سب سے طاقتور سائبر ہتھیار کی کہانی ( قسط دوم )


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

اسرائیل نے روایتی ہتھیار سازی کی صنعت اور پیگاسس جیسے مہلک سائبر سافٹ ویئرز سسٹم کو کس طرح خارجہ پالیسی کے مقاصد کے جارحانہ حصول کا ذریعہ بنایا۔اس سلسلے میں اس نے بنیادی اسباق اپنے گرو امریکا سے ہی سیکھے۔

دو ہزار دس میں منکشف ہونے والی وکی لیکس کے ہزاروں پیغامات پڑھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ہر امریکی سفارت خانے میں متعین فوجی اتاشیوں کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے غیر رسمی ایجنٹ بن کر میزبان ملک کو بقول ڈونلڈ ٹرمپ ’’ شاندار ہتھیار اور دفاعی آلات ’’خریدنے پر آمادہ کرتے رہیں۔

چنانچہ جب امریکی وزرائے دفاع و خارجہ یا کلیدی حکام تیسری دنیا کے ممالک کا دورہ کرتے ہیں تو اکثر پیشگی سفارتی دباؤ کی شکار میزبان حکومت امریکی ہتھیاروں اور آلات کی فرمائش بھی سامنے رکھ دیتی ہے اور مہمان امریکی اہل کار میزبان کی خوشدلی کے لیے یہ فرمائش لاک ہیڈ مارٹن ، ریتھیون ، میکڈونلڈ ڈگلس یا بوئنگ جیسے اداروں تک پہنچانے کا وعدہ کر لیتے ہیں۔

بظاہر یہ سب نجی ہتھیار ساز کمپنیاں ہیں مگر ان کا اثر ور سوخ اور روزی روٹی بنا کچھ کہے امریکی خارجہ و عسکری پالیسی سازوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کا یوں بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ان کمپنیوں کو اپنے بورڈ روم میں انھی ریٹائرڈ فیصلہ سازوں کو آگے رکھ کے دھندہ چلانا ہے۔

اگر ایٹم بم کے دور کے بعد کوئی ہتھیار بین الاقوامی تعلقات کی اونچ نیچ پر اثرانداز ہو رہا ہے تو وہ سائبر ہتھیار و آلات ہیں۔بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سائبر ٹیکنالوجی جوہری ہتھیاروں سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایک تو یہ مقابلتاً سستی ہے ، اسے آسانی سے آگے پیچھے منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعے ہونے والے سائبر حملوں کا جواب توپوں، ٹینکوں، طیاروں سے دینا کوئی ملک پسند نہیں کرتا۔اس کا پھیلاؤ بھی ایٹمی ہتھیاروں کی نسبت زیادہ محفوظ اور رازدارانہ طریقوں سے ممکن ہے۔

اسرائیل جیسے ممالک کو اپنا وجود مستحکم رکھنے کے لیے ہتھیاروں کی صنعت و تجارت سے جنم لینے والے اثر و رسوخ کی اشد ضرورت ہے۔یہ صنعت نہ صرف ایک بڑا روزگاری وسیلہ ہے بلکہ اس سے جو منافع حاصل ہوتا ہے وہ مزید تحقیق ، جدت کاری اور دوسروں سے ایک قدم آگے رہنے میں کام آتا ہے۔

اس تناظر میں ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکا میں غیر سگالی پیدا کرنے اور غیر رسمی اسرائیل دوست اتحاد کے تانے بانے بننے کی ذمے داری خفیہ ایجنسی موساد کے پاس ہے۔سن پچاس کی دہائی میں جب اسرائیل نسبتاً ایک کمزور ریاست تھی اور اس کی کسی بھی ہمسائے سے نہیں بنتی تھی۔تب پہلے وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے ’’ نظریہ مضافات ’’ پیش کیا۔یعنی دشمن عرب ریاستوں کے دائرے کے پیچھے دوست ریاستوں کا دائرہ بنانے کی حکمتِ عملی۔ان ممالک کو رام کرنے کے لیے غیر عسکری شعبوں کی ترقی کے لیے ٹیکنالوجی کی فراہمی اور اسلحہ فروخت کرنے کی اسٹرٹیجی اپنائی گئی۔

انیس سو اسی تک اسلحہ سازی کی صنعت اتنی پھیل گئی کہ ہر دس میں سے ایک اسرائیلی ملازمت براہ راست یا بلاواسطہ اس شعبے سے منسلک ہو گئی۔ جن ریاستوں کو یہ اسلحہ فراہم کیا گیا ان کے دلوں میں رفتہ رفتہ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ایوانوں میں اسرائیل کے لیے اعلانیہ و پوشیدہ نرم گوشہ بڑھتا چلا گیا۔ان ممالک نے خصوصی مشنز اور آپریشنز کے لیے اسرائیلی فوج اور موساد کو سہولتیں بھی فراہم کرنا شروع کیں۔

نئی صدی میں روایتی اسلحے کی صنعت کے ساتھ ساتھ سائبر اسلحے کی صنعت کی بھی حوصلہ افزائی شروع ہوئی۔نجی شعبے میں نت نئے آئیڈیاز اور اسٹارٹ اپس کے لیے رقومات فراہم کی گئیں۔اسلحہ ساز کمپنیوں کی طرح سائبر ہتھیار بنانے والی کمپنیاں بھی بنا سرکاری لائسنس تجارت نہیں کر سکتی تھیں۔چنانچہ ریاست کو اپنی خارجہ پالیسی کے لیے ایک نیا موثر ہتھیار مل گیا۔ ان نئی سائبر کمپنیوں میں سب سے نمایاں این ایس او ہے۔

سن دو ہزار چار پانچ میں این ایس او کی ابتدا تل ابیب کے مضافات میں قائم ایک زرعی کوآپریٹو سوسائٹی بنائی زیون کے ایک پولٹری فارم میں ہوئی۔اس کے مالک نے مرغبانی میں خسارے کے بعد یہ عمارت ان نئے اسٹارٹ اپس کو کرائے پر دینا شروع کی جن کے پاس بیٹھنے کو مناسب جگہ نہیں تھی۔

انھی میں ایک نوجوان کمپیوٹر پروگرامر شالیو ہولیو بھی تھا۔شالیو اور اس کے ساتھی اومری لیوی نے ایک وڈیو مارکیٹنگ پروڈکٹ بنائی۔ابتدا میں یہ مقبول بھی ہوئی مگر جلد ہی دو ہزار آٹھ کی عالمی اقتصادی کساد بازاری کے نتیجے میں بیٹھ گئی۔اس کے بعد دونوں نے کمیونی ٹیک کے نام سے ایک اور کمپنی بنائی اور ایک پروڈکٹ تیار کی جس کے ذریعے کسی شخص کی اجازت کے ساتھ اس کے زیرِ استعمال ڈیجیٹل آلات کا کنٹرول سنبھال کر اس کی خرابی دور کی جا سکتی تھی۔

بعد میں شالیو ہولیو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہماری یہ پروڈکٹ بہت زیادہ مقبول نہیں ہوئی مگر پھر ایک یورپی انٹیلی جینس ایجنسی نے ہم سے کسی بچولیے کے ذریعے رابطہ کیا۔تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنی پروڈکٹ کے ذریعے نہ صرف عام شہریوں کو ڈیجیٹل خدمات فراہم کر سکتے ہیں بلکہ اسے ذرا بہتر بنا کر ایک اور بڑے مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔

اور مسئلہ یہ تھا کہ برس ہا برس سے انٹیلی جینس ایجنسیاں مطلوبہ افراد کی وائر ٹیپنگ کرتی آ رہی تھیں مگر جب سے وہ آلات مقبولِ عام ہونے شروع ہوئے جن میں انکرپشن کے ذریعے آواز اور حرف کو کسی تیسرے شخص کی دست برد سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔تب سے انٹیلی جینس ایجنسیوں کے مسائل اور پریشانیاں بڑھ گئیں،اگر کسی طرح انکرپشن کا محفوظ توڑ نکل آئے تو مزہ آجائے۔

شالیو اور لیوی کو اب اپنے لیے ایک ایسے شراکت دار کی ضرورت پڑی جس کے رابطے قدرے بہتر ہوں اور جو تھوڑے بہت سرمائے کا انتظام بھی کر سکے۔چنانچہ کہانی میں ایک تیسرا کردار نیو کارمی داخل ہوتا ہے۔جو ملٹری انٹیلی جینس ( امان ) اور موساد میں کام کر چکا تھا۔چنانچہ نیو ، شالیو اور اومری نے اپنے نام کے پہلے ایک ایک حرف کو جوڑ کر این ایس او کمپنی کی بنیاد رکھی۔اور پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔

جیسے جیسے سرمایہ آتا گیا کاروباری منصوبے کی ضروریات کے مطابق ریکروٹمنٹ شروع ہوتی گئی۔ اس وقت این ایس او کے سات سو کے لگ بھگ ملازمین ہیں۔اس کا ہیڈ کوارٹر تل ابیب کے خوشحال مضافاتی علاقے ہرزلیہ میں ہے۔یہاں این ایس او کی سائبر لیبارٹریوں میں ماہر نوجوان ایپل اور انڈورائڈ کی مصنوعات بالخصوص اسمارٹ فونز میں نت نئی کمزوریاں دریافت کرنے اور ان کمپنیوں کی جانب سے مسلسل سافٹ ویئر اپ گریڈیشن کے مسلسل توڑ پر مامور ہیں۔

این ایس او کی اتنی بڑی ریسرچ ٹیم کا لگ بھگ ہر رکن اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس ڈاریکٹوریٹ ( امان ) میں وقت گذار چکا ہے۔ان میں سے زیادہ تر کا تعلق امان کے ایلیٹ انٹیلی جینس یونٹ بیاسی سو سے ہے۔ جہاں انتہائی ایڈوانس سائبر پروگرامنگ کے کورسز میں کامیاب ہونے والوں کو ہی این ایس او بھیجا جاتا ہے۔ این ایس او کے ہیڈکوارٹر میں کام کبھی بند نہیں ہوتا۔ایک شفٹ کے بعد دوسری شفٹ بدلتی رہتی ہے۔

چنانچہ جب کوئی سیل کمپنی اپنی پروڈکٹ کے تحفظ کے لیے ایک دروازہ بند کرتی ہے۔این ایس او کے ماہرین کم سے کم وقت میں اس کا کوئی نہ کوئی توڑ تلاش کر لیتے ہیں۔یوں وہ پیگاسس ڈیوائس وجود میں آیا جس کی مارکیٹنگ دو ہزار گیارہ سے ہو رہی ہے اور اس کے ہوتے اب کوئی راز راز نہ رہا۔اس ٹیکنالوجی کی جانب کون کون سا ملک لپکا اور یہ کس کس کو فراہم کی گئی۔یہ قصہ اگلی قسط میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments