بوسنیا اور یوکرینی پولیس افسران


میں نے بوسنیا کے امن مشن میں ایک پولیس افسر کے طور پر جون 1996 تا مئی 1997 شرکت کی۔ اس بڑے عرصے میں بوسنیا کی جنگ کے پس منظر اور اس کے اثرات کی تمام پہلوؤں سے جانکاری حاصل ہوئی۔ اس دور کی یادداشتوں کو میں نے ”سب ورق تری یاد کے“ کے عنوان سے تحریر کیا۔ 2005 میں ان کی کتاب کی صورت اشاعت ہوئی۔

میری تعیناتی سٹولک نامی سٹیشن پہ رہی جو موسطار کے تاریخی شہر سے تقریباً تیس کلو میٹر کے فاصلے پہ واقع تھا۔ ہماری نفری میں امریکہ، مغربی و مشرقی یورپ، انڈو پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے دو دو یا چار افسران شامل تھے۔ ہمارا کام مقامی پولیس کی نگرانی تھا کہ وہ اپنا کام درست انداز میں بین الاقوامی معیاروں اور ڈیٹن معاہدہ امن کے مطابق کرے۔

آج کل کی خبروں میں یوکرین کا نمایاں ذکر ان دو یوکر ینی ساتھیوں کی یاد آوری کا باعث ہوا جو ہمارے سٹیشن پر تعینات تھے۔ آئیے دیکھتے کہ ”سب ورق تری یاد کے“ میں ان کا ذکر کس انداز میں ہوا۔

” انہی دنوں دو یوکرینی ساتھی کرنی ولاڈی سلاؤ اور ڈشکو زنووی نیوے سینیا سے تبدیل ہو کر ہمارے سٹیشن میں تعینات ہوئے۔ ذنووی کرنل کے عہدے کا ایک سینئر پولیس افسر تھا جبکہ ولاڈی سلاؤ سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا اور سروس بھی زیادہ نہ تھی۔ وہ براہ راست نیم لفٹین بھرتی ہوا تھا۔ اس کا مزاج دھیما اور رویہ مکمل دوستانہ تھا۔ زنووی پرانا پاپی ہونے کے ناتے ٹیڑھے مزاج کا بندہ تھا۔ امریکیوں اور روسیوں کا سخت مخالف تھا اور متحدہ روس کے کمیونسٹ نظام کا سخت ناقد۔

اس کے خیال میں یوگو سلاویہ اور روس کے ٹوٹنے کا اصل سبب سربوں اور روسیوں کی عددی برتری اور متعصبانہ رویہ تھا جو وہ دوسری قومیتوں کے ساتھ روا رکھتے تھے۔ وہ اکثر ایک لطیفہ سنایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک یوکرینی اور ایک روسی سپاہی اکٹھے جا رہے تھے کی انہیں راستے میں ایک ڈبل روٹی ملی۔ روسی سپاہی نے کہا چلو ہم اسے برادرانہ طور پر تقسیم کر لیتے ہیں۔ یوکرینی سپاہی بولا، نہیں ہم اسے آدھا آدھا کریں گے۔ وہ اکثر پارٹیوں میں ایک یوکرینی حریت پسند کا گیت بھی سنایا کرتا تھا جو روسیوں کے جبر کا نشانہ بنا تھا۔

سٹیشن کمانڈر کرس کا تعلق پولینڈ سے تھا۔ ڈاک خانہ قریب قریب ایک ہونے کی وجہ سے یوکرینی افسران کی اس سے قربت ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ ذنووی کافی بہتر انگریزی بولتا اور لکھتا تھا چنانچہ کرس نے اسے Daily Occurrence Report ( DOR) لکھنے کا فریضہ سونپ دیا۔ یہ رپورٹ پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کا خلاصہ ہوا کرتی تھی، جسے ہیڈ کوارٹر بھیجا جاتا تھا۔ یہ ایسی کاغذی کارروائی تھی جس کی انجام دہی تک کرس کی بے چینی دیدنی ہوتی تھی اگرچہ نیچے سے اوپر تک سب جانتے تھے کہ یہ بس کارروائی ہی ہے۔

ابھی تک کرس کے لیے سب سے مشکل کام اسی ڈی۔ او۔ آر کی تیاری ہوا کرتی تھی۔ اس کی انگریزی بس گزارہ ہی تھی لہذا اسے اس کی تیاری کے لیے اپنے ہم وطن بولک کی معاونت کی ضرورت پڑتی تھی۔ بولک کی انگریزی اگرچہ کرس سے بہتر تھی لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ جب بھی کوئی ایسی رپورٹ تیار کرنے بیٹھتا جو افسران بالا کو جانی ہوتی تھی تو اسے اپنے ہر فقرے میں گرامر اور زبان کی بے شمار غلطیاں دکھائی دینے لگتیں۔ اب وہ ہر فقرے کی نوک پلک سنوارتا اور یوں اس رپورٹ کو حتمی شکل دینے میں کئی گھنٹے صرف کر دیتا۔

کرس اس کی اس عادت سے سخت نالاں تھا۔ روزانہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے بولک پر وہ خوب خوب برستا لیکن بولک کی طبع کو ایسی کوئی بھی رکاوٹ رواں نہ کر پاتی تھی۔ ذنووی کی آمد کے بعد کرس منت کش بولک نہ رہا اور اب اس کی جگہ ذنووی کو کار خاص کا درجہ حاصل ہو گیا۔ ( ہمارے تھانوں میں ایس ایچ او کے ”اعتماد“ والا ملازم کار خاص کہلاتا ہے ) لیکن اب سٹیشن میں ہمارے دن کے خوشگوار آغاز کا مستقل منظر خیال و خواب ہو گیا۔ بولک جس ڈی۔ او۔ آر کو تیار کرنے میں گھنٹے لگاتا تھا ذنووی اسے منٹوں میں مکمل کر لیتا۔ یہ الگ بات کہ بولک اسے ”بہتر“ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی مشورہ دینا ضروری خیال کرتا تھا۔

مشرقی یورپ کے تمام افسران مجموعی طور پر پرلے درجے کے کام چور تھے۔ نیپال کے شیوا کے بقول وہ پھوکٹ کھاتے میں نوے ڈالر یومیہ کما رہے تھے۔ شیوا کی تو کیا بات تھی وہ جب ترنگ میں آتا تھا ( اور یہ کیفیت وہاں کی دیسی بئیر pivo کی تین بوتلیں چڑھانے کے بعد اس پر ضرور طاری ہو جاتی تھی) تو اسے یو این کا پورا نظام ہی پھوکٹ کھاتہ دکھائی دیتا تھا۔ لیکن یہ ایک حقیقت تھی کی پولش، ہنگیرین، بلغارین اور اب یوکرینی افسروں کی ساری دلچسپی بس اس میں تھی کہ وہ گشت کے بہانے ایک گاڑی حاصل کریں اور پھر سارا دن یوں لور لور پھریں کہ انہیں چراغ رخ زیبا لے کر بھی ڈھونڈھ نکالنا آسان نہ ہو۔

ہمارے فرائض کا ایک تقاضا یہ تھا کہ ہر شفٹ میں ایک گشتی ٹیم ڈیوٹی کے آغاز اور اختتام کے وقت مقامی پولیس سٹیشن کا دورہ کرے اور حوالات کا معائنہ کر کے یہ دیکھے کہ وہاں کسی ایسے شخص کو تو بند نہیں کیا گیا جس کے خلاف کوئی مقدمہ نہ ہو۔ مقامی پولیس اس تعاون کے لیے تیار نہ تھی۔ گورے پولیس افسران ڈیٹن معاہدہ امن کی اس شق پر عمل کچھ ایسا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ گوروں کے مقابلے میں اردو مافیا ( پاکستانی، انڈین اور نیپالی پولیس افسران کو گوروں کی طرف سے دیا گیا نام) کاغذ کا پیٹ ہر حال میں بھرنے کی اپنی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے سٹیشن اگر نہ بھی جائیں تو کسی طور ڈیوٹی افسر کا نام معلوم کر کے اور رپورٹ میں اس سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے یہ تاثر دیتے تھے کہ انہوں نے مقامی تھانے اور اس کی حوالات کا دورہ کیا اور ”سب اچھا“ پایا۔

ہمارے ساتھیوں میں ذنووی کا گشت نامہ سب سے طویل ہوتا تھا۔ ذنووی کے گشت نامے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ صورتحال کو کتنا ہی پرامن بیان کرے اس کے مقطع میں یہ سخن گسترانہ بات ضرور شامل ہوتی تھی کہ صورتحال پر امن سہی لیکن کشیدگی اپنی جگہ قائم ہے۔ ذنووی کے اس مخصوص اختتامی جملے کے حوالے سے جب اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا کہ راوی آخر مکمل چین کیوں نہیں لکھتا تو وہ مسکراتے ہوئے جواب دیتا کہ میرے نوے ڈالر یومیہ کو اگر کسی چیز سے خطرہ ہے تو وہ بوسنیا کا مکمل امن ہی ہے۔ مجھے بوسنیا کے امن کے مقابلے میں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر زیادہ ہے جو یوکرین جیسے نو آزاد اور کمزور معیشت والے ملک میں کچھ ایسا محفوظ نہیں ہے۔ لہٰذا برائے مہر بانی بوسنیا کے امن کے حوالے سے مجھ سے اس جذباتیت کی توقع نہ رکھی جائے جس کا مظاہرہ آپ کو امریکی اور مغربی یورپی افسران کے ہاں ملتا ہے ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments