مشرف عالم ذوقی کا فکشن


مشرف عالم ذوقی ایسے لکھاری تھے جن کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔

مشرف عالم ذوقی کا فکشن نئی معاشرتی تبدیلیوں، وقت کے نئے تقاضوں، گرتی ہوئی اخلاقی اقدار، ٹیکنالوجی کی یلغار جیسے مسائل پر اپنا نشتر چلاتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی کی دور رس نگاہوں نے اس طوفان کی شدت کو وقت سے پہلے دیکھ لیا تھا جس کا شکار ہمارا معاشرہ ہوتا جا رہا ہے۔ آپ کے ناول اور افسانے معمولی واقعات سے پیدا ہونے والے بڑی تبدیلیوں اور ان کے نتائج کو اس طرح سے لے کے چلتے ہیں کہ قاری کی دل چسپی شروع سے آخر تک متن میں برقرار رہتی ہے۔

سوچ کا در وا کرتی یہ تحریریں ایسے ایسے مسائل کا احاطہ کر رہی ہیں جو آج سے پہلے ہمارے معاشرے کر درپیش نہیں تھے۔ ناول ”لے سانس بھی آہستہ“ معاشرے کے عجیب و غریب المیے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی فرسٹریشن کا ایک مکروہ اخلاق سے گرا ہوا حل دکھایا گیا ہے۔ جو کہ غیر اخلاقی ویب سائٹس اور پھر ان کے نوجوان نسل پر اثرات کے بارے میں ہے۔ یہ آگہی تو معاشرے میں دینا اچھا قدم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک معذور لڑکی کی کہانی بھی بیان کی گئی ہے جو سراسر بے سروپا ہے۔

اس کہانی میں لڑکی کے باپ کو مجبور دکھایا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ بے بس ہے جب کہ ایسا درست نہیں ہے۔ لڑکی کا باپ معذور لڑکی کی ناجائز مطالبات پورا کرنے کی بجائے گاؤں سے آئے لڑکے کے ساتھ اس کی شادی کر سکتا تھا۔ خود کسی عورت سے شادی کر کے لڑکی کی ذمہ داری اس عورت کو دے سکتا تھا۔ کسی عورت کو ملازمہ رکھ سکتا تھا۔ مشرف عالم ذوقی صاحب نے باپ کو مظلوم، مجبور بنا کے پیش کیا ہے جب کہ باپ قابل مذمت ہے۔ اپنے غلط اعمال اور ناجائز اولاد کو اپنی نواسی اور پوتی قرار دے کے اپنے غلط عمل کی توجیہ پیش کرنا کون سی اخلاقی اقدار ہیں؟

انسیسٹ (Incest) اس ناول کا بنیادی موضوع ہے۔ جس کی ہمارے مذہب اور معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ناول ”پوکے مان کی دنیا“ میں ایک جوان ہوتی ہوئی منہ زور لڑکی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے والدین کی حکم عدولی جس کی فطرت ہے۔ اس ناول میں بھی عجیب سی نفسیاتی گرہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کہ کچھ مردوں کی گھٹیا نفسیات کو ظاہر کرتی ہیں۔ شاید ہمارے معاشرے میں ایسے مرد بھی پائے جاتے ہیں۔ جن کی نظر کی گندگی سے محرم رشتے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اخلاقی گراوٹ نے معاشرے کو اس حد تک پامال کر دیا ہے کہ اب بچیاں گھروں میں بھی غیر محفوظ ہیں۔

لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔ پوکے مان ایک گیم ہے جس میں کھیلنے والا دشمن سے لڑ کر بہت سارے پوکے مان جمع کر لیتا ہے پھر جب کوئی لڑائی پیش آتی ہے تو وہ دشمن کے لیول کا پوکے مان میدان میں اتارتا ہے اور جیت کر دشمن کو قید کر کے پوکے مان بنا لیتا ہے۔ دیگر ویڈیو گیمز میں طاقت ور بننا نئی نسل کو بہت مرغوب ہے۔ یہ گیمز بچوں کی سوچ کو کیسے تبدیل کرتی ہیں مشرف عالم ذوقی نے ناول میں آگے جاکر اس پر روشنی ڈالی ہے۔ انہی گیمز کو کھیل کر بارہ سالہ بچہ ریپسٹ بن جاتا ہے۔

”بیٹی ماں کی گود سے نکلی اور تاڑ جتنی لمبی ہو گئی“ یہ ذوقی صاحب کا پسندیدہ جملہ ہے۔

تو کیا چھوٹی لڑکیوں کو لڑکوں کی طرح بڑھوتری کا حق نہیں ہے! ہم مسلمان ہیں ہمارے لیے بیٹی رحمت ہے۔ مشرف عالم ذوقی ہندوستانی معاشرے میں رہتے تھے شاید وہاں بیٹیاں زحمت ہوں۔ مشرف عالم ذوقی صاحب کا یہ انداز کئی افسانوں میں بھی نمایاں ہے۔ انہیں لڑکیوں کی جسامت پر اعتراض ہے۔ ان کے لباس پر اعتراض ہے۔ ان کے جوان ہونے پر اعتراض ہے۔ شاید وہ لاشعوری طور پر بیٹیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ جدیدیت کے ترانے گانے والے بیٹیوں سے نفرت کے معاملے میں اس قدر قدامت پرست ہیں۔

یہ کیسی بیمار ذہنیت ہے۔ جس انسان کو اپنی بیٹی کے لباس پر اعتراض ہے۔ وہ اپنی بیگم کا لباس درست کر والے۔ بیٹی کا لباس اکثر ماں سے مشابہ ہوتا ہے کیونکہ وہ لاشعوری طور پر ماں کی تقلید کرتی ہے۔ بچیوں کے لباس بھی مائیں ہی خریدتی ہیں اس وقت یہ باپ کہاں مرے ہوتے ہیں۔ دیکھ لیا کریں نا بیگمات کیا خرید رہی ہیں۔ بعد میں جو نظریں چراتے پھرتے ہیں۔ لیکن وہ لباس جو بیوی کے لیے پسند ہے بیٹی کے لیے پسند نہیں ہے یعنی جو خود کے لیے پسند ہے نئی نسل کے لیے پسند نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے۔

ناول میں آگے چل کر معاشرے میں پھیلتی ہوئی جدید سوچ یعنی مادر پدر آزادی کو موضوع بنا کر ایک بارہ سالہ بچے کی ریپ کی کہانی سنائی گئی ہے کہ اس پوسٹ ماڈرن عہد میں نئی نسل ہر اس قدر کو نظر انداز کر رہی ہے جو اس کی آزادی، اختیار اور قوت فیصلہ کو چیلنج کرتی ہے۔ نئی نسل کو نہ تو ماضی سے دل چسپی ہے اور نہ والدین سے۔ نئی اخلاقیات میں لمحہ موجود اور ’ذات‘ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے لیے زندگی کا مقصد لذت کے حصول میں ہے جو وہ گیم سے لے کر جنس تک میں تلاش کرتے ہیں۔ آج دنیا کو گلوبل ویلیج بنا دیا گیا ہے۔ انسان کو ایک ڈیوائس سے ساری دنیا سے جوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن فرد واحد مزید تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ پوکے مان، اسپائیڈر مین جیسے کردار نئی نسل کے پسندیدہ ہیں۔

مشرف عالم ذوقی کی زیادہ تر تحریریں پیروں تلے سے کھسکتی تہذیبی و اخلاقی بنیادوں کا نوحہ ہیں۔ مشرقی تہذیب و کلچر پر مغربی یلغار اور کلچرل امپیریلزم کے مضر اثرات جو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہمارے ڈرائنگ روم اور بیڈروم میں داخل ہو کر بالخصوص نئی نسل کے ذہنوں کو آلودہ کرنے میں مصروف ہیں ان کو مشرف عالم ذوقی نے تحریر کا حصہ بنایا لیکن ان کا حل کیا ہے؟ اور ان کی جو وجوہات ذوقی صاحب نے لکھی وہ کس حد تک درست ہیں؟

لیکن temptations
کے انتخاب میں ذوقی صاحب نے عجیب
قسم کے مفروضات کا سہارا لیا ہے

ان کے خیال میں لباس ہیجان کا باعث ہے جب کہ ایسا درست نہیں ہے۔ لباس اگر ہیجان کا ذریعہ بنتا ہے تو بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کیوں ہوتے ہیں۔

اصل وجہ سوچ کی غلاظت ہے۔ مشرف عالم ذوقی کے دیگر ناولوں میں ایک ”مرگ انبوہ“ ہے جس میں باپ بیٹے کے مابین جنریشن گیپ کو دکھایا گیا ہے اس کے بعد ہندوستانی معاشرے میں پھیلتی فرقہ واریت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سیاسی اور معاشرتی فضا میں پیدا ہونے والا تعصب اس ناول کا موضوع ہے جو کہ جرات مندانہ کوششیں ہے۔ اسی ناول کا دوسرا حصہ مردہ خانے میں عورت کے نام سے لکھا گیا ہے۔

مشرف عالم ذوقی کا تانیثی ڈسکورس ”نالہ شب گیر“ میں سامنے آتا ہے۔ ثقافتی اور سماجی سطح پر جو نئے نئے زاویے نمودار ہو رہے ہیں ان کے باوجود عورت محکوم ہے۔ اصل بات یہ ہے سماجی اور مذہبی سطح پر عورت کا مقام کہاں ہے۔ یہ سوال ذوقی کے ہر ناول ہر افسانے کی بنیاد ہے۔ تانیثیت ڈسکورس ذوقی کی تحریروں میں ہمیشہ موجود رہا لیکن ”نالہ شب گیر“ میں یہ سارے ناول میں پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ عورت کا مقام آج بھی غلام کا ہی ہے بس اسے نئی زنجیریں پہنا دی گئی ہیں۔

ذوقی نے اس ناول میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورت سب زنجیریں توڑ کر بغاوت کر سکتی ہے۔ لیکن ان کی ذہنی اپج نے اس ناول کو بھی دیگر ناولز کی طرح سوالات کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ ہیجان کی شدت، عجیب و غریب معاملات، رشتہ ازدواج کے حوالے سے نئی سوچ اور بہت کچھ اس ناول میں شامل ہے۔ اس ناول کی ہیروئن ناہید ناز اپنی برسوں کی نفرت کا نشانہ اپنے شوہر کو بناتی ہے اور اسے چوہا کہہ کر گھر سے بے دخل کر دیتی ہے۔

’نالہ شب گیر‘ میں مرد مخالف تانیثی رویے کو بنیاد بنایا گیا ہے یہ مشرق بالخصوص اردو ناول کے لئے نئی بات ضرور ہے لیکن مغرب میں اس کی شروعات بہت پہلے ہو چکی ہیں۔ اردو فکشن میں ذوقی نے باقاعدہ طور پر تانیثیت کے اس مکتب کے اثرات قبول کرتی ہوئی ایک مشرقی عورت کو دکھایا ہے جو اردو ناول میں ایک نئے اور منفرد تجربے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہاں بھی سوال وہی ہے کہ ناہید کے مسائل کا حل کیا ہے؟

ذوقی نے ہمارے اردگرد پھیلے نئے مسائل کی طرف توجہ تو دلائی ہے لیکن اس کوششیں میں وہ بہت آگے نکل گئے یہ بات قابل تحسین ہے کہ اس طرف توجہ دلانے والوں میں وہ سبقت لے گئے ہیں۔ یہ ہی ان کی انفرادیت ہے اور اس نئے ٹیکنالوجی کی یلغار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی، اخلاقی مذہبی اور تہذیبی جنگ پھر اس سے نبرد آزما انسان خاص طور پر نئی نسل کس مقام پر کھڑی ہے؟ یہ مشرف عالم ذوقی کا سوال ہے۔ جس کا جواب ہم سب کو سوچنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments