(افسانہ) نیچ ذات


کرم چند کی ماتا جی نے ڈپٹ کر آواز لگائی، اے کر مو کیا بات ہے تیرا دھیان کدھر ہے، دیکھ تو نے سارا گوبر چھوڑ دیا، وہ شاید اس غلطی پر کرم چند کو ایک دھپ بھی لگا دیتی مگر اس کا باپ آڑے آ گیا۔ کرم چند راجھستان کے ایک پسماندہ گاؤں منگل پورہ کے نہایت ہی غریب خاندان کا اکلوتا بچہ تھا۔ اس کے خاندان کا گزر بسر گاؤں کے گوالوں کی گائے بھینس کا گوبر جمع کر کے اپلے بنانے سے ہوتا تھا۔ یہ خاندان رات کے آخری پہر گوالوں کے پیچھے پیچھے چلتا تھا جب وہ اپنی گائے بھینسوں کا ریوڑ چرانے کے لئے لے کر نکلتے تھے۔

ایسے میں جو گائے بھینس گوبر کرتی تھی تو یہ لوگ اسے جھٹ سے اٹھا کر اپنی ٹوکری میں ڈال لیتے تھے، یوں ان کے گھر کا چولہا جلتا تھا۔ یہ رات کا وہ وقت ہوتا تھا جب پورا گاؤں گہری نیند سویا ہوا ہوتا تھا، بس یہ چند لوگ تھے جو زندگی کی سختی، نیند کو تیاگ کر بھگت رہے ہوتے تھے، چاروں طرف اندھیرا اور ہو کا عالم ہوتا تھا، کچی پگ ڈنڈی پر گائے بھینسوں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں ماحول کے سناٹے کو توڑنے کی ناکام کوشش کر رہی ہوتی تھیں، ارد گرد قد آدم گھنی جھاڑیاں ماحول کو بے حد ڈراؤنا اور خطرناک بنا رہی ہوتی تھیں، کیونکہ ان ہی جھاڑیوں سے اچانک نکل کر کبھی کبھی بھوکے جنگلی درندے گائے بھینسوں پر حملہ کر دیا کرتے تھے، اور مویشی بچانے کی کوشش میں گوالے بھی زخمی ہو جاتے تھے۔

یہ ایک بہت ہی ڈرا دینے والا ماحول ہوتا تھا، اور انہیں پانی کے جوہڑ تک پہنچنے کے لئے کافی چلنا پڑتا تھا، اس سفر کے دوران ہلکی ہلکی لالی آسمان پر پھیلنا شروع ہوجاتی تھی اور درختوں پر سوتے پرندے جاگنے لگتے تھے سب سے پہلے چڑیاں بولنا شروع ہوتی تھیں ان کی آواز سن کر مور بھی بولنا شروع ہو جاتے تھے۔ پھر کوے اپنا راگ الاپنا شروع ہو جاتے تھے اور پھر بھانت بھانت کے پرندوں کی آوازوں سے ماحول جیسے جی اٹھتا تھا، ہلکی ہلکی نسیم سحر جنگلی پیڑ پودوں کو جھلا جھلا کر جگانا شروع کر دیتی تھی تو اس خاندان کی جان میں جان آتی تھی، یہ روز اپنی زندگی داؤ پر لگا کر کام پر نکلتے تھے، کیونکہ جنگلی جانور تو ان پر بھی حملہ کر سکتے تھے۔

کرمو کا بھی یہ روز کا معمول تھا کہ وہ اپنی اس غلطی کی وجہ سے ماتا جی سے ڈانٹ کھاتا تھا، اگر ساتھ میں پتا جی نہ ہوتے تو شاید روز مار بھی کھانا پڑتی۔ دراصل کر مو غیر حاضر دماغ بالکل بھی نہ تھا، بلکہ وہ تو انتہائی ذہین اور سمجھدار لڑکا تھا، جو مقامی سرکاری اسکول کے آٹھویں درجہ میں پڑھتا تھا اور نہ صرف اپنی جماعت کا بلکہ پورے اسکول کا سب سے ہونہار طالب علم تھا۔ دراصل وہ جب گھر سے نکلتا تھا تب بھی کوئی نہ کوئی سبق دہراتا ہوتا تھا یا ریاضی کا سوال حل کرتا ہوا نکلتا تھا، جس کی وجہ سے اس کی توجہ گوبر چننے پر زیادہ نہیں ہوتی تھی۔

وقت یونہی گزر رہا تھا کہ دسویں جماعت کا نتیجہ آ گیا، کر مو نے پورے ضلع میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔ یہ خبر راجدھانی (اسٹیٹ) کے راجہ یعنی ہزہائنس ٹھاکر امراؤ سنگھ جی کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ انہوں نے فور1ً ہی کر مو اور اس کے ماتا پتا کو بلا بھیجا، ہزہائنس ایک نہایت ہی زندہ دل اور اپنی رعایا کا خیال رکھنے والے تھے، ٹھاکر صاحب ایک دراز قد چھریرے بدن اور گھنی تاؤ دار موچھوں والے جاذب نظر شخصیت کے مالک تھے ان کی آواز بھی خوب پاٹ دار تھی، وہ ایک تعزیمی سردار تھے، اور پاؤں میں سونے کا کڑا پہنا کرتے تھے، ان کے بازو بھی عام انسانوں سے لمبے تھے جو اس علاقے میں بھاگوان ہونے کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ کل ملا کر وہ ایک رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔

ہزہائنس اپنے دربار میں براجمان تھے اور خاصے خوشگوار موڈ میں تھے کہ درباری نے آ کر اطلاع دی کہ کرم چند اور اس کے ماتا پتا حاضری کی آ گیا چاہتے ہیں۔ ٹھاکر صاحب نے کہا کہ ہاں بھئی انہیں اندر بلاؤ اور جب وہ تینوں اندر آئے تو دربار میں بیٹھا ہر درباری حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا، ان تینوں کے پیر میں جوتیاں نہ تھیں، کپڑے بھی نہایت ہی بوسیدہ تھے، بال بڑے اور پراگندہ تھے، ٹھاکر صاحب نے نہایت نرمی سے انہیں آگے بڑھ آنے کو کہا، اس دوران وہ ان کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔

تینوں نے ٹھاکر صاحب کو فرشی پرنام کیا، تو ٹھاکر صاحب نے کہا کہ کون لوگ ہو؟ تو کر مو کا پتا بولا حکم آپ کی پرجا ہیں۔ ٹھاکر صاحب نے پھر پوچھا کون ذات ہو بھئی؟ تو اس نے جواب دیا کہ حکم دلت ہیں، اس جواب پر سارا دربار ہلکی ہلکی سرگوشیوں سے گونجنے لگا، جسے ٹھاکر صاحب نے درشتگی کی ایک ہونکار سے دوبارہ خاموشی میں بدل دیا۔ کہنے لگے کہ بھئی تمہارا پتر تو بہت سیانا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم کے لئے اس کی سرکاری سہائتا کی جائے، یعنی اب سے اس کے تمام تعلیمی اخراجات سرکار بھرے گی، تم نے بس اتنا کرنا ہے کہ اسے خوب پڑھنے دینا ہے، کوئی محنت مشقت اس سے نہیں لینی۔

ٹھاکر صاحب نے محسوس کیا کہ کر مو کا پتا کچھ پریشان لگ رہا ہے، پوچھا کیا بات ہے تمہیں کچھ چنتا ہے کیا؟ تو وہ ہاتھ جوڑ کر نیچی نگاہیں کیا چپ کھڑا رہا، جب ٹھاکر صاحب نے دوبارہ نرمی سے پوچھا تو بولا کہ حکم جان کی امان پاؤں تو عرض کروں، ٹھاکر صاحب نے کہا کہ بولو کیا بات ہے، تو وہ بولا کہ حکم ہم بہت ہی گریب لوگ ہیں اگر یہ کام نہیں کرے گا تو ہمارے پریوار کا ریڑو کیسے چلے گا، ہم تو بھوکوں مر جاویں گے۔ ٹھاکر صاحب نے کہا کہ بھئی تمہارے پریوار کے لئے بھی ماہانہ باندھ دیں گے، مگر تم اس بچے کو پڑھنے دو بس، یہ ہمارا حکم ہے۔ کر مو کے ماتا پتا ایک دم گڑگڑانے لگے جیسی حکم کی مرضی۔ اس کے بعد وہ فرشی پرنام کرتے ہوئے دربار سے نکل گئے۔

کچھ سمے اور بیتا تو کر مو نے پورے ملک میں بارہویں درجہ میں سب سے بھاری سنکھیا میں نمبر بٹورے تھے، ٹھاکر صاحب آج بہت خوش تھے کر مو اور اس کے پریوار کو دوبارہ بلایا گیا، کر مو کو خلعت و جواہر سے نوازا گیا ماتا پتا کو بھی انعام دیے گئے۔ اس سمے ٹھاکر صاحب نے اعلان کیا کہ ہم کر مو کو ولایت اعلی تعلیم کے لئے بھیج رہے ہیں، ماتا پتا ایک بار پھر خاموش تھے ہزہائنس نے پوچھا کہ بھئی اب کیا چنتا ہے؟ تو کر مو کا پتا بولا کہ حکم اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں، کام نہیں ہوتا، اور کوئی دوسرا ہے بھی نہیں جو میرا ہاتھ بٹائے، جس پر ہزہائنس نے کہا کہ ٹھیک ہے تمہارے پریوار کا پورا خرچ ہم اٹھائیں گے مگر تم اس لڑکے کو ولایت شکشا کے لئے جانے دو ۔ کر مو کے ماتا پتا نے ہاتھ جوڑ دیے اور ٹھاکر صاحب کی جے جے کار کرتے ہوئے چلے گئے۔

کرم چند ولایت چلا گیا، سات سال بعد وہ واپس گاؤں آیا تو بالکل ہی بدلا ہوا تھا، لمبا قد، چھریرا بدن، سانولا رنگ، پتلی پتلی چمکیلی مونچھیں، بہترین تراشیدہ بال، ولائتی کپڑے، چمکدار جوتے، وہ تو کسی غیر ملک کا بڑا صاحب لگ رہا تھا، یوں تو اس نے قانون میں ڈگری حاصل کی تھی مگر ساتھ ساتھ مالی امور میں بھی خاص تعلیم حاصل کر کے آیا تھا، وہ پرنام کرنے ہزہائنس کے دربار پہنچا تو ہزہائنس نے اسے بہت شاباشی دی، اور اپنی کابینہ میں قانون کا منتری بھی بنا دیا، اب کر مو کا جیون بالکل بدل چکا تھا، اچھا گھر، عزت، اچھا کھانا پینا، نوکر چاکر۔

کرمو نے بڑے چاؤ سے ریاست کے کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا، ساتھ ساتھ وہ دوسرے امور پر بھی نگاہ رکھتا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے کچھ مالیاتی معاملات میں ہزہائنس کی ایسی سہائتا کی کہ ہزہائنس نے اسے مالیات کا منتری بھی بنا دیا۔ اب کرم داد کی زندگی اور آسان و خوشگوار ہو گئی تھی۔ جیسا کہ راجہ مہاراجہ کا طریقہ ہوتا ہے وہ اپنے لوگوں پر نظر رکھتے ہیں تو ہزہائنس نے بھی ایک مخبر کر مو پر بھی لگایا ہوا تھا، ایک دن وہ مخبر ہزہائنس کو اپنی کارگزاری سنا رہا تھا کہ اس نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا کہ حکم اگر ناراض نہ ہوں تو دل میں ایک بات کئی سالوں سے دبی ہے عرض کردوں، ورنہ لگتا کہ اگر آپ کو نہ بتائی تو پچھتاوا ہو گا، ٹھاکر صاحب کی دبیز بھنویں ایک دم کھنچ گئیں وہ پوری توجہ سے مخبر کی طرف متوجہ ہو گئے، اور کہا!

کہو کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ، حکم جس دن سے میں کرم صاحب کے گھر کام پر گیا ہوں اس دن سے ان کی ایک حرکت میرے لئے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ہزہائنس جم کر بیٹھ گئے اور پوچھا وہ کیا؟ تو کرمچاری بولا کہ حکم کرم سر رات کے آخری پہر گھر سے اکیلے جانے کہاں نکل جاتے ہیں، اس وقت وہ کپڑے بھی بہت ہی معمولی پہنے ہوتے ہیں اور پیدل ہی جاتے ہیں نہ کوئی محافظ ساتھ ہوتا ہے نہ سواری۔

ہزہائنس کی تیوریوں پر بل پڑ گئے انہوں نے ڈپٹ کر کہا کہ کہاں جاتا ہے؟ کرمچاری بولا حکم یہ تو نہیں معلوم، میں نے کبھی ان کا پیچھا نہیں کیا کہ کہیں آپ ناراض نہ ہوجائیں۔ تو ہزہائنس نے کہا کہ جاؤ اور بہت احتیاط سے معاملہ کیا ہے جانکاری جلد سے جلد مجھ تک پہنچاؤ۔ یہ سن کر کرمچاری وہاں سے چلا گیا اور چند دن کے بعد دربار میں لوٹ آیا، مگر وہ بہت پریشان لگ رہا تھا۔ ٹھاکر صاحب کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کچھ نہ کہہ سکا تو ٹھاکر صاحب نے دربار میں موجود تمام لوگوں کو وہاں سے چلے جانے کو کہا اور پھر اپنے مخبر سے کہا کہ اب بتاؤ کیا بات ہے، اور جو بات اس نے ٹھاکر صاحب کو بتائی اسے سن کر ٹھاکر صاحب اپنے تخت سے نیچے اتر آئے وہ شدید غصے میں لگ رہے تھے ان کی تاؤ لگی مونچھیں پھڑک رہی تھیں، کرمچاری نے اس سے پہلے ٹھاکر صاحب کو اتنا پریشان و غصے میں نہیں دیکھا تھا، وہ ڈر کے مارے بالکل ہی سن ہو کر رہ گیا تھا۔

ہزہائنس نے اپنا چہرہ جب اس کی جانب کیا تو وہ کانپ کر رہ گیا، ان کی بڑی بڑی لال لال آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں اور چہرہ تنا ہوا تھا اور لہجے میں عجیب سی غراہٹ تھی، وہ بولے کہ یاد رکھنا اگر یہ بات غلط ہوئی تو تمہاری موت پکی سمجھو، وہ کرمچاری لرز کر رہ گیا، سر جھکا کر بولا حکم میں سات جنم بھی لے لوں تو آپ سے جھوٹ بولنے کا پاپ اپنے سر نہیں لے سکتا۔ ہزہائنس نے گویا یہ جملہ سنا ہی نہیں، بس زور سے تالی بجائی جو اس بات کی علامت تھی کے باہر گئے درباری واپس آجائیں۔ جب سب لوگ دربار میں آ گئے تو ہزہائنس نے کہا کہ کل صبح عدالت لگے گی شہر کے تمام معزز ین کو بھی بلا لیا جائے اور ہاں کرم چند کو بھی سمن جاری کر دیا جائے۔

اگلے روز دربار میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، دو کٹہرے لگائے گئے تھے، ایک میں مخبر کرمچاری دوسرے میں کرم چند کھڑے تھے، ٹھاکر صاحب نے کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا، اور کرمچاری کو پہلے بیان دینے کو کہا، کرمچاری نے گیتا پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا، اور اس کے بعد اس نے جو کچھ بھی کہا وہ ایسا تھا کہ پورے دربار کو لگا جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کرمچاری نے کہا کہ میں کئی سالوں سے کرم چند جی کے گھر پر کام کرتا ہوں، ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ کرم چند جی رات کے آخری پہر نہایت خاموشی سے سادہ لباس میں پیدل اپنے گھر سے نکلتے ہیں کچھ دور جاکر وہ جنگل والی پگ ڈنڈی پر ہو لیتے ہیں، وہ کچھ اور آگے جاکر جھاڑیوں سے ایک ٹوکری اٹھا لیتے ہیں، اور چلنا شروع کر دیتے ہیں، جلد ہی وہ ان گوالوں کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں جو اپنی گائے بھینسیں چرانے نکلتے ہیں، یہ ان سے فاصلہ بنا کر پیچھے پیچھے چلنا شروع کر دیتے ہیں، اور جو گائے، بھینس گوبر کرتی ہے اسے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر ٹوکری میں جمع کرتے رہتے ہیں، جو انہوں نے سر پر اٹھائی ہوتی ہے۔

اس کے بعد جب ٹوکری بھر جاتی ہے تو اسے ایک طرف الٹ دیتے ہیں اور ٹوکری کو واپس اسی مخصوص جھاڑی میں چھپا کر واپس اپنے گھر آ جاتے ہیں۔ یہ سن کر ہزہائنس نے نہایت ہی درشتگی سے کہا کہ اے کرمچاری اگر تیری بات غلط ثابت ہوئی تو یہ تیرا آخری دن ہو گا اور سچ نکلی تو کرم چند کا آخری دن ہو گا۔ اب باری تھی کرم چند کی وہ ایک خاص سج دھج سے دربار میں آتا تھا، کالا ولائتی سوٹ، چمکدار ولائتی جوتے، سلیقہ سے سنورے ہوئے بال، باریک ترشی ہوئی مونچھیں اسے پورے دربار میں نمایاں بنا دیا کرتی تھیں۔

وہ آواز لگنے کے بعد بھی کافی دیر تک سر جھکائے کھڑے رہا، اس کے بعد اس نے کہنا شروع کیا کہ حکم ولایت جانے سے پہلے تک میں یہی کام مسلسل کرتا رہا، حالانکہ آپ نے میرا وظیفہ باندھ دیا تھا اور میرے ماتا پتا کو پابند بھی کیا تھا کہ اب یہ کام وہ مجھ سے نہ کرائیں، مگر ان لوگوں نے اپنی روش نہ بدلی اور مجھے ساتھ لے کر ہی جایا کرتے تھے، جس کی وجہ سے یہ عادت بہت پکی ہو گئی بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہو گا کہ میری نفسیات کا حصہ بن گئی اور میں اس کا قیدی بن کر رہ گیا چاہ کر بھی اس سے پیچھا نہ چھڑا پایا، مجھے گوبر اٹھانے میں سکون ملتا ہے۔

اب اگر میں یہ گوبر جمع نہ کروں تو عجیب سی بے چینی رہتی ہے اور شدید ذہنی دباؤ رہتا ہے، گویا یہ ایک قسم کا نشہ ہے جس کا میں عادی ہوں، اس لئے مجبوراً میں یہ سب کرنے پر مجبور ہوں، ہزہائنس غصہ سے چیخ اٹھے، ٹھیک ہے تو پھر کل تم کو سرعام گاگرہ چوک پر لٹکا دیا جائے گا، کرم چند یک دم کٹہرے نکل کر ہزہائنس کے قدموں میں گر پڑا اور التجا کرنے لگا کہ اس کی جان بخش دی جائے، ہزہائنس نے اسٹیٹ کے کوتوال کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا، کوتوال نے کہا کہ ہزہائنس آپ کا فیصلہ بالکل درست ہے مگر اسے موت کی بجائے ایسی سزا دی جائے جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی مثال بن جائے تو بہتر ہو سکتا ہے، آگے جیسی حکم کی مرضی۔

ہزہائنس نے کہا تو چلو ٹھیک ہے، آج سے کرم چند اسٹیٹ کے مویشی باڑوں میں صفائی کا کام کرے گا، نہ یہ دودھ کو ہاتھ لگائے گا اور نہ کسی اور اسٹیٹ میں جاکر ملازمت کرے گا بس جانوروں کا گوبر اٹھائے گا اور صفائی کرے گا۔ اگر اس نے بھاگنے کی کوشش کی یا کہیں اور نوکری کی کوشش کی تو ، وہ لمحہ بھر کو رکے اور پھر یوں بولے تو یقیناً چوک پر لٹکا دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments