عورت کو اس کا فطری حق کیوں حاصل نہیں؟


عورت قدرت کی وہ تخلیق ہے جس کے بارے میں کہا گیا ”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“ لیکن سوچنے والوں نے یہ کم ہی سوچا کہ عورت اپنی ذات میں بھی ایک کائنات ہے۔ عورت کا ذکر ہو تو حسن، نرم طبعیت، نزاکت اور لطافت کا ہی اس کا تعارف کہلاتا ہے، اس کے اندر کے جہاں کو اس کی مخفی خوبیوں یا اس کی ذاتی حیثیت کو بہت کم ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ عورت کو ہمیشہ سے محض ایک جنس کے طور پر دیکھا، سوچا اور سمجھا جاتا رہا ہے۔

جب ہم ایک جیتے جاگتے انسان کو ایک جنس کی حیثیت سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں تو ہم دراصل اس کی سوچ، احساسات، جذبات اور اس کی آزاد حیثیت کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ طرز فکر محض تفریق ہی پیداء نہیں کرتا بلکہ انسانی حقوق کو صرف ایک طبقہ کے لیے مخصوص گردانتا ہے جبکہ دیگر کو اس لائق ہی نہیں سمجھتا۔ یہ سوچ صرف مرد کی ہی نہیں معاشرے کی ہے یعنی زبردست اور زیر دست کی اینٹوں سے تشکیل شدہ معاشرے کی عورت بھی اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔

عورت اپنے تشخص، سوچ، فکر اور تخیلات کے لحاظ سے ویسی ہی ہستی ہے جیسا کہ مرد۔ وہ صلاحیتوں کے لحاظ سے اور انہیں بہترین طریقہ سے بروئے کار لانے میں بھی کسی طور مرد سے کم نہیں۔ اس میں خود اعتمادی، تجزیاتی حس، پرکھ، چیلنج کا مقابلہ کرنے کی سکت، حل نکالنے کی قابلیت اور قوت فیصلہ بھی بھرپور ہے۔ نفسیاتی لحاظ سے بھی عورت اور مرد میں کوئی بنیادی تفریق نہیں، اگر کہیں اس تناظر میں عورت کچھ پہلوؤں سے کمزور نظر آتی ہے تو اس کی وجہ اس کی ساخت یا جنس نہیں بلکہ وہ معاشرتی سوچ اور رویے ہیں جو اسے کمزور کرتے ہیں۔ وہ اگر جسمانی قوت کے لحاظ سے نسبتاً کم ہے تو اس سے یہ مطلب اخذ کر لینا کہ وہ ہر لحاظ سے کمزور یا کمتر ہے، نری سطح بینی اور کج فہمی ہے۔ یہ خودساختہ سوچ ایک طرف عورت کی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال نہ ہونے کا سبب ہے تو یہی اسے کمزور اور ناتواں بنانے کی وجہ بھی ہے۔

قدامت پسند اور روایت پرست معاشروں میں عورت کے تشخص کو جس طرح روندا جاتا ہے وہ اپنی جگہ ظلم کی داستان تو ہے ہی مگر اس کا اثر معاشرتی نمو پر بھی براہ راست مرتب ہوتا ہے۔ معاشرے کی نصف آبادی محض بے جان، بے مقصد یا کسی ایک طبقہ کے مفاد کے لیے رائج روایتوں کی بھینٹ چڑھا کر مفلوج کردی جاتی ہے جس کا ضارب اثر پورے معاشرے پر اسی تناسب سے ہوتا ہے۔ ماں کا درجہ، بہن کی عزت، بیٹی کا وقار وہ کتابی اصطلاحات ہیں جن کی عملی تصویر آٹے میں نمک برابر بھی نہیں پھر بھی ہم ان الفاظ کو بطور دلیل پیش کر کے بھرپور خود فریبی کا شکار ہیں جبکہ درحقیقت اسے کہیں کہیں تو جانوروں حتی کہ بے جان اشیاء سے بھی کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ عورت کو اس کا فطری حق ایسے معاشروں میں کیوں حاصل نہیں؟ محض اسے پدرسری نظام یا کچھ اور نام دے کر اس پر نوحہ خوانی کرنا کافی نہیں بلکہ اس حقیقت کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانیت سوز نظام کو کس ضابطہ کے تحت جواز دیا گیا ہے؟ اس کا انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کیا اثرات ہیں؟ اور اس کا نتیجہ آنے والے زمانے میں کیا ہو گا؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جو کسی بھی امر کے جواز یا عدم جواز کا منطقی فیصلہ کرتے ہیں۔

دیکھا جائے تو کوئی فطری، اصولی یا منطقی ضابطہ اس بے رحمی پر دلالت نہیں کرتا جبکہ اس کا انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مفید ہونا ناممکنات میں سے ہے ہی اس کا فوری اثر منفیت کی صورت مرتب ہو رہا ہے جبکہ مستقبل میں نتائج کے اعتبار سے یہ طرز بھیانک ترین ہے۔ کیا ہم یہ قبول کرنے کو تیار ہیں کہ جس ہستی پر ہم گھر اور معاشرے کے تعمیر کی کلی ذمہ داری ڈال رہے ہیں وہ شخصی اور عملی اعتبار سے کھوکھلی ہو؟ ہرگز نہیں مگر ہم دانستہ یا غیر دانستہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔

ہم تقریباً نصف آبادی کو نہ ان کے بنیادی انسانی حقوق دینے کو تیار ہیں نہ ہی بالعموم قابل عزت و تکریم سمجھتے ہیں جبکہ ہم زبانی اس کا بارہا اعادہ کرتے ہیں لیکن عملاً ہرگز ایسا نہیں۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ مرد اور عورت پزل پیسز کی مانند ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں؟ اسلامی لحاظ سے بھی اس بنیادی وصف کو اتنی ہی اہمیت دی گئی ہے جبھی کہیں ایک دوسرے کا لباس تو کہیں ایمان کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ کیا ہم اپنے لباس اور ایمان کو کمتر، عیب دار اور ناقابل عزت جزئیات سے پر کرنے کو تیار ہیں؟ ہرگز نہیں لیکن کر یہی رہے ہیں۔

اس سماجی کج روی کی ذمہ داری کے تعین کی بات کی جائے تو ہمیں ابہام کی ایسی دھول اڑتی نظر آتی ہے جس میں اصل مدعاء کہیں گم ہوجاتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بہت سے فکری پہلو بھی اکثریت پر واضح نہیں، اس جیسے مبادیاتی موضوعات کو باآسانی تعصبات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ہر کوئی الفاظ کی بھول بھلیوں اور نعروں کی شعبدہ بازیوں میں الجھا کر اپنی اپنی دکان چمکانے میں مصروف نظر آتا ہے جس کا فائدہ کم از کم عورت کو کسی طور نہیں۔

افسوس ناک پہلو یہ کہ ’عورت کے آواز‘ ہونے کے دعویداروں کی اکثریت نے وہ روش اختیار کی ہے جس سے بنظر غائر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عورت اور مرد میں طبل جنگ بج گیا ہے اور اب یہ رن بھومی تا دم آخر آباد رہے گی۔ اگر کسی دور میں ہر جنگ کی طرح یہ جنگ بے نتیجہ اور مزید نقصانات کے بعد ختم ہوئی تو منطقی اور شعور پرور باتیں زیر بحث آنے کا امکان ہو گا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ کام آج اور ابھی سے شروع کیا جائے؟ واضح رہے جب تک تحریک مقصدیت کے بجائے تعصبات یا تفرقات پر رہے اس کے پار لگنے کے امکانات نہیں ہوتے۔

آج صرف مرد ہی نہیں ہر طبقہ، عمر اور سماجی حیثیت کی حامل ہر عورت کو بھی یہ سمجھنے کے ضرورت ہے کہ حیثیت، رتبہ، قبولیت اور قوت ذمہ داری ہوتے ہیں مطلق العنانیت کی سند نہیں۔ ہر کمزور اور غیر مراعات یافتہ شخص یا طبقہ ہم سے ہماری اسی ذمہ داری کی منصفانہ اور بروقت ادائیگی کا متقاضی ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عورت مرد کی جاگیر نہیں بلکہ ہر شکل اور ہر حیثیت میں مرد کی ساتھی ہے۔ صرف ماں، بہن، بیٹی اور دیگر رشتہ دار خواتین ہی نہیں ہر ہر عورت سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہے اس لیے اس کی حیثیت کو تسلیم کرنا، بطور انسان اس کی تکریم اور اس کے حقوق کا خیال رکھنا ہم پر لازم ہے۔ اس لحاظ سے اسے کسی مقصد کے لیے استعمال کرنا، ہراساں کرنا یا اسے صنفی تفریق کا نشانہ بنانا اتنا ہی قبیح فعل ہے جتنا چوری، ڈکیتی یا قتل۔

عورت کے حقوق کا خیال رکھنے کی ابتداء بیوی کی حیثیت تسلیم کرنے سے ہوتی ہے کیونکہ ہم خود سے متعلقہ ہر عورت کی حیثیت کم و بیش تسلیم کر ہی لیتے ہیں مگر بیوی کی حیثیت عموماً نظرانداز کی جاتی ہے بلکہ اس معاملہ شدید بے رحمی کے مظاہرے بھی بکثرت ملتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ جس معاشرے میں ہم ماں کی عظمت اور مرتبہ کے گیت گاتے ہیں وہیں ہر بیوی بھی ایک ماں ہے۔ ماں کو جس قدر فضیلت اور رتبہ دیا گیا ہے اکثر مائیں بھی اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں جس کا نشانہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں ایک عورت ہی بنتی ہے، ستم ظریفی یہ کہ اس استبداد کو ماں کی تقدیس کے دبیز پردہ سے ڈھانپ کر ٹھنڈے پیٹ ہضم کیا جاتا ہے، یہی صورت حال بیوی پر ناجائز طور پر بہن کو ترجیح دینے کی بھی ہے جس کے پیچھے وہی ماں اور سماج کے دیگر ٹھیکیدار کارفرما ہیں۔

ظلم اور نا انصافی جس سماج میں کسی درجہ میں بھی قبولیت اختیار کر لے اس سماج کو تباہی سے کوئی قوت نہیں روک سکتی۔ اگر ماں قربانی کی بدولت لائق قدر و منزلت ہے تو ہر وہ بیوی بھی اتنی ہی لائق قدر ہے جو اپنے جیون ساتھی کے لیے قربانیاں دیتی ہے، گو قربانی دینا اور قربانی تھوپنا دو علیحدہ باتیں ہیں جبکہ قربانی پیش کرتے رہنا بھی کوئی صحت مند رویہ نہیں۔ جو سوچ تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ بیوی کو عزت، منصفانہ سماجی حیثیت اور اعتماد دے سکتی ہے وہی عورت کو اس کا جائز مقام دلا سکتی ہے اور یہ صرف عورت کے لیے ہی نہیں مرد اور اس کے بعد معاشرے کے لیے بھی ازحد ضروری ہے ورنہ سماجی ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو ہی نہیں سکتا۔

بیوی کے لیے بیوی سے بڑھ کر کوئی مقام ہے ہی نہیں تاہم سمجھنے کے لیے اسے بہترین، قریبی اور بھروسا مند دوست کا مقام دیا جانا اس کا حق تو ہے ہی، یہ معاشرتی نمو کی کلید بھی بنتی ہے جس کی بدولت زندگی، گھرانا اور معاشرہ زبردست درستگی کی جانب گامزن ہونے لگیں گے۔ دو دوستوں میں ایک دوسرے کے لیے دی جانے والی قربانیاں سوائے محبت کے اور کوئی معنی نہیں رکھتیں، انہیں احسان کا بوجھ نہ بنایا جائے گو ساتھی کا احسان بہرحال احسان ہی ہوتا ہے جسے اپنے لیے تسلیم کرنا چاہیے۔

اسی معاشرے کی ایک اور روش بہن اور بیٹی کو قربانی کا پیکر بنانا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ بھائی اور بیٹا کی قربانی جائز نہیں یا وہ کسی اور ہی دنیاء کی مخلوق ہیں؟ پہلے ہی عرض کیا جا چکا کہ قربانی تھوپنا، پیش کرتے رہنا یا اسے مقصد بنا لینا درست نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ اول یہ غیر منطقی ہے تو ساتھ یک طرفہ اور غیر منصفانہ بھی۔ بہن اور بیٹی صرف دستیاب بہترین عطا یہ کی ہی مستحق ہیں کسی غیرمنصفانہ طرز عمل کی نہیں، پوری اسلامی تعلیمات اسی پر دلالت کرتی ہیں لیکن غیر منطقی روایت کا سہارا لے کر ان کو اس کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے جس کی جو ابدی ہی بہرطور اگلے جہان میں بھی ہے۔ اگر ہم بہترین زندگیاں بہنوں اور بیٹیوں کو دیں تو یہی چراغ دیگر کی زندگیاں روشن کریں گے جس سے پورے سماج کا ڈھرہ ہی تبدیل ہو جائے گا لیکن اس کے برعکس اندھیرے تقسیم ہوتے رہیں گے تو سوائے اندھیروں کے کچھ حاصل نہیں۔

آج یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ اس معاشرے اور اپنی آئندہ نسل کو شاد آباد دیکھنا چاہتے ہیں یا یوں ہی سماج کو انا کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے؟ اگر بہتری چاہتے ہیں تو یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم کسی بھی طور کسی بھی عورت کو اس کے حق سے نہ محروم کریں گے نہ ہونے دیں گے چاہے اس کے لیے ہمیں کھوکھلی روایات کا مقابلہ کرنا پڑے یا کچھ اور۔ بطور انسان بالخصوص مرد یہ ہماری بنیادی ذمہ داری اور ہماری پیدائش کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے اور اس سوچ کی آبیاری تب ہی ہوگی جب ہم عورت کو جنس نہیں انسان سمجھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).