خصوصی افراد کو درپیش مسائل


میں گزشتہ تین سالوں سے محکمہ سوشل ویلفیئر کے ”ڈس ایبٹی ونگ“ سے بطور سوشل نیڈز افسر وابستہ ہوں۔ دیگر دفتری امور کے ساتھ ساتھ لوگوں کو معذوری کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنا بھی ہمارے فرائض منصبی میں شامل ہے اس ضمن میں لوگوں سے بات چیت کرنے اور معذور افراد کے حوالے سے ان کے خیالات جاننے کا وسیع موقع میسر آتا ہے۔ اپنی تین سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف لوگوں سے خصوصی افراد کو درپیش مسائل پر گفتگو کے بعد جو صورت حال میرے سامنے آئی ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔

میں حیران ہوں کہ آج کے دور میں بھی لوگ خصوصی افراد کے حوالے سے مختلف قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ مانا کہ آج کا دور ”سوشل میڈیا“ کا دور ہے مگر المیہ یہ ہے کہ تقریباً ہر شخص کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے جس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی کوئی تخصیص نہیں۔ ان پڑھ طبقہ خصوصی افراد کی کاوشوں کو جو کبھی کبھار سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں یوں حیرت سے دیکھتا ہے گویا وہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہو۔ دکھ اس بات کا ہے کہ بعض تعلیم یافتہ افراد بھی ایک مخصوص طرز فکر سے آگے بڑھنے کی جسارت نہیں کرتے۔

لوگوں سے گفتگو کے دوران اب تک جو مسائل میرے سامنے آئے ہیں ہیں ان میں سے صرف چار مسائل کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جو بالفعل مسائل بھی ہیں اور معاشرے کی عمومی نفسیات کا عکس بھی۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں خصوصی افراد بھی عام لوگوں کے شانہ بشانہ تعلیم کی منازل طے کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ بہت سے اعلی سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ انہوں نے عدلیہ اور سول سروس جیسے مشکل میدانوں میں بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ مگر آج بھی لوگوں کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو اول تو یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کوئی معذور خصوصاً نابینا شخص بھی اعلی تعلیم یافتہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر بالفرض مان بھی لے تو یہ بات ہر گز تسلیم نہیں کرتا کہ کوئی معذور شخص کسی اعلی عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔ میں ایک شخص سے ذاتی طور پر ملا ہوں جو ایک پیشہ ورانہ ڈگری کا حامل تھا اور میرے متعلق اس کا خیال تھا کہ یہ شخص درجہ چہارم کا ملازم ہے۔ درجہ چہارم کا ملازم ہونا کوئی عیب نہیں مگر سوچ کا یہ پہلو افسوس ناک ضرور ہے۔

دوسرا مسئلہ ان ناموں کا ہے جو کسی جسمانی نقص کے سبب زبان زد عام ہو جاتے ہیں مثلاً لولا لنگڑا ڈورا (بہرا) یا حافظ جی جو کہ کسی نابینا شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ تمام نام نہ صرف ایک فرد کی پوری شخصیت کو ڈھانپ لیتے ہیں بلکہ ان سے حقارت کا پہلو بھی نکلتا ہے جو کہ خاصی تکلیف دہ بات ہے۔ خصوصاً نابینا افراد کے متعلق بولا جانے والا لفظ حافظ جی یا حافج جی تو اس دور کی یاد دلاتا ہے جب نابینا افراد کو الگ مخلوق سمجھتے ہوئے مساجد میں پھینک دیا جاتا تھا۔ مہینوں کی مسافت برسوں میں طے کرنے کے بعد جب وہ حفظ قرآن کی سعادت حاصل کر لیتے تو انہیں حافظ جی کے نام سے پکارا جاتا۔ آہستہ آہستہ یہ لفظ نابینا افراد کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ ہر وہ شخص جو بینائی سے محروم تھا بلا تفریق حافظ جی کہلایا جانے لگا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

تیسرا اہم مسئلہ معذوری سرٹیفکیٹ کی اہمیت کا ہے۔ معذوری سرٹیفکیٹ ایک ایسی سرکاری دستاویز ہے جو کسی شخص کے معذور ہونے کی قانونی حیثیت کا تعین کرتی ہے۔ یوں تو اس کے کئی فوائد ہیں۔ مثلاً مالی امداد، تعلیمی اداروں کی فیسوں میں رعایت، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں مخصوص کوٹہ پر ملازمتوں کا حصول اور دیگر سرکاری مراعات وغیرہ۔ مگر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ خصوصی افراد کی پہچان ہے۔ پاکستان کے ترقی پذیر معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس سرٹیفکیٹ کو خصوصی افراد کی پہچان سمجھنے کی بجائے چیک بک سمجھ لیا جاتا ہے۔

بیشتر لوگوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ سرٹیفکیٹ کے ملتے ہی مالی امداد ملنا شروع ہو جائے اور یہ سلسلہ تا دم مرگ چلتا رہے۔ مانا کہ ایسے لوگوں کی کفالت ریاست کی ذمہ داری پے مگر کوئی بھی درخواست مختلف مراحل سے گزر کر ہی منظور ہوتی ہے مگر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ سرٹیفکیٹ کے حصول اور مالی امداد کے اجرا میں ایک لمحہ بھی حائل نہ ہو۔ خصوصی افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے مختلف ادارے ہونے کے باوجود لوگوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس سوچ کے زیر اثر کہ انہوں نے پڑھ کر کیا کرنا ہے بچوں کو سکول نہیں بھجواتا اور مالی امداد کی موہوم امید پر اکٹھا کر لیتا ہے۔

چوتھا مسئلہ گمبھیر بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔ جب کسی خاندان میں معذور بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو باقاعدہ سوگ منایا جاتا ہے اور شاید اسی سوگ کی کیفیت میں بچے کی پیدائش کا اندراج کروانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر جگہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ باشعور والدین ایسے بچے کی پیدائش کے اندراج کو بھی دیگر بچوں کے اندراج کی طرح اہم سمجھتے ہیں۔ مگر صد افسوس کہ بعض والدین ایسا نہیں کرتے۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں میں بارہا ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو چار پانچ بچوں کے والدین ہوتے ہیں مگر اپنے معذور بچے کا ب فارم تک نہیں بنواتے۔

ان سے تبادلہ خیالات کے دوران یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ اس چیز کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کی یہ غفلت بعد میں کئی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ سرٹیفکیٹ کے حصول کے وقت سامنے آتا ہے۔ سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے بنیادی دستاویزات میں ب فارم یا قومی شناختی کارڈ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی عدم موجودگی کے باعث سائل نادرا اور متعلقہ محکمے کے درمیان گھن چکر بن کر رہ جاتا ہے۔

اب ایک اہم سوال کہ ان تمام مسائل کا حل کیا ہے۔ میرے نزدیک سوچ کی تبدیلی کے بغیر ان مسائل کا حل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ سوچ کی تبدیلی کے لیے حکومت اور عوام کو مل کر قدم اٹھانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ ابتدائی جماعتوں سے ہی خصوصی افراد اود انہیں درپیش مسائل کو شامل نصاب کرے تاکہ اس طبقے کے متعلق بچپن ہی سے شعور بیدار ہونا شروع ہو جائے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شعور پختہ ہو جائے۔

زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے کھولے جائیں فنی تربیت کا بھی موزوں انتظام ہو۔ تربیت یافتہ مگر ممکنہ حد تک مقامی اساتذہ کو بھرتی کیا جائے تاکہ وہ سفر کی صعوبتوں سے پریشان ہوئے بغیر اپنے فرائض منصبی بخوبی سرانجام دے سکیں۔

مالی امداد کے نظام کو شفاف اور تیز ترین بنایا جائے تاکہ سرکاری محکموں پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے۔

روزگار کی فراہمی کا موثر نظام وضع کیا جائے اور ممکنہ حد تک تعلیمی قابلیت کے مطابق روزگار فراہم کیا جائے۔

حقوق و فرائض کے توازن کا تقاضا ہے کہ معاشرہ بھی خصوصی افراد کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے۔ عوامی تنظیمیں خصوصی افراد کے حوالے سے مختلف سیمینارز منعقد کروائیں۔ نجی اخبارات اور میڈیا چینلز عوام کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے اپنے ذرائع استعمال کریں۔

کارخانوں کے مالکان خصوصی افراد کو روزگار فراہم کریں اس سے نہ صرف بے روزگاری کا مسئلہ بہت حد تک حل ہو جائے گا بلکہ عام افراد اور خصوصی افراد کے درمیان حائل دیوار بھی گر جائے گی۔

عام شہریوں کا فرض ہے کہ وہ خصوصی افراد کو اپنے ہی وجود کا ایک حصہ سمجھیں۔ اس طبقے کے متعلق دوسروں کو بھی آگاہی فراہم کریں۔ ان سے ترس اور ہمدردی کی بجائے اپنائیت بھرا رویہ اپنائیں۔ اور کچھ نہ بھی بن پڑے تو حقارت آمیز سلوک سے گریز کریں۔

یاد رکھیں کہ خصوصی افراد ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ ہیں۔ اور اتنے بڑے طبقے کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ معاشرے میں عدم استحکام اور توازن کے بگاڑ کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments