ڈاکٹر مہدی حسن: ایک عالم کی موت


ڈاکٹر مہدی حسن بھی دار فانی سے رخصت ہوئے۔ کیسی اندوہناک خبر تھی۔ تمام صحافتی، علمی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں اس خبر پر رنج و الم کی لہر دوڑ گئی۔ مہدی صاحب کے ہزاروں شاگرد اس سایہ دار چھاؤں سے محروم ہو گئے جس کی ہزاروں شاگرد اس سایہ دار چھاؤں سے محروم ہو گئے۔ جس کی شفقتوں کے سائے میں بیٹھ کر انہیں زندگی گزارنے کا سلیقہ سمجھ میں آتا تھا۔

ڈاکٹر مہدی حسن بلاشبہ ایک نابغہ ءروزگار شخصیت تھے۔ اپنی خاندانی روایات، شرافت اور نجابت کا اعلی نمونہ تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں مولانا حالی کے خانوادے کی علمی، ادبی اور سیاسی خدمات ہماری تاریخ کا روشن بات ہیں۔ ڈاکٹر مہدی حسن نے نہ صرف ان روایات کا پاس کیا بلکہ اپنی روشن خیالی اور ترقی پسند خیالات سے بے شمار لوگوں کو فیض یاب کیا۔

ڈاکٹر مہدی حسن کو زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ کلاس روم ہو یا ٹی وی کا پروگرام وہ ہر جگہ اپنے خوبصورت لب و لہجے، زبان کی شیرینی اور حلاوت کے علاوہ علمیت اور تدبر سے اپنا نکتہ نظر بھرپور انداز سے پیش کرتے۔ حق گوئی اور بے باکی ان کی طبیعت کا خاصہ تھی۔

ڈاکٹر مہدی حسن صاحب کی صحافتی زندگی پچاس برسوں پر محیط ہے۔ اردو اور انگریزی اخبارات میں انہوں نے لاتعداد مضامین لکھے، جنہیں بے حد پذیرائی ملی۔ صحافت کے مختلف موضوعات پر تحقیقی کتب اور مقالے تحریر کیے جو صحافت کے طالب علموں کے لئے رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔

ٹی وی چینلز پر جہاں کج فہمی، کم علمی اور جہالت کے عالمی ریکارڈ قائم کیے جاتے ہیں۔ وہاں ڈاکٹر مہدی حسن نے اپنی اعلی و ارفع گفتگو سے ایک بہترین معیار کی داغ بیل ڈالی۔ انہیں اردو زبان، لب و لہجے اور تلفظ پر مکمل عبور تھا اور پھر یہ کہ وہ گفتگو دلیل کے ساتھ کرتے اور سننے والوں کو بے حد متاثر کرتے۔ انہیں ہمیشہ افسوس ہوتا تھا کہ لوگ انگریزی زبان کے بارے میں تو اس قدر محتاط ہوتے ہیں کہ کوئی لفظ غلط نہ بول پائیں لیکن اردو زبان کے تلفظ کو اس قدر غلط بنا دیا گیا ہے جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ ایک دفعہ لاہور میں ایک کنونشن ہو رہا تھا۔ جس کی صدارت شہید بے نظیر بھٹو کر رہی تھیں۔ اس تقریب میں ڈاکٹر مہدی حسن نے گفتگو کی۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے ایک ممتاز راہنما نے مداخلت کی اور کہا کہ مہدی صاحب مختصر بات کریں۔ مہدی صاحب نے بے نظیر سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ اپنے خوشامدیوں میں گھری رہتی ہیں جبکہ ہمیں کبھی کبھی براہ راست گفتگو کا موقع ملتا ہے۔ اگر آپ تنقید برداشت نہیں کر سکتیں تو میں ڈائس سے چلا جاتا ہوں۔ اس موقع پر بے نظیر بھٹو کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ بات جاری رکھیں اور جتنا وقت چاہیں، لیں۔ اس پر ہال میں بھرپور تالیاں بجیں اور ڈاکٹر صاحب نے حکومت وقت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی اور تجاویز پیش کیں جسے اس دور کی وزیر اعظم نے بے حد سراہا۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں دوران ملازمت مہدی حسن مرحوم پر بے شمار کڑے وقت آئے۔ بار بار ملازمت سے سبکدوش کیے گئے، جگہ جگہ حق تلفی کی گئی۔ ایک فاشسٹ مذہبی جماعت کی ذیلی تنظیم کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کی کردار کشی کی گئی۔ ان پر سرعام آوازے کسے گئے۔ ان کے کمرے کے باہر دھمکی آمیز پوسٹر لگائے گئے، اہانت آمیز نعرے بازی کی گئی اور ان پر اسلام دشمنی، وطن دشمنی اور غداری کے لیبل لگائے گئے۔ لیکن مہدی حسن صاحب نے ان تمام نامساعد حالات کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کیا۔

وسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے تمام شاگردوں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی تنظیم سے ہو، برابری کا سلوک کرتے تھے۔ تعلیمی معاملات میں ہر ایک سے ہر ممکن تعاون کرتے اور پوری غیر جانبداری سے تمام طلبا و طالبات کے جائز حقوق کی پاسداری کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے۔ پنجاب یونیوسٹی کے شعبہ صحافت میں ڈاکٹر مہدی حسن صاحب کا کمرہ ایک قسم کا چھوٹا سا ہائیڈ پارک تھا۔ جہاں ہر کسی کو اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ خصوصاً طالبات کا ایک ہجوم ان کے کمرے میں براجمان رہتا تھا۔ مہدی صاحب بہت محبت سے سارا دن سب کو چائے اور کافی پلاتے اور ان کے دکھ درد سنتے، تسلی تشفی دیتے اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے حوصلہ دیتے۔

مہدی حسن صاحب خواتین کے حقوق کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہماری خواتین ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کی حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ تھا کہ شعبہ صحافت سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات نے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس بات کا سب کریڈٹ انہیں ہی جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب میں کمال کی حس مزاح تھی۔ نہایت نامساعد حالات میں بھی وہ ہنستے بولتے کا موقع پیدا کر دیتے تھے۔ یوسف رضا گیلانی نیر نگی سیاست دوراں کی وجہ سے ملک کے وزیر اعظم بنے۔ ان کا شمار ڈاکٹر صاحب کے نالائق شاگردوں میں ہوتا تھا۔ مہدی صاحب نے بتایا کہ جب وہ موصوف وزیر اعظم بنے تو ایک دفعہ کسی تقریب میں دونوں کا آمنا سامنا ہوا۔ تو یوسف رضا گیلانی نے اپنے وزیروں سے ان کا تعارف یوں کروایا کہ یہ ڈاکٹر مہدی حسن ہیں۔ ہمارے استاد۔ باقی تو سارے مر گئے یہ رہ گئے ہیں۔ یہ واقعہ سنا کر مہدی حسن خوب ہنسے کہ بھلا تعارف ایسے بھی کروایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر مہدی حسن صاحب کی شخصیت بہت دل آویز تھی۔ لباس اور وضع قطع کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔ جس سے ان کی شخصیت میں اور نکھار پیدا ہوتا۔ وہ ایک شفیق اور خلیق انسان بھی تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب ہماری تقرری ریڈیو پاکستان میں ہوئی تو ریڈیو والوں نے ہم سے کہا کہ ہم یونیورسٹی سے کریکٹر سرٹیفکیٹ لے آئیں۔ اتفاق سے ان دنوں جو صاحب شعبہ صحافت کے چیئرمین تھے، وہ بھی ایک اسلامی تنظیم کے خیرخواہ تھے۔ انہوں نے ہمیں سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اور مختلف حیلے بہانے کیے۔ ہم ڈاکٹر مہدی حسن صاحب کے پاس گئے اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ مہدی حسن صاحب نے خوب ڈانٹا کہ تمہیں میرے پاس آنا چاہیے تھا۔ پہلے کافی پلائی اور خود اٹھ کر گئے اور میرا سرٹیفکیٹ بنوا کر لے آئے۔

واقعات تو ہزاروں ہیں۔ بس ایک آخری بات۔ گزشتہ برسوں میں ڈاکٹر صاحب بہت بیمار ہوئے۔ ہسپتال میں داخل رہے۔ جب طبیعت سنبھلی تو گھر منتقل ہو گئے۔ لیکن کمزوری اور نقاہت قائم رہی۔ ہماری ایک عزیزہ کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لئے رہنمائی کی ضرورت تھی، ہم نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا۔ ناسازی طبع کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے ٹیلی فون پر طویل گفتگو کے ذریعے اس بی بی کی رہنمائی کی جس کی وجہ سے اسے اپنے مقالے میں بے حد مدد ملی۔

ڈاکٹر صاحب کی محبت اور ایثار کا احاطہ چند الفاظ میں ممکن نہیں۔ وہ استاد بھی تھے اور دوست بھی۔ ان میں پدرانہ شفقت بھی تھی اور بے تکلفی اور اپنائیت کا ایسا جذبہ بھی تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments