موقع ملا نہیں اور اصل اوقات دکھائی نہیں

وسعت اللہ خان - تجزیہ کار


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

جنگ ختم ہو جائے گی۔۔۔ لڑنے والے مصافحہ کر لیں گے
ماں شہید بیٹے کی منتطر رہے گی
بیٹی شوہر کی راہ تکتی رہے گی
بچے شفیق باپ کی واپسی کے دن گنتے رہیں گے
کس نے مادرِ وطن بیچی؟ میں نہیں جانتا
کس نے قیمت ادا کی؟ یہ ضرور جانتا ہوں
( محمود درویش )

بہت برا ہوا کہ ایک مہذب ملک نے ظاہر داری کی شیروانی اور پاجامہ اتار کے پھینک دیا اور پرانا لنگوٹ کس کے پھر میدان میں اتر آیا۔

پر اچھا یہ ہوا کہ تہذیبی اقدار اور امن اور آزادی بچانے کے دعویداروں کو ایک اور کمزور ملک کی لاش بس اب ملی کہ جب ملی۔ جسے وہ تب تک دفن نہ ہونے دیں گے جب تک اس کے ایک ایک ریشے کو معاشی، سیاسی و عسکری منافع کے آخری سکے میں نہ بدل ڈالیں۔

کسی کمزور زخمی ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے سے زیادہ عقلمندی یہ ہے کہ اردگرد گھیرا ڈال کے ’ہائے ہائے ہائے ظالموں نے مار ڈالا‘ چیختے رہو، بین کو آسمان چھونے دو، سینے پے دو ہتڑ مارتے چلے جاؤ اور ماحول گرمائے جاؤ اور کسی معقول حل کا حصہ بننے کے بجائے مسئلے کے الاؤ پر اور لوبان چھڑکتے جاؤ۔ حتی کہ اسی کا ہم پلہ کوئی نیا مسئلہ ہاتھ نہ آ جائے۔

روس نے جو کیا برا کیا۔ کوئی بھی آزادی پسند یا بنیادی عالمی اقدار پر یقین رکھنے والا اس ننگی جارحیت کی حمایت نہیں کرسکتا۔

مگر پھر شبہہ ہونے لگتا ہے اپنی ہی مذمت پر۔ جب آدمی دیکھتا ہے کہ جارج بش بھی یوکرین پر ہونے والی ننگی روسی چڑھائی پر چھی چھی چھی کرنے والوں میں شامل ہے۔

آدمی یوکرین کی حمایت کرتے کرتے اچانک بھونچکا رہ جاتا ہے جب یہ پتہ چلے کہ بائیڈن بھی روس کے جائز حلقہِ اثر (سابق سوویت ریاستیں) کو نیٹو کی دست برد سے پاک رکھنے کے پوتنی مطالبے کو ایک نامعقول بچگانہ ضد بتا رہا ہو اور یہ بھی یاد نہ ہو کہ پونے دو سو برس پہلے لاطینی امریکہ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا روایتی حلقہِ اثر قرار دینے والا منرو ڈاکٹرائین کسی ولادیمیر پوتن نے پیش نہیں کیا تھا۔

چلی کا ملک پہلا یوکرین تھا جہاں منتخب مارکسسٹ صدر سلواڈور آلندے کی حکومت کو سی آئی اے نے روایتی امریکی حلقہِ اثر کے قلعے میں شگاف کے طور پر دیکھا۔ چنانچہ اسے بھرنے کے لیے وہاں جنرل پنوشے کی امریکہ نواز آمریت اتاری گئی۔

کیا امریکی صدر رانلڈ ریگن کی فوج کشی کے ذریعے گریناڈا میں حکومت کی تبدیلی کو ہم اس لیے بھول جائیں کہ گریناڈا نقشے پر ڈھونڈنا پڑتا ہے اور یوکرین بڑا بڑا نظر آتا ہے۔

وسطی امریکہ کے ممالک کو بنانا ریپبلک کس نے بنایا؟ یہی کام تو پوتن وسطی ایشیائی سابق سوویت ریاستوں کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔

پوتن کا یوکرین کی تسلیم شدہ قانونی حدود کے اندر دو خود ساختہ ریاستوں کو تسلیم کر لینا ناقابلِ معافی ہے۔ مگر گولان کی پہاڑیوں اور یروشلم کو اسرائیل میں یکطرفہ طور پر شامل کر لینا کیسا لگتا ہے؟

یوکرین

یمن میں من پسند حکومت قائم کرنے کے لیے اجتماعی عرب فوج کشی ہو تو اس کی خاموش تائید حلال، یوکرین پر روس کی چڑھائی ہو تو اس پر خاموش یا الگ تھلگ رہنے والے ممالک پر تھو تھو؟

اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو روندتے ہوئے عراق کی دھجیاں اڑا دینا دنیا کو وسیع تر تباہی سے محفوظ رکھنے والے ہتھیاروں سے محفوظ کرنے کا مشن، مگر یوکرین کی اینٹ سے اینٹ بجانا جنگل کا قانون۔

کہتے ہیں زمانہ بدل گیا ہے۔ انسان پہلے سے زیادہ مہذب ہو گیا ہے۔ اکیسویں صدی پر انیسویں صدی کا عالمی نظام تھوپنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

مگر یہ تب کسی کو یاد نہ آیا جب 1991 میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد واحد سپرپاور نے نیو ورلڈ آرڈر کی آمد کا بگل بجایا۔ کچھ اسی سے ملتا جلتا اعلان دو ہزار برس پہلے روم کے ایک محل کی عالیشان سیڑھیوں پر کھڑے کسی سیزر نے بھی تو کیا تھا۔

زمانہ بدل گیا، زمانہ بدلتا رہے گا مگر انسان کہاں بدلا، اس کی جبلت اور سرشت پر کون سی تبدیلی اثرانداز ہو پائی۔ کھال اوڑھنے سے لے کرسوٹ ٹائی تک کا سفر، غار سے نکل کر کریملن اور وائٹ ہاؤس میں رہائش پذیری اور ’جھینگا لالا ہو ہو‘ کی جگہ اعلی سفارتی زبان کا چلن اپنی جگہ، مگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس تو آج بھی اتنا ہی برمحل ہے جتنا پانچ ہزار سال پہلے تھا۔

رومن ہوں کہ منگول، انہیں ایک لاکھ سر اڑانے کے لیے کس قدر جسمانی و سفری طاقت صرف کرنا پڑتی تھی۔ آج اس سے سو گنا ہلاکتیں صرف ایک بٹن دبانے سے ممکن ہیں۔

وقت نے ضرور سفر کیا۔ مگر انسان نے کب کیا؟ وہ تو اپنی جبلت کی جزوی تسخیر تک نہ کر پایا۔ رہی بحث اقدار، قانون اور تہذیب کی۔ تو یہ سب جبلت کے تاریک گوشوں کو چھپانے کا مکھوٹا ہیں۔ موقع ملا نہیں اور اوقات دکھائی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments