ضلع لسبیلہ کی انتظامی تقسیم پر فتوحات


ضلع لسبیلہ کی تقسیم کے معاملے پر تبصرے گزشتہ دنوں سے سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان کی جانب سے بلائے گئے تحصیل اوتھل میں جرگہ میں تقریر کے بعد زیادہ منظر عام پر آنے لگے ہیں بالخصوص جب انہوں نے ضلع لسبیلہ میں عوامی مفاد کی خاطر انتظامی تقسیم کے لیے جہدوجہد کرنے والے صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح محمد بھوتانی کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے تلخ خیالات کا اظہار کیا۔ جبکہ وہ خود بھی اب اس بات سے اچھی طرح واقف ہو گئے ہیں کہ کچھ بڑے وثوق کے فیصلے ہوتے ہیں استحکام کے ساتھ وہ بھی طے شدہ اس میں کسی کے ہاتھ میں تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا بطور فن خطاب سے ہی وقت پاس کیا جاسکتا ہے۔

گہرائی سے سوچیں تو سمجھ میں آئے گا کہ پاکستان میں جہاں چند فیصلوں میں نظام چلانے والوں کا عمل دخل ہو اور وہ لوگ کسی سے سخت نالاں بھی ہوں تو سرپرائز کے طور پر اقتدار لینے سے لے کر اور بہت سارے معاملات میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ بیشک آپ اس صورتحال کو میری رائے کا حصہ نہ سمجھیں جو عام آنکھ نہ دیکھ سکتی ہے نا سمجھ سکتی ہے لیکن ایسا ہی ہے۔

اب ریاست کے اوپر ریاست کا دعویٰ کر کے یا تو پہاڑوں میں چلے جانا چاہیے یا پھر جو آج نہیں تو کل ہونا تھا ( ضلع لسبیلہ کی انتظامی تقسیم) اس فیصلے پر راضی ہو کر جو حصے میں آتا ہے اس پر گزارا کر لینا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان خود ایک ریاست ہے اور لسبیلہ اسی کا حصہ ہے اور اس پر ریاست کا اختیار ہے اور یہ اختیار بھی جام کمال خان کے دادا جام آف لسبیلہ جام غلام قادر نے خود دیا تھا۔ خون ریزی گریبان پکڑنے سے زیادہ ضروری ہے نیا دور ہے نیا روگ ہے نئی سوچ ہونی چاہیے۔

لسبیلہ کو انتظامی طور پر تقسیم کرنا بالخصوص تحصیل حب کو ضلع کا درجہ دینا قانونی، اخلاقی، علاقائی اور آبادی کے حوالے سے ایک اچھی کوشش ہے جس پر صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح محمد بھوتانی کا اہم رول ہے اور یہ محض ایک فرد کا نہیں بلکہ حکومت کا فیصلہ ہے۔ وہی حکومت جس کا جام کمال خان نہ صرف خود وزیراعلی حصہ رہ چکے ہیں بلکہ اس وقت بھی مرکزی صدر ہیں۔ اور اپنے دور میں ان کا موقف بھی یہی تھا لیکن اچانک تبدیل ہونا میں صرف سیاسی انا سمجھتا ہوں باقی کچھ نہیں۔ کیونکہ بحیثیت وزیراعلی وہ دیگر اضلاع میں اس نوعیت کے فیصلے خود بھی کرچکے تھے۔

جہاں تک میری معلومات ہے اعتراضات صرف ایک تحصیل پر ہے۔ جبکہ انتظامی طور پر تقسیم کے تمام تر لوازمات پورے ہیں کاغذی کارروائی بھی ہو چکی ہے جس سے جام صاحب بھی واقف ہیں۔ رہی بات اس معاملے پر اپنے احتجاج ریکارڈ کروانے کے حوالے سے پیش رفت محض تاریخ میں جدوجہد کی خاطر جو لائنز لکھی جائیں گی اس میں شامل ہونا ہے۔ باقی سیاسی ڈائیلاگز معمول کی بات ہے استعفیٰ نہیں دوں گا سے لے کر حب کو ضلع بننے نہیں دوں گا تک۔

اس معاملے پر ماسوائے چند لوگوں کی رائے جو محض جی جی دن کو رات، رات کو دن کہنے والے ذہنی غلام اختلافات کی زد میں ہے۔ لیکن وہ لوگ علاقے کی آبادی کے متعلق معلومات، انتظامی امور کو تقسیم کرنے کے فائدے عام لوگوں کی رسائی کا عمل آسان ہونے کے فائدے روزگار کے مواقع وغیرہ سمجھتے ہیں وہ اس معاملے پر دلائل کے ساتھ بحث کرچکے ہیں رائے دے چکے ہیں اور کافی کچھ لکھ چکے ہیں۔ اب ایسا بھی تو نہیں کہ اسنوکر کلب سے خبر نشر کرنے والے جس کو اپنی گلی کی آبادی کا پتا نہیں یا محلے کے چوراہے پر لوگوں کے آمدورفت دیکھنے والے جن کو صرف شادی بیاہ کی تقریبات میں کام پر رکھا جاتا ہو کی بات پر اتفاق کیا جائے گا۔ تو وقت ضائع کیے بغیر اسی سیاسی گیم کا حصہ نہ بنتے ہوئے بالخصوص وہ فیصلہ جو طے شدہ ہے اس پر دست و گریباں نہیں ہونا چاہیے۔

جہاں تک ضلع لسبیلہ میں لوکل و غیر لوکل کی بات کو اس انتظامی طور پر تقسیم سے منسوب کیا جا رہا ہے تو یہ ایک الگ معاملہ ہے اپنے علاقے کے دفاع کا دار و مدار زیادہ طرح علاقے کے نمائندوں بعد ازاں وہاں کی عوام پر منحصر ہوتا ہے اس بات سے اختلاف نہیں کہ اس مسئلے کا حل کسی بھی صورت ضروری ہے ورنہ تقسیم جتنی ممکن کی جائے اگر غیر لوکلز کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو لسبیلہ کے ازلی باشندے اقلیت میں ہوں گے اور سیاسی حوالے سے موجودہ سارے رہنما آئندہ پندرہ بیس سالوں کے بعد سابق شمار ہوں گے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ عمل عوام سے زیادہ رہنماؤں کے لیے تکلیف کا باعث ہو گا۔ اور جہاں تک علاقے کا درد والا جو فارمولا ہے یہ ضرور اثر کرتا اگر ( پرنس، پیر، نواب زادہ، یا سالہ ) کے وقت بھی یہی تاثر رہتا جو ابھی دکھایا جا رہا ہے۔ البتہ رعایا کا وقت ختم ہو چکا ہے اب عوام کا دور ہے رویوں میں تبدیلی لازمی ہے ورنہ تاریخ سب کے سامنے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments