کیا آپ نامرد ہیں؟


یہ وہ سوال ہے مضبوط سے مضبوط جوان کے ماتھے پہ پسینہ یا منہ پہ گالی لے آتا ہے۔ دیکھنے میں مرد بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ سماج میں حیثیت بھی اقتدار کی ہے مگر بات ہو جنسی فٹنس کی تو یہی مرد بے حد کمزور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت کے حصول کے اشتہار آپ کو ہر جگہ دیواروں پہ لکھے نظر آتے ہیں۔

جنسی معذوری ایک ایسی معذوری ہے کہ اس کا طعنہ احساس محرومی کے ساتھ شدید شرمندگی اور خجالت کا باعث بھی سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس پہ کوئی خاص بات بھی نہیں ہوتی۔ کوئی آگہی بھی نہیں پھیلائی جاتی۔ خواتین کی گائنی صحت پہ تو اب پھر بھی بہت سی بات ہونے لگ گئی ہے مگر مردوں کی جنسی صحت پہ اب بھی کوئی رہنمائی موجود نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کوئی اس پہ بات کر کے ”کمزوری کا ٹیگ“ کیوں لگوائے گا۔

جنسی فٹنس یا صحت ایک ایسا پہلو ہے کہ مردوں کی ٹانگیں قبر میں ہوں تو بھی انہیں یہ صحت چاہیے۔ کیوں کہ جنسی صحت اور جنسی برتری ان کی انا کی تسکین کرتی ہے۔ اسی لیے جنسی ساتھی کا، خوش اور مطمئن ہونے کی بجائے کبھی کبھی درد یا تکلیف کی شکایت کرنا ضروری ہے تا کہ مرد کی عزت نفس برقرار رہے۔ (بعض دفعہ تو خواتین اس عمل کی اداکاری بھی کر لیتی ہیں۔ ) اسی وجہ سے دورانیے میں اضافے اور مضبوطی کی ادویات بہت بکتی ہیں۔

جن مردوں کے شادی کے بعد بچے ہو جاتے ہیں انہیں تو فٹنس لائسنس مل جاتا ہے مگر جن کے نہیں ہوتے معاشرہ انہیں مشکوک نگاہوں سے ہی دیکھتا رہتا ہے۔ حالاں کہ اس فیلڈ میں ’کارکردگی‘ اور ’زرخیزی‘ کا آپس میں تعلق ہے تو سہی مگر بہت کم۔

مردوں کی جنسی معذوری کی، کسی بھی دوسری بیماری کی طرح، کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

پیدائشی معذور افراد تو خواجہ سرا اور طرح طرح کے دوسرے نام حاصل کر کے پہلے دن سے والدین کے لیے اور اپنے لیے امتحان بن جاتے ہیں۔ ان کی زندگی تیسری دنیا میں نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے۔

دوسرے نمبر پہ وہ مرد آتے ہیں جو پیدا تو فٹ ہوئے تھے مگر بعد میں کمزوری کا شکار ہوئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو نام نہاد حکیم سب سے زیادہ لوٹتے ہیں۔ (اس مضمون کا خیال بھی ایسی ہی ایک کہانی سن کر آیا تھا) اس قسم کے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے اور مناسب آگہی کے ساتھ حالات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔

تیسرے نمبر پہ وہ افراد ہیں جن کی شادی نہایت اوائل عمری میں ہو گئی اور وہ ایسی سوشل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں جس میں مناسب غذا اور آگہی کی شدید کمی ہوتی ہے۔ وہ شادی کے ابتدائی سالوں میں خود کو بے پناہ استعمال کرتے ہیں اور بعد میں پریشان رہتے ہیں۔

چوتھے نمبر پہ بہت سے ایسے افراد ہیں جو شوگر یا کسی اور بیماری میں مبتلا ہو کر جنسی صحت گنوا بیٹھتے ہیں۔

ایک قسم ان مردوں کی ہے جو غیر اخلاقی فلمیں دیکھ کر، یا جھوٹی کہانیاں سن کر مسلسل اس احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں کہ وہ ٹھیک طرح سے کارکردگی نہیں دکھا رہے۔ اس طرح کے مردوں کو نفسیاتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جنسی کمزوری کے کچھ ایسے نقصانات بھی ہوتے ہیں جو عموماً نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ کم عمر بچوں اور بچیوں کا ریپ۔ مشہور تو یہ ہے کہ زیادتی کرنے والا مرد جنسی قوت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے اور شاید کچھ ایسے کیسز ہوتے بھی ہیں۔ مگر بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو جنسی کمزوری کی وجہ سے انا کی تسکین حاصل نہیں کر پاتے اور بچوں کے چلانے کی آوازیں انہیں یہ تسکین فراہم کرتی ہیں۔

دیکھا جائے تو مرد اس لحاظ سے قابل ترس اور مظلوم ہیں جو سماج کے اس جبر کا شکار ہیں جو مصنوعی عزت نفس اور مضبوط شخصیت کے تشخص کی خاطر بہت سوں کی زندگیاں خراب کر رہا ہے۔

کچھ ایسے افراد ہیں جن پہ خاندان کی طرف سے شادی کا دباؤ ہے مگر وہ چوں کہ خود کو اس ذمہ داری کے قابل نہیں سمجھتے تو مسلسل کترا رہے ہیں۔ مگر شادی نہ کرنے کا سوال تو قبر تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ عام آدمی کی کیا حیثیت یہ سوال تو کنوارے عمر رسیدہ سیاست دانوں اور بڑے کاروباری حضرات کی جان بھی نہیں چھوڑتا۔

اس معاملے میں کوئی حکومت یا کوئی ادارہ مردوں کی کوئی خاص مدد نہیں کر سکتا۔ وہ طاقتور پوزیشن میں ہوتے ہیں انہیں ہی معاشرے کی لب بندی کی روایت بدلنے کے لیے ہمت کرنا ہو گی۔ اپنے اور جاننے والوں کے برے تجربات نوجوان نسل تک پہنچانا ہوں گے تا کہ آنے والی نسلیں بہتر عزت نفس کے ساتھ جی سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments