی تھی۔

اس قرون وسطی کی سلطنت کی بنیاد وائکنز نے رکھی تھی۔ روس ایک سلاؤ لفظ ہے جو کہ سرخ بالوں والے اسکینڈے نیوین کو دیا گیا تھا جو کہ نویں صدی میں شمال سے اتر کر نیچے آئے اور مقامی سلاؤ قبائل کو فتح کرنے کے بعد کیف میں اپنا دارالحکومت قائم کیا، بادشاہت نے 988 میں مشرقی آرتھرڈوکس عیسائیت میں اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے بعد جدید روسی چرچ کی بنیاد رکھی، لیکن 13 صدی کے وسط میں اس کیف کی سلطنت کو منگول حملہ آوروں نے تباہ کر دیا تھا اس وقت منگول ایک آندھی کی مانند اٹھے اپنے ساتھ کتنی قوموں کا وقار اور غرور ایک بگولے کی مانند اڑا کر لے گئے اور جس طرف منہ کرتے تھے کھوپڑیوں کے مینار بنا دیتے تھے پھر نہ کسی جان کی حرمت باقی رہتی تھی اور نہ کسی کا مال سلامت رہتا تھا جو سامنے ملتا وہ کھائے ہوئے بھس کی طرح پڑا رہ جاتا تھا تو میں عرض کر رہا تھا کہ جب منگول حملہ آوروں نے تاراجی شروع کی تو اس علاقے کی طاقت شمال کی طرف روس کی ایک چھوٹی تجارتی چوکی کی طرف منتقل ہو گئی تھی جسے ماسکو کہا جاتا تھا جو کہ آج کل رشیا کا دارالحکومت ہے جس نے دن بدن بہت ترقی اور طاقت حاصل کر لی۔

الغرض کہ یوکرائن پر کیتھولک پولینڈ اور لتھوانیا نے سینکڑوں سال تک غلبہ حاصل کیا لیکن 18 ویں صدی کے آخر تک شاہی روس نے یوکرائن کے بیشتر حصے اپنے تسلط میں کرلئے، زاروں نے اپنے مفتوحہ علاقوں کو چھوٹا روس کہا اور 1840 کی دہائی میں بڑھتی ہوئی یوکرائنی قوم پرستی کو کچلنے کی کوشش کی اور سکولوں میں یوکرائنی زبان کے استعمال پر پابندی لگا دی۔

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments