عمران خان کے بعد


خرید و فروخت کا بازار گرم ہے۔ وفاداریاں مال تجارت کی طرح بک رہی ہیں، لوگ قول و قرار سے ایسے پھر رہے ہیں جیسے زبانیں ان کی اپنی نہ ہوں بلکہ کسی نے زبردستی منہ میں ٹھونس دی ہوں۔ وہ حادثہ جو گزشتہ ساڑھے تین برس سے چپکے چپکے پرورش پا رہا تھا اب گبھرو جوان ہو کر دارالخلافہ کے آنگن میں آن کھڑا ہوا ہے۔ دور تک ساتھ چلنے کا وعدہ کرنے والے ہواؤں کے رخ کے ساتھ قلابازیاں کھا رہے ہیں۔ ظل سبحانی ایسے تنہا ہوئے ہیں کہ اب ان کی بھی ”کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔“

عام دنیا کا دستور تو یہ ہے کہ تاریخ کے مطالعے سے اخذ کیے جانے والے قاعدے اور اصول لازمی اور جبری نہیں ہوتے کہ ہر جگہ بہر صورت نافذ ہوں گے ہی ہوں گے۔ خاص طور پر گزشتہ دو صدیوں کی محیر العقول انسانی پیش رفت کے بعد تو کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا، اب تو زمین و آسمان ہی بدلے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ نوح ہراری کا پرزور اصرار ہے کہ نئی دنیا کو ماضی کے ضابطوں سے جانچنا چھوڑ دو ، مگر ہمارے ہاں ابھی تک زندگی ایک خاص نکتے پر اٹکی ہوئی ہے۔ یہاں تاریخ جبری اور لازمی تسلسل کے ساتھ بار بار خود کو دہرا رہی ہے اور ممکن ہے کہ آئندہ طویل عرصے تک بھی اس میں کوئی خاص تبدیلی نہ آنے پائے۔

پاکستان کی گزشتہ سیاسی تاریخ (جس کا ایک بڑا حصہ تو مارشل لا کی جکڑ بندیوں میں گزرا ہے ) میں کوئی بھی وزیراعظم ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی ہو۔ اس تاریخی استقرا کا لازمی تقاضا یہی ہے کہ اب کی بار بھی ایسا ہی ہو۔ اور یقیناً ایسا ہی ہو گا اور ہم سب چاہتے بھی یہی ہیں۔ اس کا جانا تو ٹھہر سا گیا ہے : عشیۃ او ضحاھا۔ صبح نہ سہی تو شام سہی۔ اب بھی بچتا ہے تو یہ معجزہ نہ سہی کرامت تو ضرور ہو گی۔ اس لیے کہ مادی و فطری اسباب کے فقدان کے باوجود وقوع پذیر ہونے والے واقعے کو کرامت ہی کہتے ہیں اور ہمارے ہاں بقائے اقتدار کے فطری اسباب جن کے اشارۂ ابرو سے بندھے ہیں وہ اب طوطا چشمی کرنے لگے ہیں۔

ٹھیک ہے مان لیا کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کے حلیف جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ انہوں نے اس جنگ میں حریف کے خلاف کوئی ”غیر جمہوری حربہ“ استعمال نہیں کیا۔ الحرب خدعۃ، جنگ چالوں، حربوں اور دھوکے کا نام ہے۔ کیا میں آصف علی زرداری سے اتنی اصول پسندی کی توقع رکھوں؟ کیا شہباز شریف کو قائد اعظم ثانی کہوں؟ بظاہر کوئی اساسی نوعیت کا انقلاب بھی تو نہیں آیا۔ جہاں اقتدار کی بندر بانٹ میں خفیہ ہاتھ جھٹکنے والوں کو ریوڑیاں بھی نہ ملیں کیا وہاں یہ کسی کی دست بوسی کیے بغیر ”مشرف بہ ضیا“ ہونے جا رہے ہیں۔ ؟

اور اگر یہ بھی ایک غیر جمہوری حربہ ہے تو پھر اسے کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہم عطار کے اسی لڑکے سے دوائیاں کیوں لیتے پھر رہے ہیں جو ساری بیماریوں کی جڑ ہے؟ اگر مقصود آئین اور جمہوریت کی بالادستی ہے تو یہ اوچھے ہتھکنڈے چہ معنی؟ پھر تو وہ اپنے ڈیڑھ برس پورے کرے تاکہ اس پر اتمام حجت ہو جائے اور یہ عذر نہ رہے کہ مطلوبہ تبدیلی کی راہ میں کوئی ”لٹیرا“ آڑے آ گیا تھا۔ سب سے بڑی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی اس کے مغرب مخالف بیانات پر تنقید کر رہے ہیں، جن کی ساری سیاست ہی مغربی سازشوں سے تحفظ کے مفروضے کے گرد گھومتی ہے۔ ایک ایسے مرحلے پر جب دنیا میں واضح دو دھڑے بن چکے ہیں اور عمران خان کا روسی بلاک کی طرف جھکاؤ بھی نمایاں ہے، ہم اس امر کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے کہ یہ عدم اعتماد کی ڈور ”کہیں اور“ ہی سے نہ ہل رہی ہو۔

سوال یہ ہے کہ کیا جانے والے کے جانے سے ہماری قحط زدہ عوامی امنگوں پر ساون کا بادل برسنے لگے گا؟ یا کیا ہماری فلاکت اور ہلاکت کی سیاہ رات نوروز کی صبح میں بدل جائے گی؟ کیا غیر جمہوری طریقوں سے اقتدار کے انتقال کا وہ تسلسل رک جائے گا جو ہمارے لیے راس الامراض اور ام الخبائث کی حیثیت اختیار کر چکا ہے؟ یہی ٹولے جو آج کپتان کو بیچ صحرا میں تشنہ کام چھوڑنے والے ہیں انہیں ”توبۃ النصوح“ کی توفیق تھوڑی ہو ہے۔ یہ تو ”ابن الوقت“ ہیں، کل پھر ایسا ہی کریں گے۔ کنویں کو پاک کرنے کے لیے سو ڈول پانی تو نکالا جا رہا ہے مگر مرا ہوا کتا ابھی تک اندر پڑا ہے۔

مجھے نواز شریف کی معزولی کا دن اور اس سے پچھلے آٹھ دس مہینے بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ ہماری بیزاری اپنی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ چور چور اور نا اہل نا اہل کے نعروں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں اور سماج، دونوں کی فضا مکدر ہو چکی تھی۔ ہمیں نواز شریف کے جانے کی اتنی جلدی تھی کہ گویا اس کے جانے سے ہی عیدالفطر کا چاند طلوع ہو گا۔ بالآخر وہ ”مجھے کیوں نکالا؟“ کا شور مچاتا اور واویلا کرتا ہوا چلا گیا، بھنگڑے ڈالے گئے اور مٹھائیاں بانٹی گئیں، ہم نے اتنا جشن منایا کہ ناچ ناچ کے تلوے پھٹ گئے۔ پھر کیا ہوا؟ یہی کہ وہ مٹھائیاں ہماری آخری شیرینی اور وہ جشن ہماری آخری مسرت ثابت ہوا۔ اس سے اب تک جو ہوا وہ تلخ کامی اور نوحہ خوانی کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ کون ضمانت دے سکتا ہے کہ اب کی بار ایسا نہیں ہو گا؟

خلیل جبران نے کہا تھا کہ اس قوم پر بڑا ہی افسوس ہے جو پچھلے حکمران کے جانے پر شکر کے سجدے ادا کرے اور نئے کا ڈھول باجوں سے استقبال کرے۔ ہم ابھی سجدۂ شکر کے لیے وضو کر رہے ہیں، پھر جشن کے لیے آنگن سجائیں گے۔ میرے منہ میں خاک کہیں عمران خان کے بعد یہ جبین نیاز پھر سے داغ دار نہ ہو جائے، کہیں آنگن ٹیڑھا ہی نہ نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments