قرآن کی اجمالی تصویر [چوتھی قسط]


 

اسلام میں جتنے بھی قوانین و احکام ہیں وہ سب کے سب انسانوں کی بھلائی کے لیے ہیں، اخروی بھلائی کے لیے بھی ہیں اور دنیوی بھلائی کے لیے بھی۔ یہ بھلائی کبھی ایک انسان کے لیے ہوتی ہے، کبھی معاشرے کے لیے اور کبھی ساری انسانیت کے لیے۔ اسلام میں خود کشی اسی لیے حرام ہے اور شراب اسی لیے جائز نہیں کہ ان سے خود انسانوں کا ہی نقصان ہے، جانی بھی اور مالی بھی، معاشرتی فساد بھی اس سے پیدا ہوتا ہے اور شرابی انسان کا ذاتی نقصان بھی ہوتا ہے۔ سود کی ممانعت بھی اسی لیے ہے کہ وہ بھی عام لوگوں کے لیے مرگ مفاجات ہے۔

پھر جن غلط اعمال اور اقدامات کا نقصان انسان کی اپنی ذات تک محدود رہتا ہے، ان کی سزائیں نسبتاً ہلکی ہیں جیسے شراب پینا اور جوا کھیلنا وغیرہ اور جو اقدامات اور اعمال دوسروں کو جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہوں ان کی سزائیں نسبتاً سخت ہیں جیسے چوری کرنا، قتل کرنا اور زنا کاری کرنا وغیرہ۔ ان کے بعد جن کوتاہیوں کا تعلق حقوق اللہ یعنی غیر مالی عبادات وغیرہ سے ہے، قرآن میں تو ان کی سزائیں بیان بھی نہیں ہوئی ہیں، بلکہ ان کا حساب کتاب آخرت میں ہو گا۔ البتہ قرآن و احادیث میں ان کے حوالے سے تنبیہات ملتی ہیں۔

طرفہ یہ ہے کہ اکثر مسلمان بھی اسلامی قوانین کو سخت اور اسلام کے اخلاق و آداب کو اپنے لیے پابندیاں شمار کرنے لگتے ہیں، مگر فی الواقع ایسا نہیں ہے، اسلام کے تمام احکام و قوانین اور اخلاق و آداب خاص طور پر مسلمانوں کے لیے اور عمومی طور پر تمام انسانوں کے لیے سرتاپا رحمت ہیں۔ اسی لیے اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں سب سے زیادہ اپنی جس صفت کو بیان فرمایا ہے وہ یہی صفت رحمت ہے۔ قرآن کھولتے ہی سب سے پہلی آیات جو ہم پڑھتے ہیں وہ اسی صفت رحمت کا خصوصی اور عمومی بیان ہے :

الحمد للہ رب العالمین ‎، ‏ الرحمٰن الرحیم
”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہی سزاوار ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور جو بہت زیادہ رحیم و کریم ہے۔“

وہ ایک صفت جو ہر ایک مسلمان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اپنی زبان سے ادا کرتا ہے، نماز میں بھی اور نماز کے باہر بھی، وہ یہی صفت رحمت ہے۔ اسی طرح ہر مسلمان کو ہر اچھا عمل کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم ہے۔ جو صفت رحمت کا لازوال بیانیہ ہے۔

اسلامی اخلاق و قوانین کو دو بڑے خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق العباد میں تو انسانوں کی خیرخواہی کا جذبہ بہت واضح ہے کیونکہ ان میں یہی ہے کہ ایک انسان کے دوسرے انسان پر کیا کیا حقوق ہیں اور ان کی ادائیگی کے کیا کیا طریقے ہیں۔ البتہ جن کا تعلق ”حقوق اللہ“ سے ہے اور وہ زیادہ تر عبادات ہیں تو ان کی افادیت اور منفعت بھی انسانوں کی طرف ہی لوٹتی ہے۔ نماز اور روزہ خالص اللہ کے لیے کیے جانے والے اعمال ہیں اور ان کا تعلق براہ راست ’حقوق اللہ‘ سے ہی ہے۔ ان میں بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ان سے ایک مسلمان کی ذاتی منفعت وابستہ نہیں ہوگی مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات کی منفعت بھی عبادت گزار کی طرف ہی لوٹتی ہے، عبادات کا صلہ آخرت میں جو ملے گا سو ملے گا، دنیا میں بھی ہر عبادت گزار کو اس کا ذاتی اور معاشرتی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

نماز تو اللہ کے لیے پڑھی جاتی ہے امام کے لیے نہیں پڑھی جاتی پھر بھی اللہ نے نماز کے قیام کو امام کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ تو یہ مسلمان امت کو ان کے معاشروں میں اجتماعیت اور قیادت کو فروغ دینے اور انہیں ہمیشہ جاری و ساری رکھنے کے لیے ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے ان احکام میں بھی جو خالصتاً ”حقوق اللہ“ میں آتے ہیں اور جن کا انسانی مفادات سے بظاہر کوئی بڑا رشتہ محسوس نہیں ہوتا جس طرح سے زکوٰۃ میں محسوس ہوتا ہے، کہ زکوٰۃ اگرچہ عبادت ہے مگر اس سے انسانی ہمدردی کا رشتہ بڑے پیمانے پر استوار ہے، اسی طرح نماز جیسی خالص اللہ کے لیے کی جانے والی عبادت میں بھی معاشرتی تنظیم اور تدبیر کے حوالے سے انسانی مفاد جڑا ہوا ہے۔ نماز کی افادیت نمازی کی ذہنی و جسمانی صحت سے بھی اسی طرح وابستہ ہے جس طرح اس کی ایمانی و روحانی صحت سے وابستہ ہے۔

سورۃ المؤمنون کی پہلی آیت میں کہا گیا ہے کہ اہل ایمان کامیاب ہو گئے اور اس کے بعد والی دس گیارہ آیات میں چند اعمال کا تذکرہ ہے جن کی بنیاد پر اہل ایمان کو کامیابی ملے گی۔ وہ اعمال اس طرح ہیں، نمازوں کی حفاظت کرنا، ان میں خشوع پیدا کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، لغو کاموں سے پرہیز کرنا، زناکاری سے بچنا اور امانتوں اور عہد و پیمان کی حفاظت کرنا۔ جو اہل ایمان ان اوامر و نواہی کی پابندی کریں گے وہ جنتوں کے وارث ہوں گے۔

قرآن کا یہ صاف اعلان ہے۔ ان آیات کے معانی کے مستفاد میں دنیا کی زندگی کی کامیابیاں بھی اسی طرح شامل ہیں جس طرح آخرت کی زندگی کی کامیابیاں شامل ہیں۔ کیونکہ ان اعمال کو ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے نتیجے میں مسلمان ذاتی اور اجتماعی سطح پر اپنے بہت سارے کاموں کی تدبیر اور تنظیم کر پاتے ہیں۔ نماز پڑھنے سے اس کی اپنی زندگی سنورتی ہے، برائیوں اور گندگیوں سے نمازی دور رہ پاتا ہے، ادھر ادھر کے کاموں میں وقت کو برباد کرنے سے بچ جاتا ہے۔

اجتماعیت سے جڑ جاتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کر کے معاشرے سے غربت اور جہالت کو دور کرنے میں مدد گار بنتا ہے۔ اور بے حیائی کی باتوں اور کاموں سے پرہیز کرنے سے مسلمان خود کو اور پھر اپنے معاشرے کو روحانی ترقیوں کی طرف گامزن کرتا ہے۔ اسی طرح امانتوں اور عہد و پیمان کا خیال رکھنے سے مسلم معاشروں میں اخلاقی و روحانی ترقی ہوتی ہے، اسی سے معاشی اور اقتصادی ترقیاں بھی وابستہ ہیں۔ جب لوگوں کے آپس کے معاملات درست ہوں گے، اخلاق اچھے ہوں گے اور کاروبار میں ایمانداری اور نیک نیتی و ہمدردیاں شامل ہوں گی تو مسلم معاشرے میں ہر طرح کی خوشحالی آئے گی۔

اس ساری بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ انسان کی تخلیق اور اسے دنیا میں بھیجا جانا فی الواقع اللہ کی محبت کی بنیاد پر ہے اور پھر انسان کی دنیاوی زندگی کے لیے اخلاق و قوانین پر مبنی شریعتوں کا اتارا جانا اور انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ والتسلیم کا مبعوث کیا جانا انسانوں کے لیے سرا سر اللہ کی رحمت کی وجہ سے ہے اور ان سے اللہ کی محبتوں کی وجہ سے ہے۔ اگر ہم غور و فکر کریں تو ہر چیز میں اللہ کی محبتوں کی کار فرمائی اور جلوہ نمائی کو دیکھ سکتے ہیں۔

آدمی جب طول غم حیات سے گھبرا جاتا ہے تو پکار اٹھتا ہے : ’آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے‘ ۔ مگر اللہ فرماتا ہے : واذا سالک عبادی عنی فانی قریبٌ ۖ اجیب دعوة الداع اذا دعان‎﴿البقرہ: 186 ﴾‏

’اے پیغمبر! اگر میرے بندے میرے بارے میں تم سے دریافت کریں تو ان سے کہہ دو کہ میں ان کے پاس ہی ہوں، جب جب بھی وہ مجھے پکارتے ہیں، میں ان کی پکار سنتا ہوں (اور ان کی حاجت روائی کرتا ہوں۔ )

لیکن چونکہ بندے اللہ کے سننے کے عمل اور حاجت روائی کے طور و طریق کا مکمل ادراک نہیں رکھتے، اس لیے کبھی کبھی انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ بھی نہیں سنتا۔ اگر انسان اللہ کے کسی کام کو انجام دینے کے عمل یعنی پروسیس اور طور و طریق کو جان لے تو شاید اسے اللہ سے ایسا کوئی شکوہ نہ رہے۔

واضح رہے اردو اور فارسی کے مشہور و معروف شاعر اسد اللہ خاں غالبؔ کا مذکرہ مصرع اپنی نہاد میں بے یقینی کی کیفیات نہیں رکھتا۔ اسی غزل میں ایک دو مصرعے اسی نوعیت کے اور بھی ہیں، جیسے ”لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں“ ۔ ان میں طول غم حیات کا بیان ہے نہ کہ ایمان و عقیدے کی بے یقینی اور بے اعتمادی کا بیان۔

دستور اور قوانین کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قوانین کمزوروں کا حق دلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں، کیونکہ جو طاقتور ہے وہ تو اپنا حق خود چھین کر حاصل کر لے گا، مگر جو کمزور ہے وہ اپنا حق خود سے حاصل نہیں کر سکتا، لہذا وہ دوسروں سے گہار لگاتا ہے اور مدد مانگتا ہے کہ اسے اس کا حق دلایا جائے۔ کمزوروں کو ان کا حق دلانے کا کام اگلے وقتوں میں بادشاہ وقت کیا کرتے تھے، محلے کے با اثر لوگ کیا کرتے تھے اور پنچائتیں کیا کرتیں تھیں۔ مگر اب یہ کام عدالتیں کرتی ہیں اور عدالتوں کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے اگر طاقت کی ضرورت پڑے تو عدالتوں کو ان کے فیصلوں کے نفاذ کے لیے پولیس اور فوج کی قوت مہیا کرائی جاتی ہے۔

قرآن چونکہ اسلامی قانون کا مجموعہ ہے، اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ قرآن کمزوروں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لیے بھی نازل ہوا ہے۔ قرآن میں جن انبیاء کرام کا تذکرہ ہے، ان سب کا حال یہی رہا ہے کہ وہ اپنے وقت کی بڑی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر رہے ہیں اور کمزوروں اور ضعیفوں کی آواز بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی اور اللہ سے تعلق پیدا کرنے کے طور طریقے سکھلائے، عبادات اور دعا و مناجات کے الفاظ سکھائے بلکہ اس سے بہت آگے بڑھ کر انہوں نے یہ بھی کیا کہ وہ ظالموں کے مقابلے میں کمزوروں کی آواز بن گئے۔

اگرچہ پورا قرآن فضیلت والا ہے اور پورے قرآن کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر ثواب مرتب ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ قرآن کے ہر ایک حرف پر دس دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ پورے قرآن کی فضیلت یکساں نہیں ہے۔ احادیث شریف میں قرآن کی بعض سورتوں اور آیتوں کی فضیلتیں بعض دیگر آیتوں اور سورتوں کی فضیلتوں سے بڑھ کر بیان کی گئی ہیں۔

پورا قرآن انذار و تبشیر سے بھرا ہوا ہے، قرآن میں جتنے بھی واقعات آئے ہیں، جتنے بھی اشخاص کا ذکر ہے، جتنی بھی مثالیں آئی ہیں اور فقرے بیاں ہوئے ہیں وہ سب کے سب اسی انذار و تبشیر کے مقصد کے پیش نظر آئے ہیں۔ مگر ان میں جو سورتیں اور آیتیں اللہ کی ذات و صفات کے بیان میں آئی ہیں، ان کی اہمیت دیگر تمام طرح کی آیتوں اور سورتوں سے زیادہ ہے۔ آیت الکرسی کو قرآن کی سب سے عظیم آیت بتایا گیا ہے۔ سورہ اخلاص کو قرآن کا ایک تہائی بتایا گیا ہے۔ قرآن میں عظیم ترین سورت سورۂ فاتحہ ہے اور عظیم تر ین آیت آیت الکرسی۔

رسول اللہﷺ نے قرآن کو ہدایت اور نور کے علاوہ قصہ بھی کہا ہے۔ قرآن کی ان تینوں تعریفات میں شاید تھوڑا بہت یہ فرق ہو کہ ہدایت اور نور کا تعلق قرآن کے عمومی فکر اور اس میں پیش کی گئی تعلیم سے ہے اور قصے کا تعلق قرآن کے بیانیے، سحرانگیز اسلوب اور کسی تحریر کے ان عناصر سے ہے جو ایک قصہ کے لئے فنی اعتبار سے مطلوب ہوتے ہیں۔ اور تحریر میں دلچسپی کی حصہ داری اور عمل داری کو بڑھاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ قرآن کو قصہ کہنا قرآن کی جزوی تعریف ہو کیونکہ سارا قرآن تو بہر حال قصوں پر مشتمل نہیں ہے۔

یا پھر محض اس مناسبت کی وجہ سے قرآن کو قصہ کہا گیا ہو گا کہ اس میں کئی دلچسپ مگر حقیقی قصے بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ زبان نبوت ﷺ نے قرآن کو خیر الحدیث، اصدق الحدیث اور احسن الحدیث بھی کہا ہے۔ بعض روایات میں حدیث کے بجائے ’کلام‘ بھی ملتا ہے۔ اس کی معنوی بنیاد دو پہلؤوں پر قائم ہے ایک یہ کہ اس سے قرآن کی صداقت کا اظہار مقصود ہے کہ اس میں جو کچھ بھی ہے وہ صرف اور صرف سچ ہے اب چاہے وہ ہماری اس دنیا سے متعلق ہو یا اس دنیا سے جو ہمارے لئے ہنوز پردۂ غیب میں ہے۔ اور دوسری یہ کہ ان تعریفات سے قرآنی بیانیے کی لطافت بیانی، اثر آفرینی اور سحر انگیزی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔

دراصل قصہ آگہی کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور قصے کا یہی وہ پہلو ہے جو اسے کتاب ہدایت کے لیے قابل قبول بناتا ہے۔ قصے کا تفریحی پہلو اس کا ایک اضافی پہلو تو ہو سکتا ہے مگر اساسی ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اگر یہ اساسی ہوتا تو خود قصہ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر قصے کا اسلوب اور اس کا استدلالی رویہ ہر گز ہرگز کتاب ہدایت کے شایان شان نہ ہوتا۔ کیونکہ کتاب ہدایت کا تفریح سے کوئی تعلق نہیں ہے باوجود اس کے کہ کتاب اللہ کے متن، میسیج، بیانیے اور اسلوب میں کئی ایسی فنکارانہ چیزوں کا اہتمام کیا گیا ہے جو انسان کے طبعی میلان کو قرآن کی طرف کھینچتی ہیں، اس کے تئیں انسان کی گرویدگی کو بڑھاتی ہیں، اس کے ذوق و شوق کو مہمیز کرتی ہیں اور اس پر نئی نئی چیزوں اور افکار و خیالات کا انکشاف ہوتا ہے، جن کے باعث ایسا ہوتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والا مستی و سرور میں ڈوب جاتا ہے اور اس میں غور و فکر کرنے والا حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ قرآن اپنے قاری کو ہمیشہ کے لیے اپنا اسیر بنا لیتا ہے۔ اور قرآن کا یہی وہ پہلو ہے جو اسے قصے سے قریب تر کرتا ہے اور شاید اس لیے بھی حضورﷺ نے قرآن کو قصہ کہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments