جہاں میں رہتا تھا


جہاں میں رہتا تھا، سورج وہاں سے طلوع ہوتا ہے، چشمے وہاں سے نکلتے ہیں، راستے شروع ہوتے ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں، پھول کھلتے ہیں، درختوں پر پھل لگتے ہیں، فصلیں لہلہاتی ہیں، انسانیت مسکراتی ہے، ریل چھک چھک کرتی ہے، مور پر پھیلائے جھومتے ہیں، تیتر آوازیں نکالتے ہیں، پن چکی کو کو کرتی ہے، برف پگھلتی ہے، دریا سمندر بنتے ہیں، مینار مینار پاکستان کہلاتے ہیں، مسجدیں سنہری ہیں، دربار داتا دربار ہیں، انارکلی پرانی اور نئی انارکلی ہو گئی ہے، عشق کی داستانیں بازار بن گئی ہیں۔

ڈیم کہیں منگلا اور کہیں تربیلا ہیں، پھول سرخ سفید اور گلابی ہیں، موسم خزاں، بہار، سرد اور گرم ہیں، خوشبویات ہر طرف پھیلی ہیں، عورتیں ماں، بہن، بیٹی ہیں، گاؤں انمول ہیں، لوگ ناچتے پہنے ڈھول ہیں، شہنائی گاتی ہے باجے بجتے ہیں، نہریں بہتی ہیں جام چھلکتے ہیں، سورج طلوع سے غروب کی طرف سفر میں ہیں، پہاڑ، میدان، سمندر اور صحرا ہیں، افواج بری، بحری اور ہوائی ہیں، استاد مومن ہیں، علامہ اقبال ہیں، قائداعظم ہیں۔

خواب ہیں اور ان کی تعبیریں ہیں، موسی ہیں اور فرعون ہیں، بازار مصر میں یوسف برائے فروخت ہیں، جن کے ہم سہارا بنتے ہیں وہ سب بے سہارا ہیں، ٹینک، بندوق اور انسان ہیں، کراچی لاہور اور ملتان ہیں، چغتائی، منصور اور صادقین ہیں، تختی، قلم اور دوات ہیں، صبح، دوپہر اور رات ہیں، گھر، محل اور جھونپڑے ہیں، پیزا، برگر اور سینڈوچ ہیں، آم، کیلا اور انار ہیں، فوجی غازی اور شہید ہیں، اعتماد اور عدم اعتماد ہیں، پارک اور کھیل کے میدان ہیں، بھوک اور افلاس ہیں، جھوٹے، سچے انسان ہیں، بہن بھائی ماں باپ ہیں، عزت میں قتل ہیں اور بے غیرتی میں زندہ ہیں، زندگی مہنگی اور اموات سستی ہیں، گھر بڑے قبریں چھوٹی ہیں، تمھیں کیا پتہ کہ میں کہاں رہتا ہوں، آؤ تم کے لے کر چلوں جہاں میں رہتا ہوں نانگا پربت، کے ٹو، میرے سامنے ہیں، ایک شہر میں کئی کئی شہر ہیں، لاہور کے اندر کئی اور لاہور ہیں اور اس کے اندر پھر ایک نیا لاہور ہے، اسلام آباد میں اسلام ہے کہ آباد نہیں ہے، میانوالی کا گوئی میاں نہیں ہے، قصور بے قصور ہے، بیگم کوٹ بغیر کوٹ کے ہے، بھائی پھیرو پتہ نہیں کس پھیر میں ہے، شیخوپورہ میں کوئی شیخو نہیں ہے، ہرن مینار میں ہرن نہیں ہے، شالیمار باغ میں باغ نہیں ہے، شاہدرہ اب شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ ہے، بارہ دری میں کوئی در نہیں ہیں، شیش محل میں شیشے نہیں ہیں، بازار حسن کا نیا نام فوڈ سٹریٹ ہے، ان سب کے ہوتے ہوئے تصویر اتارنے کی اجازت نہیں ہے تمھیں کیا کیا بتاؤں میں کہاں رہتا ہوں، جہاں میں رہتا ہوں، میدانوں سے پہاڑوں کی چوٹیوں تک قبرستان بن رہے ہیں، کراچی میں حکیم سید، لیاقت علی خان، قائداعظم محمد علی جناح، لاہور میں علامہ اقبال، گجرات میں میجر عزیز بھٹی، اسلام آباد میں ڈاکٹر قدیر گلگت میں لالک جان اور کے ٹو پر علی سدپارہ مدفون ہے، کبھی یہ سب شہر آباد تھے کوئی روشنیوں کا شہر تھا اور کوئی پھولوں کا شہر تھا کوئی مدینتہ اولیاء تھا ہم نے ریاست مدینہ کا جھانسہ دے کر نہ ہی ریاست مدینہ بنائی اور نہ ہی ان کو پہلے جیسا رہنے دیا، میرے گاؤں سنسان ہو رہے ہیں اور شہروں کے اندر شہر آباد ہو رہے ہیں، ہم کبھی زرعی ملک تھے اب آہستہ آہستہ پاکستان سے براستہ افغانستان جاپان ہوتے جا رہے ہیں،

پہلے ہم نے گاؤں چھوڑے، پھر شہر چھوڑے اب ملک چھوڑتے جا رہے ہیں جہاں اب ہم رہتے ہیں وہاں رہبر اب راہزن بنتے جا رہے ہیں تمھیں کیا پتہ کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ہسپتال، مساجد اب کاروباری مراکز ہیں، عدل برائے فروخت ہے، سیاست برائے فروخت ہے، حفاظت برائے فروخت ہے، دین برائے فروخت ہے، صحافت تو اب صرف دوپہر کا اخبار ہے، جو پہلے ریاست کے چار ستون تھے اب وہ بھی زمین بوس ہوچکے، اور زمین ہموار ہو رہی ہے شاید کوئی نئی ہاؤسنگ سکیم تیار ہو رہی ہے، ادائیگی پانچ سال میں قبضہ چار سال میں۔ کیش ادائیگی پر کسی بھی صوبے کے انتظامی امور آپ کے حوالے اب اور کیا بتاؤں کہ میں کہاں رہتا ہوں اور پہلے میں کہاں رہتا تھا۔

محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments