سرائیکی اجرک۔ سرائیکی وسیب کی شناخت


رنگ نیلا نیلم نگ وانگوں اسمان سرائیکی اجرک
پا اجرک روہی رقص کرے دامان سرائیکی اجرک

سرائیکی وسیب کی تاریخ کم وبیش چھ ہزار سال پر پھیلی ہوئی ہے اور اتنی طویل مدت میں سرائیکی وسیب اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ اسی طرح شاد و آباد چلا آ رہا ہے جیسے کہ آج زندگی سے بھرپور ہے۔ سرائیکی وسیب کی زبان کی مٹھاس اور وسیبی لوگوں کا محبت بھرا انداز کسی بھی دوسرے لب و لہجہ کے لوگوں کو اپنا گروید بنا لیتا ہے۔ سرائیکی زبان کی یہ مٹھاس سرائیکی ادب میں بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ سرائیکی شاعری اپنے اظہار اور معنویت کے اعتبار سے ایک مکمل زبان ہے۔

یہ سات کروڑ سے زائد انسانوں کی نمائندہ زبان ہے اور اتنی بڑی انسانی آبادی اسی زبان کے تحت ہی اپنے دکھ سکھ اور خوشی غمی کا اظہار کرتے ہیں لہذا اس زبان کی وسعت اور ہمہ گیری لازمی اور یقینی امر ہے۔ ہزاروں سالوں سے آباد سرائیکی وسیب کی طرز معاشرت ایک مخصوص اور دھیمے انداز میں پروان چڑھ رہی ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اب جدید طرز زندگی نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ آج کے جدید دور میں ہر چیز کا اسلوب بدل چکا ہے انسانوں کا رہن سہن، کام، طرز معاشرت ہر چیز ماضی کے مقابلے میں مکمل طور پر بدل چکی ہے۔

اور ان تبدیلیوں سے سرائیکی وسیب بھی نہ بچ سکا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کے باسی جدید طرز زندگی اختیار کرتے جا رہے ہیں آج شہروں کے علاوہ دیہاتوں میں بھی طرز زندگی ماضی قریب کے مقابلے میں یکسر تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ مگر تبدیلی کا یہ عمل بہت تیز نہیں ہے تاہم کچھ چیزیں ایسی ہیں جو سرائیکی وسیب کی آج بھی پہچان اور شناخت ہیں۔ ان میں ایک سرائیکی اجرک بھی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سرائیکی اجرک جو کہ سرائیکی وسیب کی شناخت بننے کی منزل کی طرف جا رہی ہے کو ابھی کافی سفر طے کرنا ہے۔

تاہم سرائیکی وسیب کی معتبر دانشور شخصیت سیں ظہور دھریجہ نے نیلے رنگ کی اجرک کو متعارف کرا کے سرائیکی وسیب کو ایک متفقہ نمائندہ شناخت دینے کی کوشش کی ہے جس پر وہ بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اجرک کیا ہے اور سرائیکی اجرک کی تعریف کیا ہوگی اس پر بہت سے مقامات پر لکھا گیا ہے۔ اجرک سرائیکی خطے کی صدیوں پرانی ثقافتی علامت ہے۔ ازرق کا لفظ عرب زبان سے آیا ہے۔ اور بعد ازاں یہ لفظ ارزق سے اجرک میں تبدیل ہو گیا۔

اجرک کا مطلب ہے نیلا۔ تاریخی حوالہ اس کے متعلق کچھ یوں ہے کہ عرب فوجوں نے محمد بن قاسم کی قیادت میں سلطنت ملتان پر حملہ کیا تو بہت سے لوگوں نے اپنے کندھوں پر چادریں ڈالی ہوئی تھیں ان چادروں پر ملتانی کاشی کا کام نیلے رنگ میں کیا گیا تھا۔ جب عربوں نے ان چادروں کو دیکھا تو ان کے منہ سے بے اختیار ازرق ازرق نکلا جس کا مطلب تھا کہ نیلا نیلا۔ بعد ازاں مقامی لوگ جن کا لہجہ اور تلفظ عربوں سے مختلف تھا اور وہ ”ز“ کو ج بولتے تھے ازرق کو اجرک کہنے لگے۔ اور اس طرح ملتانی کاشی کے نیلے رنگ والی چادروں کو وسیب میں اجرک کہا جانے لگا۔

ایک جگہ پر تحریر ہے کہ ”سرائیکی اجرک (سجرک) سرائیکی وسیب میں چادروں اور شالوں کے دلکش نمونے کو کہتے ہیں۔ اجرک ایسی چادر کو کہتے ہیں جس کے اوپر نمونے ٹھپے سے لگائے جاتے ہیں۔ یہ نمونے تیز رنگوں مثلاً سرخ، نیلے اور کالے رنگوں میں ہوتے ہیں۔ لیکن سرائیکی اجرک کا رنگ گہرا نیلا ہوتا ہے، سرائیکی اجرک سرائیکی ثقافت کا سنگھار بن چکی ہے۔ سرائیکی وسیب کی ثقافت میں گہرا نیلا رنگ خاص اہمیت رکھتا ہے، اسی لیے نیلے رنگ میں سرائیکی اجرک بنائی گئی ہے۔

سرائیکی قوم پرستوں نے مل کراس کو ڈیزائن کیا اور نام بھی دیا، لیکن یہاں کے باسی اس سے پہلے سندھی اجرک کو بھی استعمال کرتے تھے، اس کمی کو یوں پورا کیا گیا کہ نیلا رنگ اپنی اجرکوں پر بکھیر کر سرائیکی وسیب کے دل جیت لیے گئے، اور آج ہر سرائیکی اسے پہنتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔ کچھ لوگ اس کو سجرک بھی کہتے ہیں لیکن اکثریت اس کو سرائیکی اجرک کے نام سے ہی جانتی ہے“ ۔ اجرک کو بنیادی طور پر سندھ کے سندھیوں کی شناخت کے طور پر لیا جاتا ہے اور اس کا رنگ گہرا سرخ اور کالا بھی ہوتا ہے۔

تاہم سرائیکی وسیب کے قوم پرستوں نے اجرک کے ڈیزائن اور رنگ میں تبدیلی کی اور ایک خوبصورت نیلے رنگ کی اجرک کا سرائیکیوں کے لیے متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ملتانی کاشی کا کام دنیابھر میں مشہور ہے۔ آپ پورے ملک میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کو تاریخی عمارات چاہے وہ سندھ میں ہوں یا بلوچستان یا ملک بھر میں کہیں بھی ہوں ان عمارات پر ملتانی کاشی کے نقش و نگار نظر آتے ہیں۔ ملتانی کاشی کا کام صرف پاکستان نہیں بلکہ قریبی ہمسایہ ممالک جن میں ہندوستان، ایران، افغانستان، عراق، شام، مشرق وسطیٰ اور روس سے آزاد ہونے والی ریاستوں ازبکستان وغیرہ میں بھی تاریخی عمارات ملتانی کاشی کا نیلا یا فیروزی رنگ کا کام ملتا ہے۔

تاریخی عمارات سے پتہ چلتا ہے کہ ملتانی کاشی کے آثار پانچ ہزار پرانے ہیں اور ملتانی کاشی کے اس تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سرائیکی اجرک کا بھی رنگ اور ڈیزائن یہی رکھا گیا ہے۔ اس طرح سرائیکی وسیب کے ہزاروں سال تاریخی فنی اثاثے کو ایک بار پھر سرائیکی اجرک کی شکل میں ایک نئی زندگی اور پہچان دے دی گئی ہے۔ ملتانی کاشی کے نیلے کام کے علاوہ بھی سرائیکی وسیب کا نیلے رنگ سے ہمیشہ سے گہرا رشتہ رہا ہے۔

ایک تو سرائیکی وسیب نیل کی کاشت کے حوالے سے ایک خاص شہرت اور اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا دریائے سندھ کا ایک نام نیلاب بھی ہے۔ نیلے رنگ کے لباس کو سرائیکی وسیب میں صوفیانہ لباس بھی کہا جاتا ہے۔ سرائیکی وسیب میں خواتین جب کپڑے دھوتی ہیں تو سفید کپڑوں کو نیل ضرور دیتی ہیں اس سے کپڑے کی خوبصورتی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ زیادہ صاف اور چمکیلا ہوجاتا ہے ۔ سرائیکی وسیب میں مرد کے سر پر باندھنے والی پگ کو بھی نیل دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ نیل لگی پگ باندھنے والے کو وسیب میں معزز سمجھا جاتا ہے۔ گویا نیلا رنگ اور سیب کا تعلق ایک انمٹ اور مضبوط ترین تعلق ہے۔

سرائیکی اجرک کی تیاری کے سلسلے میں سئیں ظہور دھریجہ نے سندھ کا دورہ کیا اور سندھ کے شہر جامشورو جو کہ سندھی اجرک کی تیاری کے لیے ایک خاص شہرت رکھتا ہے گئے اور وہاں پر اجرک تیار کرنے والوں سے ملے تاہم انہوں نے سرائیکی اجرک کی تیاری سے معذوری ظاہر کردی۔ اس کے بعد سندھ کے شہر حیدرآباد گئے مگر وہاں بھی اجرک تیار کرنے والے سرائیکی اجرک کے لیے پہلے تو حامی نہ بھری تاہم بعد اذاں وہ مان گئے اور سرائیکی اجرک تیار کر کے دیں مگر ان اجرکوں کے کپڑے اور رنگ کا معیار کسی طور سندھی اجرک جیسا نہیں تھا۔

بعد ازاں کہروڑ پکا کے استاد امیر بخش نے سرائیکی اجرک کی تیاری کے لیے حامی بھری اور پہلی بار سرائیکی اجرک تیار کر کے دی۔ سرائیکی اجرک کے خوبصورت رنگ اور دلفریب ڈیزائن دل کو موہ لیتے ہیں اور سرائیکی اجرک کو دیکھ کر ایک بار سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی میں کہا کہ ”سرائیکی اجرک کوں ڈٖیکھ تے اکھیں دے نال ہاں وی ٹھردے“ ۔ سرائیکی اجرک نے بہت کم وقت میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے اور اس وقت 6 مارچ کو نہ صرف سرائیکی اجرک کا دن منایا جاتا ہے بلکہ اس دن سرائیکی وسیب کے لوگ ایکدوسرئے کو سرائیکی اجرک کے تحفے دیتے ہیں۔ سرائیکی اجرک کے حوالے سے ڈیرہ غازی خان نوجوان شاعر سئیں رامش ؔ قادری لکھتے ہیں کہ

رنگ نیلا نیلم نگ وانگوں اسمان سرائیکی اجرک
پا اجرک روہی رقص کرے دامان سرائیکی اجرک
لائیاں جھوکاں جھمراں اجرک پا، پہچان سرائیکی اجرک
لاسینے رامشؔ جشن مناؤں میڈا خان سرائیکی اجرک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments