روداد سفر – حصہ 9


کبھی عرش پر کبھی فرش پر
کبھی ان کے در کبھی در بدر
غم عاشقی تیرا شکریہ!
ہم کہاں کہاں سے گزر گئے

میں نے چائنہ جانے کا حتمی فیصلہ کر تو لیا اور منہ بھی طرف چائنا شریف کر لیا۔ لیکن محض نیت اور ارادے سے تو چائنہ پہنچنے سے رہے۔ اس لیے اب یہ جاننا ضروری تھا کہ چائنہ جائیں گے کیسے۔ یہ کوئی ابن بطوطہ کا زمانہ تو تھا نہیں کہ جدھر منہ کیا چل پڑے۔ اب تو انسانوں نے خدا کی زمین کو بھی انچ انچ کے حساب سے بانٹ لیا ہے کہ یہاں تک تم اس سے آگے ہم۔ اس لیے جائیں گے کیسے یہ بات چائنہ ایمبیسی جا کر ہی معلوم ہو سکتی تھی۔

گاڑی اپنے پاس تھی نہیں، اس لیے ٹیکسی پکڑی اور چائنہ ایمبیسی، اسلام آباد کی طرف چل پڑے۔ ٹیکسلا سے اسلام آباد جاتے ہوئے، ای اینڈ ایم ای ( E and ME ) کالج کے پاس سڑک کنارے ایک جگہ کچھ اونچائی پر کسی بزرگ کا مزار تھا۔ ٹیکسی والا جب اس مزار کے قریب پہنچا تو ڈیک، جس سے وہ گانے سن رہا تھا، بند کر دیا۔ انگلی سے مزار کی طرف اشارہ کیا، اس انگلی کو ہونٹوں سے لگا کر چوما، پھر دونوں کانوں کو لگایا اور کنارے پر سبز جھنڈا لیے کھڑے ایک شخص کی طرف دس روپے پھینک دیے۔

یہاں کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ علاقہ اس مدفون بزرگ ہستی کا ہے، اور ڈرائیور نے ان رسومات کے ذریعے سے اس بزرگ ہستی سے اجازت طلب کی تھی تاکہ وہ اس سفر میں اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیں۔ بعد میں وہ مزار جب سڑک چوڑی کی جا رہی تھی تو بلڈوزر سے ہٹا دیا گیا۔ پھر کہانیاں بھی بننا شروع ہو گئی کہ کئی بلڈوزروں کے بلیڈ ٹوٹ گئے اور کئی بلڈوزروں نے چلنے سے انکار کر دیا۔ پھر کسی نے جا کر بزرگ سے باقاعدہ اجازت لی تو کام چلا۔ اب یہ اجازت ان سے کیسے لی یہ بھی ایک معمہ ہی ہے۔

چائنہ ایمبیسی کی عمارت بہت ہی وسیع و عریض ہے، یوں سمجھ لیں کہ ایک قلعہ ہے۔ یہ ایمبیسی اسلام آباد میں بری امام دربار کے قریب ہے۔ وہاں ایمبیسی سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ان کے مطابق ویزہ کے بنیادی لوازم (Requirements) میں چائنہ سے دعوت نامہ ( Invitation Letter ) ناگزیر تھا، جو وہاں کی کوئی کاروباری شخصیت یا کوئی کمپنی ہی ہمیں بھجوا سکتی تھی۔ چائنہ میں کوئی جان پہچان تھی نہ کبھی وزٹ کا موقع اس سے پہلے میسر آ سکا، تو کس سے یہ دعوت نامہ منگوایا جائے؟

خیر ایمبیسی سے باہر نکلے تو ٹیکسی والے سے کہا کہ کہیں جا کر بیٹھتے ہیں اور اس بارے میں کچھ سوچتے ہیں۔ وہ بری امام کی طرف لے گیا، بہت بڑا مزار تھا جہاں بھانت بھانت کے لوگ موجود تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ میں بھی مزار کے اندر گیا اور دعا کی۔ ڈرائیور نہ جانے کیا کیا حرکات کرتا رہا، اس کی ایک حرکت البتہ مجھے یاد ہے کہ اس نے مزار کے اندر مرقد کی دیوار کو دونوں ہاتھ لگائے، ہاتھوں کو چوما، اور پھر دونوں ہاتھ کانوں کو لگا دیے۔

عاجزی و فروتنی یہ طریقہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے خوف و ہیبت میں مبتلا کچھ پست ذہنیت کے لوگ کسی فوق الفطرت ہستی سے معافی طلب کرتے وقت اختیار کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم باہر آ کر صحن میں بیٹھ گئے۔ اسی اثنا میں ایک طرف سے ڈھول کی آوازیں آنی شروع ہوئیں، اس طرف دیکھا تو کچھ لوگ ٹولی کی شکل میں مزار کی طرف آ رہے تھے۔ ڈھول کی مخصوص تھاپ پر لمبے بالوں اور سبز چوغوں والے کچھ ملنگ، جن کے پیروں میں گھنگھرو بھی بندھے تھے اور گلے میں مالا بھی، مالا بھی ویسی ہی جیسی میں نے بدھ بھکشوؤں کے گلے اور ہاتھوں میں تائیوان میں دیکھی تھی۔ وہ بالکل مدہوش انداز سے ناچ رہے تھے۔ کیا سماں تھا، سب لوگ اپنی اپنی رسومات اور قبلہ حاجات کو چھوڑ کر ان درویشوں اور سالکوں کے گرد جمع ہو کر ان کے صوفیانہ رقص سے لطف اٹھانے لگے۔

ان کا ناچ دیکھ کر مجھے وہ تائیوانی خاتون یاد آ گئی جو اپنے بت کے سامنے شراب اور فروٹ رکھ کر بھجن گاتی اور ناچا کرتی تھی۔ وہ خاتون تو روحوں کی پوجا کرنے والی تھی، جبکہ یہ مسلمان اللہ کی۔ پھر دونوں میں یہ چیز مشترک کیسے ہو گئی؟ وہ عورت یہ ناچ گانا عبادت سمجھ کر کرتی تھی اور کیا یہاں یہ لوگ بھی اسے نیکی اور عبادت سمجھ کر ہی کر رہے ہیں؟ میں نے ٹیکسی والے سے پوچھا یہ سب کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ ڈولی لے کر آئے ہیں۔

میں نے اسے کہا کہ ڈولی کیا چیز ہے وہ تو بعد میں بات کریں گے، لیکن یہ ڈھول کیوں بجا رہے ہیں۔ کیا مردوں کو یا ان ہستیوں کو جگانا چاہتے ہیں۔ قرآن تو کہتا ہے کہ مردے نہیں سنتے تو یہ لوگ ڈھول بجا کر اور ناچ کر کسے خوش کر رہے ہیں؟ جو لوگ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، جو سن ہی نہیں سکتے، جن کا جسمانی وجود ہی ختم ہو گیا ہے، انہیں اس ڈھول اور ناچ گانے سے کیا لینا دینا۔

یہ معلوم ہے کہ صوفیا کے ہاں سماع جائز ہے بلکہ رقص و سرور کی محفلوں کو قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جیسے تائیوانی اپنے عزیزوں کی قبروں پر پھل فروٹ، شراب، سگریٹ رکھ کر آتے کہ یہ انہیں زندگی میں پسند تھے اور اب ان کی روحیں ان چیزوں سے لطف اندوز ہوں گی۔ ہو سکتا ہے کہ ویسے ہی یہ حضرات بھی جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے انہی چیزوں کے شوقین رہے ہوں۔ میں نے حد ادب کا خیال رکھتے ہوئے محض اپنے اشکالات دور کرنے کے لیے ٹیکسی ڈرائیور سے یہ سوال کیے تھے۔

بزرگ ہستیوں کے ادب کا خیال رکھنے کے باوصف ٹیکسی والے نے کہا : ایسی بے ادبی کی باتیں نہ کرو یہ بہت بڑے ولی اللہ اور پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ اس کا جواب سن کر میں خاموش تو ہو گیا لیکن سوچتا رہا کہ یہ ”پہنچے ہوئے“ سے اس کی کیا مراد ہو سکتی ہے؟ جسمانی وجود تو فنا ہو گیا اور جو شخصیت تھی وہ حساب کتاب کے لیے سنبھال لی گئی۔ اس کے ساتھ یہ دعویٰ کہ یہ بہت بڑے ولی اللہ، یعنی خدا کے دوست ہیں۔ کیا یہ صرف دعوے ہی ہیں یا ان کی کوئی حقیقت بھی ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں یہاں بیٹھے بیٹھے یہ کہہ دوں کہ امریکہ کا صدر میرا عزیز دوست ہے یا میں اس کا عزیز دوست ہوں۔ میرے اس دعویٰ پر کیسے کوئی یقین کرے گا، جب تک امریکہ کا صدر میرے اس دعویٰ کی تائید و توثیق نہیں کرے گا۔

مجھے آج تک اس ولی اللہ کے دعوی کی سمجھ نہیں آئی۔ ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی یہ دعویٰ لے کر بیٹھا ہوا ہے۔ ہمارے محلے میں بھی ایک پیر صاحب ( پیر مشہدی ) کے مریدوں کا یہی دعویٰ ہے۔ ہر جمعرات کو فجر کی اذان کے وقت وہاں ڈھول بجنا شروع ہو جاتا ہے اور لوگ اپنی اپنی حاجات لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ کیف و سرور، مدہوشی و مستی کے لیے ہر قسم کے مسکرات بالخصوص بھنگ اور چرس بھی اس موقع پر دستیاب ہوتے ہیں۔ کیا یہ سارے حشیشین ( حسن بن سباح) فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور نعرے علی علی کے لگا رہے ہوتے ہیں؟

ان کے کچھ لوگوں کا خیال بلکہ عقیدہ ہے کہ سیدنا علی بھی کچھ خاص قوتوں کے مالک ہیں اور ہم جب بھی انہیں پکاریں، وہ ہماری مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ مجھے ان کی اس بات پر بہت تعجب ہے، قرآن ایسے عقائد سے بالکل خالی ہے تو پھر بھی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کا بھی وہی عقیدہ ہو۔ جیسے ہندو عقیدہ کے مطابق وشنو اپنے پکارنے والوں کی پکار سن کر پہنچ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ان لوگوں سے اتفاق ہونے لگتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ”ہم سب پہلے ہندو ہی تھے۔

پہلے دور میں جو حکومت وقت کا مذہب ہوتا تھا وہی رعایا کا مذہب کہلاتا اور یہی فارمولا ہم پر بھی لاگو ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے ہم سب ہندو رسومات کی فائلیں اپنے فولڈر میں رکھ کر مسلمان ہوئے ہیں۔ کرامتوں کے بیان کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں لیکن ان قصے کہانیوں سے مجاوروں اور متولیوں کی روزی روٹی کا خوب بندوبست ہوتا ہے۔ صدیوں پہلے مرے ہوئے ان حضرات کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایسا کچھ کہا یا ایسا ہی کچھ کیا تھا۔ یہ مزیدار قصے کہانیاں اور کرامتوں کی داستانیں پھیلانے والے بھی ان مجاوروں کے کمیشن ایجنٹ ہی ہوتے ہیں۔ “

کیا یہ اسلام ہے؟

میں چونکہ ایسی ساری رسومات تائیوان میں بدھسٹ، کنفیوشس اور تاؤ ازم کے پیروکاروں میں دیکھ چکا تھا، اس لیے وہ سارے مناظر بھی ذہن میں ساتھ ساتھ ایک وڈیو کی طرح چل رہے تھے۔ خیر یہ ساری سوچیں لے کر ہم واپسی کے لیے دوبارہ ٹیکسی میں بیٹھے اور ٹیکسی نے اپنا رخ ٹیکسلا کی طرف کر لیا۔ ڈرائیور چونکہ بری سرکار کا پکا مرید تھا اس لیے اس نے واپسی پر گانے لگانے سے پرہیز کیا، جیسے ہمارے حاجی حضرات حج و عمرہ کے بعد معمولی گناہوں سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ویسے یہ لوگ خدا سے اتنا نہیں ڈرتے اور اتنی عقیدت نہیں رکھتے جتنا اپنے علاقے کے پہنچے ہوئے پیر سے ڈرتے اور عقیدت رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا جو اتنی بڑی کائنات کا مالک ہے کہیں اور مصروف ہو گا۔ اتنی بڑی کائنات میں اس کی نظر ہم پر کیا پڑتی۔ اتنے اہم امور کو وہ سنبھال رہا ہے اس زمین جیسے چھوٹے سے ذرے پر ایک ناچیز بندے کی اتنی چھوٹی چھوٹی حاجات پر اس کی کیا توجہ ہوتی۔ لیکن یہ پیر سرکار تو ہمارے ساتھ ہی نزدیک ہی رہتے ہیں ان کی نظروں کے قریب ہی ہم ہیں۔

شاید دوسرے لفظوں میں یہ بڑے خدا کے مددگار تھے ( نعوذ باللہ ) جو اپنے اپنے علاقے کا خیال رکھتے تھے اور اوپر بڑے خدا کو رپورٹ کرتے تھے اس لیے انہیں خوش رکھنا ضروری ہے جیسے ہمارے محلے کی اس زیارت ( مشہدی ) پر بکرے اور مرغے آتے تھے بطور نذرانہ (رشوت ) ۔ تاکہ یہ بزرگ ہستی ہم سے راضی رہے اور اللہ کے حضور ہماری حاجات اور بخشش کے لیے سفارش کرتی رہے۔ یہ سب کچھ شاید ہم نے اپنی پرانی ہندوؤں والی فائلوں سے نکال کر سامنے کیا اور اسے سبز چوغہ پہنا کر مسلمان کر لیا۔

ٹیکسی والے نے واپسی سفر کے دوران گانوں کے بجائے نعتیں لگا دیں۔ ایک نعت کا شعر تھا ”محمد کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا“ میرے ذہن میں خیال آیا کہ میت کو دفنانے کے بعد کون قبریں کھول کر دیکھتا ہے کہ کفن میلا ہوا ہے یا نہیں۔ پھر اگر کفن میلا ہو بھی جائے تو کون سا میت کو قبر سے نکال کر کسی ولیمے پر لے کر جانا ہے کہ صاف سفید کپڑے ہونے چاہئیں نہ کہ میلے۔ کہیں یہ سب کچھ مبالغہ تو نہیں ہے؟ کیونکہ ہم نے تو یہی سنا پڑھا تھا کہ حضرت عمار بن یاسر کو تو کفن ہی نہیں پہنایا گیا، ایک کرتا تھا جس سے سر ڈھانپا گیا اور پاؤں پر گھاس ڈال دی گئی۔ تو کیا وہ محمد ﷺ کے غلام نہیں تھے؟ ویسے یہ نعتیں لکھنے والے بھی سنتے والوں کے ذوق کو سامنے رکھ کر ہی لکھتے ہیں۔

اسی شش و پنج میں گھر واپس پہنچے اور اگلے دن سے یہ معلوم کرنا شروع کر دیا کہ چائنہ ویزے کے حصول کا کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ معلوم ہوا کہ راولپنڈی میں ایک ٹریول ایجنٹ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے ملنے پر ان تمام معاملات کی اس ایجنٹ نے حامی بھر لی جو ہمارے بس میں نہ تھے۔ پاسپورٹ اور ڈاکومنٹس اس کے حوالے کیے اور واپس گھر آ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments