یوکرائن جنگ کا ذمہ دار کون۔ روس یا امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی؟


کسی دانشور نے کیا خوب حقیقت پسندانہ بات کی ہے کہ ”جنگوں میں سب سے پہلے سچ کی موت واقع ہوتی ہے۔“ روس اور یوکرائن کے مابین جاری جنگ میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔ میڈیا کا زیادہ تر کنٹرول یورپی ممالک اور امریکہ کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے جنگ کے اسباب کا مجموعی بیانیہ روس کے خلاف ہے۔ یہ بات درست ہے کہ جنگ میں پہل روس نے کی ہے اور جنگ مسلط کرنے کی کوئی بھی منطق قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ لیکن روس کو اس نہج تک لانے میں بھی امریکہ اور یورپی ممالک کے دہرے اور منافقانہ معیارات ہیں۔

سچ یہ ہے کہ یوکرائن کو روس سے تعلق توڑنے کی قیمت پر اور نیٹو اور امریکہ کا اتحادی بننے کی صورت میں سہانے مستقبل کے خواب دکھا کر روس کو مسلسل اشتعال دلایا گیا۔ سو اس صورتحال کا جتنا روس ذمہ دار ہے اتنے ہی مغربی ممالک اور امریکہ بھی ہیں۔ اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو روس اور یوکرائن کی موجود کشمکش ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ ہے۔ 1992 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ نے طے کر لیا تھا کہ وہ آئندہ کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دے گا جو امریکہ کو چیلنج کر سکے۔

باوثوق ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو تخلیق کرنے میں امریکہ کا اپنا ہاتھ ہے اور جو بظاہر نظر آ رہا ہے وہ حقیقت نہیں ہے بلکہ پردے کے پیچھے کچھ اور ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جنگیں اور تنازعات موجودہ عالمی اسٹیٹس کو برقرار رکھنے اور سرمایہ دارانہ نظام کو سہارا دینے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ چودھراہٹ قائم کرنے کے دیگر دعویٰ داروں کو مات دی جائے اور انھیں کمزور کیا جائے۔

چین یہ گریٹ گیم سمجھتا ہے، عقل مند ہے۔ اسی لئے طاقت اور مواقع ہونے کے باوجود تائیوان یا کسی اور متنازعہ علاقے جس پر چین کا دعویٰ ہے چین مناسب وقت کے انتظار میں ہے اور جنگ کے ذریعے ان علاقوں کو حاصل کرنے سے اجتناب کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی ٹھیکیداروں کی یہی چال ہے کہ ان کی بقا اور اس نظام پر اجارہ داری دوسروں کو کمزور رکھنے میں پوشیدہ ہے۔ بظاہر تہذیب اور اخلاقیات کے چیمپئن حقیقت میں بنیادی اخلاقیات تک سے بھی عاری ہیں۔

نیٹو کو اسی مقصد کے تحت دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 4 اپریل 1949 میں تخلیق کیا گیا تھا لیکن روس مسلسل امریکی بالا دستی کو چیلنج کرتا رہا یہاں تک کہ 1992 میں کمیونزم کے زوال اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا۔ نیٹو نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے دیگر یورپی ممالک کو بھی اپنے اتحاد کا حصہ بنانے کے عمل کا آغاز کر دیا۔ مسلمانوں کی طرح روس بھی اپنے شاندار ماضی کے حصار سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکا اور پیوٹن جیسے ایڈوینچر کے شوقین شخص کے اقتدار میں ہونے سے اس نے پھر ماضی کی شان و شوکت حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کا آغاز کر دیا۔

روس چاہتا ہے کہ 1992 میں سوویت یونین سے الگ ہو کر نئے بننے والے ممالک اپنے دفاع اور معیشت کے لئے روس سے جڑے رہیں۔ خاص طور پر روس نے مشرقی یورپ میں نیٹو کی سرگرمیاں روکنے کے لئے کئی مرتبہ زبانی یقین دہانیاں حاصل کیں۔ لیکن امریکی آشیرباد کے ساتھ نیٹو اپنے دفاعی پارٹنرز میں مسلسل اضافہ کرتا چلا گیا۔ شروع میں نیٹو کے بارہ رکن تھے جن کی تعداد اب بڑھتے بڑھتے تیس ہو چکی ہے۔ جب پولینڈ، ہنگری اور چیکو سلواکیہ کو نیٹو کا اتحادی بنایا گیا تو 1999 میں روس نے امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ نیٹو کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکا جائے اور امریکہ نے وعدہ بھی کیا۔

لیکن بعد میں اس کے برعکس نیٹو نے ماضی میں روسی اثر و رسوخ کے زیر تحت رہنے والے ممالک مقدونیہ، بوسنیا، جارجیا، اسٹونیا، البانیہ، لتھوانیا، لٹویا، سلوانیا، مونٹی نیگرو، کروشیا کو بھی نیٹو کا رکن بنا کر روسی سرحد کے پاس پہنچ گیا۔ اس عمل کے دوران روس نے کبھی دبے اور کبھی واشگاف الفاظ میں نیٹو اور امریکہ سے احتجاج کیا کیونکہ روس ہر صورت نیٹو کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ جب نیٹو روس کی دفاعی شہ رگ اور بفر زون یوکرائن تک پہنچ گیا تو اب روس کے لئے خاموش رہنا مشکل تھا۔

یوکرائن کو متعدد مرتبہ نیوٹرل رہنے کی وارننگ دینے کے باوجود یوکرائن کے پہلی مرتبہ سیاست میں آنے اور 2019 میں صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے ولادی میر زیلنسکی بہرصورت نیٹو اتحاد کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ سابقہ ٹی وی کامیڈین زیلنسکی کے سیاست میں اناڑی پن کا اسی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف اب بھی کہتے پھرتے ہیں کہ انھیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ روس ان کے نیٹو میں جانے کے فیصلے کے نتیجے میں یوکرائن پر حملے جیسا انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے۔

یوں اگر دیکھا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ شطرنج کی موجودہ بساط خود امریکہ نے بچھائی ہے جس کا مقصد روس کی ابھرتی ہوئی قوت کو پابندیاں لگا کر کمزور اور عالمی برادری میں اسے تنہا کرنا ہے۔ اب اگر روس کو یوکرائن پر قبضے سے روکنے کے لئے یورپی ممالک نے ہتھیاروں کی ترسیل شروع کر دی تو جنگ کا دائرہ کار مزید بڑھ جائے گا اور باقاعدہ تیسری عالمی جنگ کا طبل بھی بج سکتا ہے۔ ماضی میں یوکرائن سلطنت عثمانیہ اور یورپ کے درمیان بفر زون کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔

عثمانی اور یورپی فوجوں کے درمیان کئی معرکے یوکرائن کی سرزمین پر ہوئے اور یوکرائن کے لوگوں نے دونوں قوتوں سے الگ الگ خفیہ معاہدے کر رکھے تھے اور انھیں سامان رسد بیچ کر دولت کماتے تھے کیونکہ یوکرائن زرعی اعتبار سے ایک انتہائی زرخیز خطہ ہے۔ تاریخی شواہد اور حقائق یہ بھی کہتے ہیں کہ عثمانیوں اور یورپی فوج کے درمیان جنگ کو یوکرائن کے لوگ اپنے تجارتی اور مالی مفادات کے لئے جان بوجھ کر بھڑکاتے تھے۔ ان جنگوں سے بھاری منافع کمانے والے یہودیوں نے عالمی صیہونی تحریک کا آغاز یوکرائن کی سرزمین سے ہی شروع کیا تھا۔

جبکہ موجودہ صورتحال میں نیٹو کا اتحادی ہونے کی صورت میں حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد نے ریاست کی بقا کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ نے اکیلے اور کئی مواقعوں پر مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنی بالادستی کے لئے سو سے زائد جنگیں لڑی ہیں جن میں ایک کروڑ سے زیادہ معصوم شہری ہلاک ہوئے جو موجودہ روس یوکرائن جنگ میں ہلاک ہونے والوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں روس پر تنقید اور انسانی حقوق کا واویلا کرنے پر اسے منافقت کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔

نام چومسکی اپنی ایک کتاب پولیٹیکل اکانومی آف ماس کمیونیکیشن میں موجودہ تعلیمی نظام کے بارے میں لکھتا ہے کہ ”تعلیم لوگوں کو درحقیقت جاہل رکھنے کا ایک مربوط نظام ہے“ ۔ میڈیا کے طاقتور مغربی ادارے سچ کو چھپاتے اور اپنے ورلڈ آرڈر اور نظام کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے جہالت اور جھوٹ کو میڈیا کے ذریعے فروغ دیتے ہیں۔ سچ بھی یہی ہے کہ یہ تعلیمی نظام محض سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار اور اسی کے تحفظ کے لئے ہے۔

جبکہ حقیقی شعور صرف انفرادی طور پر مسلسل مطالعے اور تحقیق کی جستجو سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام نیوٹرل ممالک چین کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر روس کے تحفظات کو تسلیم کرنے کے لئے امریکہ اور نیٹو ممالک پر دباؤ ڈالیں تاکہ جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو بجھایا جا سکے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کو بھی یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جنگ اور اجارہ داری کا شوق ہمیشہ نفع آور ثابت نہیں ہوتا اور دوسروں کے لئے خندق کھودنے والے ایک دن خود بھی اس خندق میں گر سکتے ہیں۔

یوکرائن جو خود امریکی اتحاد کا حصہ بن کر ماضی میں عراق، افغانستان سمیت مختلف ممالک میں فوجیں بھیجتا رہا ہے شاید اسی مکافات عمل کا شکار ہوا ہے۔ بہر حال دنیا کے ہر امن پسند شخص اور ملک کو یوکرائن اور روس کے درمیان فوری سیز فائر اور دونوں فریقوں کے درمیان کامیاب مذاکرات کے لئے اپنی کوششیں تیز کرنا ہوں گی ورنہ جنگ کا دائرہ کار اگر بڑھ گیا تو پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ روس پہلے ہی ببانگ دہل ایٹمی حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے صورتحال کی سنگینی کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments