عدالت ہے یا عداوت؟


عدالت میں بے انصافی اب سے نہیں یہ اس وقت سے شروع ہوا جب ایک منتخب وزیراعظم اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے کے ساتھ 1977 میں جو ظلم ہوا وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ایک ایسے وزیر اعظم جس کی وجہ سے پاکستان دنیا میں ایک ملک کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ 73 کے آئین پاکستان کو ایک زبردست تحفہ دیا بھٹو کی قربانیاں پاکستان کے لیے کسی سے پوشیدہ نہیں۔

10 اور 11 نومبر 1974 کی درمیان رات کو احمد رضا قصوری اپنے والد نواب محمد احمد خان، والدہ اور خالہ کے ساتھ شادمان کالونی میں سید شبیر حسین شاہ کے ہاں شادی میں شرکت کرنے کے بعد کار میں شاہ جمال کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک گول چکر کے قریب ان کی کار پر فائرنگ شروع ہو گئی اور اس کے باپ کے سر پر گولی لگ گئی اور فوت ہو گئے۔ جب ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا تو بھٹو کو سامنے سے دور کرنے کے لیے یہ مقدمہ دوبارہ زندہ کر کے 41 گواہان پیش کر کے جو زبردستی سے لائے گئے تھے مقدمہ چلایا اور اس کو پھانسی دے دی گئی۔

یہ پاکستان کا وتیرہ ہے کہ جب بھی کوئی جمہوریت کی بات کرتے ہیں یا پاکستان کے آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو اچانک سارے سیاست دان، عوام، میڈیا، اس کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب بھٹو کو گرفتار کیا تو اچانک ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ ہر کسی نے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ یہ قاتل، دغا باز، خائن، اور شیطان ہے۔ اب وہ اخباری بیانات نشری تقاریر اور انٹرویو میں بھٹو پر کڑی تنقید اور ان کی تعریض و تنقیص کرنے لگے ان کی شہ پاکر رائٹسٹ صحافیوں اور دائیں بازو کے پریس نے بھٹو کے خلاف پروپیگنڈا کی توپوں کے دہانے کھول دیے اگر چہ حکومت اور عدلیہ کی طرف سے لاکھ دعویٰ کیا گیا کہ بھٹو کیس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہر باشعور صاحب قلم عوام کے مزاج سے آشنا صحافی اور باضمیر انسان جانتے تھے کہ بھٹو کیس اس کی سزا اور پھانسی میں سیاست کا عنصر شامل تھا۔

ہاں جب بھی عدالت چاہے کوئی بھی جیل میں ڈال سکتا ہے اور باہر کر سکتا ہے لیکن اس کے بھی اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے منتخب ایم این اے علی وزیر بے گناہ پندرہ مہینے سے جیل میں قید ہیں اور اس کا ضمانت بھی ہوا ہے لیکن کیوں رہا نہیں کرتے یہ تو ہر کسی کو معلوم ہے۔ اور ایک اور ساتھی خینف پشین، اویس ابدال بے گناہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے پیشی پہ پیشی لیکن نتیجہ کچھ نہیں کیا وجہ ہے؟

ایک اور ساتھی قاضی طاہر محسود کئی سال سے عدالت میں پیش ہوا۔ اور اب صرف احتجاج کرنے پر عمر بھر قید کی سزا دی گئی ہے۔ احتجاج پی ٹی ایم کے کارکنوں سے سیکھیں جو ابھی تک ایک پھول کو نہیں توڑا۔ مقدمہ یہ تھا کہ اس نے کراچی میں پر امن طریقے سے احتجاج کیا تھا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس احتجاج میں وہ شریک بھی نہیں تھا وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تھا لیکن اندھے کی لاٹھی بے کیا کرے۔

اور علی وزیر پر مقدمہ پی پی پی نے بنایا ہے کچھ دن پہلے ایک سیاسی نابالغ بلاول نے کہا کہ یہ میرے بس میں نہیں ہے میرے ایم پی اے اور ایم این اے بھی جیل میں ہیں وہ رہا نہیں کر سکتا علی کو کیسے رہا کروں گا۔ اس کے جواب میں منظور پشتین نے کہا کہ آپ کے ساتھی تو چوری کرنے پر نیب نے پکڑے ہیں۔ لیکن علی وزیر پر مقدمہ آپ کے ساتھی نے بنایا ہے آپ کو قانونی اختیار ہے کہ یہ مقدمہ واپس کردے لیکن نہیں کر سکتے کیونکہ پھر کوئی طاقتور ناراض ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments