جو چاہیں، سو کھائیں: مگر کیسے؟


عدنان صدیقی، ہمایوں سعید اور فیصل قریشی، پاکستان فلم اور ٹیلی ویژن کے ان میگا سٹارز کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ یہ کہ اپنی فٹنس پر دھیان دے کر نہ صرف انہوں نے اپنی فنکارانہ زندگی کو طوالت بخشی، بلکہ ناظرین کو بڑھی ہوئی توند والے ہیروز سے نجات بھی دلائی۔ اور سب سے بڑھ کر ہماری نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد کے لئے جسمانی فٹنس کے رول ماڈل بن گئے۔ اپنے ارد گرد نئی نسل کے چاق و چوبند نوجوانوں کو دیکھ کر بے اختیار ان فنکاروں کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

اور اس سے بھی زیادہ اس ایک جملے پر، جو انہی فنکاروں کے ایک نمائندہ سے راہ چلتے ملاقات ہونے پر سنا اور ذہن پر نقش ہو گیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ائر پورٹ پر اپنی فلائٹ کا انتظار کرتے دو نوجوانوں کو ”کھانے میں کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں“ پر گفتگو کرتے سنا تو میں چونک گیا۔ سوچا کہ یہ صحت کی باتوں اور متوازن غذا کی اہمیت سے بھرے وعظ نما، لیکن بے اثر لیکچر تو ہم ڈاکٹروں کی قسمت میں لکھے ہیں۔ یہ کون ہے جو ہماری پچ پر قدم رکھ رہا ہے؟ گردن گھما کر دیکھا تو دو نوجوان فنکار آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ یہ ان نوجوانوں کو کیا سوجھی، میں نے دل میں سوچا۔ کیا یہ بھی اس خاموش وبا کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو چالیس کے پیٹے میں اکثر خواتین و حضرات کو اپنے پنجوں میں دبوچ لیتی ہے اور جسے ذیابیطس کہتے ہیں؟

ذیابیطس اب ہمارے ہاں ایک عام مسئلہ ہے۔ کیا آپ نے ان حضرات پر غور کیا ہے جو تیس برس کی عمر کو پھلانگنے کے ساتھ ہی ایک عدد توند کے مالک ہو جاتے ہیں جو ان کی قمیص سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی اور قمیص کے کھنچے ہوئے بٹنوں کو انتہائی بے ڈھنگا دکھاتی ہے۔ یا اس بات پر غور کیا ہے کہ ہمارے ہاں خواتین چالیس برس کی عمر کے قریب پہنچتے ہی کیوں گھٹنوں میں درد کی وجہ سے دائیں بائیں لہرا کر چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ بے تکا کھانا اور وزن کا بے ہنگم انداز میں بڑھ جانا ایسے حضرات و خواتین میں صحت کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا میں بھی یہ نوٹ کیا گیا کہ موٹاپے اور ذیابیطس کا شکار لوگ وائرس کا نشانہ بننے پر زیادہ شدید بیماری میں مبتلا ہوئے۔

ایک زمانہ تھا جب ذیابیطس اور بلڈ پریشر امیر ملکوں کے مسائل سمجھے جاتے تھے۔ کوئی دو دہائیوں سے یہ بات پبلک ہیلتھ میں عام ہوئی کہ دراصل غریب ملکوں میں بھی یہ بیماریاں کافی شرح میں پائی جاتی ہیں۔ پھر یہ بات سامنے آئی کہ جنوبی ایشیا کے ممالک یعنی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے لوگوں میں اس بیماری کا موروثی رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ اپنی پرانی نسلوں سے وراثت میں یہ بیماری ملنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے وہ لوگ جو اپنی غذا میں سبزیاں، گوشت اور پھل زیادہ شامل نہیں کرتے اور بس روٹی، چال اور چینی والی اشیا پر گزارا کرتے ہیں، وہ دو مرحلوں سے گزرتے ہیں۔ پہلے نمبر پر ان کا وزن نارمل سے بڑھ جاتا ہے اور دوسرے نمبر پر خون میں گلوکوز کی مقدار زیادہ رہنا شروع ہو جاتی ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے ذیابیطس کہتے ہیں۔

غذائی بے احتیاطی کے ساتھ ساتھ جسمانی ورزش نہ کرنا بھی ان مسائل کو بڑھاتا ہے۔ پاکستان میں اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں سے ایک چوتھائی آبادی ذیابیطس یا بلڈ پریشر (اور اکثر اوقات دونوں ) میں مبتلا ہے۔ بعض لوگوں کو اس بارے میں احساس ہوتا اور وہ پوچھتے بھی ہیں لیکن کچھ اس طرح کہ ”ڈاکٹر صاحب، کوئی ایسی چیز بتائیں کہ جس کو کھا کر ہم پتلے ہو جائیں“ ماشا اللہ! یعنی ان کا ذہن کہتا ہے کہ وزن کم کرنے کے لئے بھی کچھ ”کھانا“ چاہیے۔

نئی نسل اس معاملہ میں قدرے بہتر ہے، اور اس بات کا کریڈٹ یقیناً ٹی وی پر آنے والے مردو خواتین ایکٹرز کو جاتا ہے یا پھر شاید کرکٹرز کو۔ کچھ ایسی ہی بات یہاں بھی ہو رہی تھی۔ میں نے دوبارہ کان لگا دیے۔ جو جملہ اس خوش گفتار اور صحت مند نوجوان فنکار سے سنا وہ معمول کی نصیحت کہ ہاتھ روک کر کھانا چاہیے یا اعتدال سے کھانا چاہیے، نہیں تھا۔ بات کا مطلب یہی تھا لیکن بات بڑی انوکھی تھی۔ اور یہ بات وہ اپنے جیسے ایک اور نوجوان کو کہہ رہا تھا جس کا مسئلہ یہ تھا کہ اسے برگر، چپس اور کوک بہت پسند تھے۔

پہلے والا کہنے لگا۔ تمہیں اگر یہ چیزیں بہت پسند ہیں تو ضرور کھانی چاہئیں۔ لیکن یہ بتاؤ کہ تم ایک ہی دن میں اپنی زندگی کے تمام برگر کھانا چاہو گے یا تمام زندگی اس برگر کو انجوائے کرنا چاہو گے؟ دوسرا جھلا کر بولا۔ کیا مطلب ہے بھئی! ایک ہی دن میں تمام زندگی کے برگر کوئی کیسے کھا سکتا ہے۔ پاگل سمجھ رکھا ہے کیا؟

جواب میں وہ بولا۔ ہر گز نہیں۔ میں حقیقت کی بات کر رہا ہوں۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی زندگی میں جس قدر برگر تم کھاوٴ گے وہ تعداد تو متعین ہے، نہ تو اسے تم بدل سکتے ہو اور نہ کوئی اور۔ سو اگر اپنی محبوب غذا بہت زیادہ اور بار بار کھاؤ گے، اور ایسے کہ جیسے یہی ایک کھانے کی شے ہے اور یہی ایک دن ہے جس میں تم نے اسے ختم کرنا ہے تو دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہو گی۔ یا تو اس مضر صحت غذا سے بیمار ہو جاؤ گے اور ڈاکٹر کے منع کرنے کی وجہ سے مزید نہیں کھا سکو گے۔ یا منع کرنے کے باوجود باز نہیں آؤ گے، بیماری پیچیدہ ہو جائے گی اور اسی تکلیف میں جلد ہی اس دنیا سے گزر جاؤ گے۔ دونوں طرح تم جسے اپنی خوشی یا لذت سمجھو گے، وہ دراصل تمہاری بیماری اور تکلیف ہو گی۔

ہاں ایک صورت ہے کہ جس میں تم اپنی مرضی کا کھانا ایک لمبی مدت کے لئے انجوائے بھی کرو اور بیماری اور تکلیف سے بھی نہ گزرو، اور وہ یہ ہے کہ ایسی چیز کبھی کبھار کھاؤ اور وہ بھی تھوڑی مقدار میں۔ کسی محبوب اور مرغوب شے کے انتظار میں اس کو پانے سے زیادہ نہیں تو اس سے کم مزا بھی نہیں ہوتا اور تھوڑی مقدار میں کھانے سے آئندہ کے لئے اس کی خواہش بھی موجود رہتی ہے۔ سو یہ وہ واحد طریقہ ہے کہ جس سے تم اپنی پسند کی اشیا تمام زندگی کھا سکتے ہو۔

فلائٹ کا اعلان ہو گیا۔ وہ نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے اور میں دوبارہ اپنی کتاب میں کھو گیا۔ لکھا تھا کہ لوگ اپنے گھر کو بنانے سنوارنے پر بہت توجہ کرتے ہیں۔ مرد اس کی تعمیر پر خرچہ کرتے اور عورتیں اس کی صفائی ستھرائی اور آرائش میں بے انتہا محنت کرتی ہیں۔ اور ایسے میں دونوں یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنی تمام زندگی دراصل جس مکان میں وہ گزارتے ہیں، وہ ان کا جسم ہوتا ہے۔ جتنا وقت، توجہ اور رقم وہ اپنے اس مکان کی مضبوطی پر خرچ کریں گے، اتنا ہی اس میں ٹوٹ پھوٹ کا امکان کم، اور پائیداری زیادہ ہو گی۔

دلیل یہ بھی مضبوط تھی لیکن وہ جملہ یقیناً اس پوری کتاب سے زیادہ وزن دار تھا کہ اپنی زندگی کے دوران اپنا پسندیدہ کھانا ہم کتنا کھائیں گے، یہ تو ہم تبدیل نہیں کر سکتے، لیکن ایک وقت میں اس کی مقدار کو کم رکھ کے ہم اپنی زندگی کو طویل اور بہتر ضرور بنا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

ڈاکٹر زعیم الحق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر زعیم الحق

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

dr-zaeem-ul-haq has 15 posts and counting.See all posts by dr-zaeem-ul-haq

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments