عورت کے حقوق کی جنگ یا مادر پدر آزادی؟


پاکستان میں عورت مارچ کے نام سے شروع ہونے والے نعرے نے ہماری سوسائٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ میں اس کا الزام کسی ایک گروپ کو دینے کی بجائے آج دونوں طرف کے موقف کو بیان کرنے کی کوشش کروں گی، میں سوشل میڈیا پر اس چیز کو بہت غور سے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اور اس کے لئے میں نے ٹویٹر پر بے شمار سپیسز بھی کیں، اور دوسروں کی بنائی سپیسز میں بھی گئی تاکہ میں یہ جان سکوں غلطی کہاں اور کن سے ہو رہی ہے۔

میں نے لوگوں سے عورت مارچ کے متعلق ان کا موقف جانا تو ایسا لگا ایک گروپ عورت مارچ والوں پر کفر اور فحاشی کے فتوے لگاتا ہے۔ اور دوسرا گروپ اپنے علاوہ سب کو عورتوں کا دشمن مانتا ہے۔ اور معذرت کے ساتھ کوئی بھی ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ سب اسی ضد پر ہیں کہ سب ان کی سنیں کیونکہ وہ درست ہیں انھیں کسی کا بھاشن سننے کی ضرورت نہیں۔

مرد ہمارے عورت مارچ پر بات کیوں کرتے ہیں؟ انھیں کس نے حق دیا ہے کہ یہ ہمارے بارے میں ذکر کریں؟ ہم اپنا حق چھیننا جانتی ہیں وغیرہ۔

میرا یہاں ایک سوال ہے اگر اپ مرد حضرات سے بات کرنا حقارت سمجھتی ہیں تو پھر کس سے کون سے حق کے چھیننے کی بات کرتی ہیں؟ پھر اپ لڑ کس سے رہی ہیں؟ کون ہیں جنہوں نے آپ کے حقوق کو سلب کر رکھا ہے؟ اپ سڑکوں پر مارچ کر کے کن مردوں سے حقوق مانگ رہی ہیں؟ ہم عورتوں کو کون سی آزادی چاہیے؟ کیا عورت مارچ میں آنے والی خواتین اپنا ہر کام کرنے میں آزاد نہی؟ کیا انھیں ان کے بھائی، والد، بیٹے یا شوہر نے انھیں ان کے کسی بھی حقوق سے محروم رکھا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ تو اپ کا ڈومیسٹک ایشو ہے؟ اپ کو اس کے لئے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اور اگر جواب نا ہے تو پھر آپ نے آج تک کتنی غریب اور مجبور خواتین کو ان کے حقوق دلانے میں مدد کی؟ کیا وہ خواتین اپ کے مارچ میں شامل ہوتی ہیں؟

ہم مغرب کی بات کرنے کی بجائے اپنے دین کی بات کرتے ہیں۔ کہ ہمارا مذہب عورت کے حقوق کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کہیں ہم اپنی سوسائٹی اور عدل کے نظام کی کوتاہیوں کو عورتوں کے حقوق کے ساتھ گڈ مڈ تو نہیں کر رہے؟

ہمارے اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق تو چودہ سو سال پہلے ہی دے دیے تھے جب شاید یہ عورت مارچ، کرنے والیوں کا تصور تک بھی نہیں تھا۔ صدیوں سے مرد کی غلامی میں جکڑی عورت کو آزادی دلوائی اور عورتوں کو مرد کے برابر حقوق دیے۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے ”تم ( مرد) ان کے ( عورت ) کے لباس ہو اور وہ تمہارے لئے لباس ہیں۔“

ہمارے پیارے نبی کریم نے حجتہ الوداع کے خطبے میں فرمایا ”عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو“ تمہارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم ہر حق ہے ”

قرآن پاک میں بھی اللہ تعالی فرماتے ہیں ”مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ اس طرح عورت اور مرد کی رفاقت کو تمدن کی بنیاد بھی قرار دیا اور ایک دوسرے کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے ہوئے عورت کو بھی وہی مقام دیا جو مرد کو حاصل ہے۔ عورت کو مرد کے برابر اہمیت دی گئی اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم کی برتری کا ذکر نہیں ہے اور دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔

اس چیز سے انکار نہیں کہ اس کائنات میں ہر شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس چیز سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس میں ایک فریق کا پلڑا بھاری ہی ہو گا یہ عمل بھی فطری ہے۔ اور شاید انھیں چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہماری سوسائٹی نے کچھ خود ساختہ اصول بنا لئے ہیں۔ جیسے عورت جسمانی طور پر مرد جیسی طاقتور نہیں تو ہم عورت کو کمزور کہتے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مرد کو عورت پر برتری حاصل ہو گئی یا ہے۔ قرآن نے مرد کو عورت کا نگران، قوامیت کی فوقیت دی وہی دوسری جانب اسلام نے ہی عورت کو یہ عظمت بھی بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے رکھا کچھ باتوں میں مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔

مسلم حدیث نمبر 892 میں ہے کہ عرب میں روایت تھی حبشی لوگ خوشی کے موقع پر کرتب دکھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو ان کے کرتب دیکھنے کی خواہش ہوئی، تو نبی کریم نا صرف انھیں کرتب دکھانے لے گئے بلکہ حضرت عائشہؓ اپ کے کندھے پر ٹیک لگائے حبشیوں کو نیزے پر کرتب کرتے ہوئے تب تک دیکھتی رہیں جب تک اپ خود نا تھک گئیں۔

اس طرح کے نا جانے کتنے واقعات اللہ کے رسول کی زندگی سے ہمیں ملتے ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں جو کچھ اللہ کے نبی نے اپنی زندگی میں کیا اسی کا حکم ہمیں بھی دیا۔

میری سمجھ سے باہر ہے جب ہم کہتے ہیں مجھے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی آزادی ہے ہم جس طرح کے کپڑے پہنیں جو مرضی پروفیشن چوز کریں، اپنی مرضی کی شادی کریں، ہمیں ہماری جائیداد میں حق ملے، ہمیں پڑھنے کی آزادی ہونی چاہیے ہمیں اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی آزادی ہونی چاہیے ہمیں برابر کا حق ملے۔ تو ان باتوں سے تو کسی کو بھی انکار نہیں کیونکہ ان سب کا حق تو ہمیں ہمارا دین بھی دیتا ہے۔

وہی دوسری طرف ہم اپنی ان بہنوں کی پسند نا پسند کا احترام کیوں نہیں کرتے جو اپنی مرضی سے اسلام کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ جو اپنی خوشی سے اپنے بھائی، والد، بیٹے اور شوہر کی خوشی کے لئے ان کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ ہم سکرٹ اور بنا پردے کے گھومنے میں آزاد ہیں تو پھر وہ بھی سر پر چادر ڈالے حجاب سے اپنا منہ کور کیے کیوں زندگی نہیں گزار سکتیں؟

عورتوں کا پردہ کرنا ہم عورتوں کو جبر کیسے لگتا ہے؟ کیا انھیں دین کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے؟ ہم لبرل خواتین انھیں اچھوت کیوں سمجھتی ہیں۔ کیا ہم عورت کو ظاہری پہچان دیکھ کر ہی ان کے لئے آواز اٹھائیں گے؟

آزادی کے نام پر شور مچانے والا خاص طبقہ صرف اور صرف اپنے گروہ کا نمائندہ ہے۔ عورتوں کا نہیں۔

اگر اپ سچ میں عورت کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو پھر صرف چند نعروں اور لباس کی حد سے باہر نکلیں۔ شادی کیے بغیر رہنے جیسے مسئلوں سے نکلیں اور آئیں مل کر ان چیزوں پر کام کریں۔ جس سے ہم اپنے معاشرے اور مردوں کی سوچ کو بدل سکتے ہیں۔

ہمیں اپنے بھائی، بیٹے، والد اور شوہر کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں شوہر، بھائی، بیٹے اور والد کی مار پیٹ، ظلم و جبر اور حق تلفی کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا معاشرہ پرفیکٹ نہیں ہے بے شمار برائیاں ہیں۔ لیکن برائیوں کا برائی سے مقابلہ کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں قوانین تو ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ ہمیں ہماری حکومتوں پر پریشر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کہ ہر قانون پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔

ہمارے ججز یقینی بنائیں کہ ان کا قلم انصاف کرتے وقت غریب اور طاقتور کو دیکھ کر ان کے انصاف کا ترازو ایک طرف نا جھک جائے۔ وہ پیسے کی چمک میں انصاف کرنا نا بھول جائیں۔ ہماری پولیس یقینی بنائے کہ جب کوئی مظلوم ان کے در پر شکایت لے کر جائے تو وہ انھیں غریب سمجھ کر حقیر نا جانیں۔ ان کا کام انسانوں کو دیکھ کر کیس بنانا یا ختم کرنا نا ہو۔ ان کا کام صرف مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہو۔

آئیں مل کر کمزور کو ظالموں کے شکنجے سے نجات دلائیں۔

اسلام عورت کو شرعاً طلاق لینے کا حق دیتا ہے۔ مگر طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ باقی رہا ایک سے زیادہ شادیوں کا سوال سو کوئی آدمی جو قرآن پر صحیح معنوں میں ایمان رکھتا ہے اور اس کی تعلیم پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے قرآن حکیم کی ہدایت یہ ہے کہ تم چار تک شادیاں کر سکتے ہو اور شرط یہ ہے کہ تم سب کے ساتھ انصاف کر سکو۔

میں جاتے جاتے یہ فیصلہ اپ پر چھوڑتی ہوں کہ کیا ایک چھوٹا سا طبقہ اپنی مرضی کے قوانین پورے معاشرے پر مسلط کروا سکتا ہے؟

کیوں میاں بیوی کا رشتہ پاؤں کی زنجیر ہے؟

کیا والدین کو اپنی بچیوں کو اچھے اور برے میں فرق بتانے کا کوئی حق نہی؟ کیا شادی کے بعد خاوند کا بیوی پر کوئی حق نہیں؟

کیا عورت مارچ کی نمائندہ خواتین بنا شادی کے مرد کے بغیر آزاد زندگی گزار رہی ہیں؟ کیا عورت مارچ کے حق میں نعرے لگانے والیوں نے اپنے گھر میں کام کرنے والی خواتین اور کم عمر بچیوں کو وہی آزادی اور حقوق دے رکھے ہیں جس کی وہ خود ڈیمانڈ کرتی ہیں؟

میرا جسم میری مرضی کے نعرے ان کی اپنی بیٹیاں، بہنیں بھی لگاتی ہیں؟ کیا ان کی بیٹیاں بھی بنا شادی کے کسی غیر مرد کے ساتھ رہ رہی ہیں؟
کیا مادر پدر آزادی حاصل کرنا ہی عورت کے حقوق حاصل کرنا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments