ریا ست مدینہ کے ”روحانی باپ“ سڑک پہ بیٹھے ہیں


آج پانچ دن ہو گئے پنجاب بھر سے سینکڑوں کی تعداد میں اکٹھے ہوئے اساتذہ اپنے حال و مستقبل بلکہ اپنے بچوں کی مستقبل کی جنگ سول سیکرٹریٹ کے سامنے بیٹھے لڑ رہے ہیں۔ استاد جس کو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے۔ جو اپنے ہی نہیں ہم سب کے بچوں کا مستقبل بھی ہیں۔ ان کا مطالبہ کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ حکومتی کی طرف سے اگر ان کی جانب کوئی آیا ہے تو وہ پولیس ہے۔ جن سے بات ہو نہیں سکتے۔ باقی سب شاید لونگ مارچ، عورت مارچ اور تحریک عدم اعتماد میں مصروف ہیں۔

ان اساتذہ کا مسئلہ کوئی بہت بڑا ہے بھی نہیں۔ یہ کیس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے جیت کے آئے ہیں۔ صرف اس پہ عمل درآمد ہو نا ہے۔ ایک سرکاری نوٹس جاری ہونا ہے۔

یہ وہ استاد ہیں جن کو حکومت پنجاب نے کانٹریکٹ پہ بھرتی کیا تھا۔ اور ان کی نوکریاں دو ہزار بارہ سے اب تک کونٹریکٹ پہ ہی چل رہی ہیں۔ اب اس میں ترقی یہ ہوئی ہے کہ ان کو دی جانے والی سرکاری سہولیات و مراعات واپس لی جا رہی ہیں۔ ان کی تنخواہ اور نوکری محفوظ نہیں ہیں۔ جیسے جیسے ایک استاد سینئر ہو تا ہے ویسے ویسے اس کی تنخواہ کی کٹوتی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔

ان کی ماہانہ تنخواہوں سے پندرہ سے بیس ہزار ماہانہ کٹوتی ہو رہی ہے۔ یہ استاد اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لئے نہیں نکلے ہوئے۔ اپنی موجودہ تنخواہوں اور نوکری کو بچانے کے لئے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

دنیا میں شاید ہی ایسا کہیں ہوا ہو کہ کسی کی ترقی کا معیار کٹوتی ہو گا۔ اور کسی قوم کے معمار سڑک پہ اپنے مطالبے لئے بیٹھے ہوں گے۔ اور سننے والا کوئی نہیں ہو۔

استاد اس غیر محفوظ دور میں اپنے اور اپنی نسلوں کے لئے باہر سڑک پہ موجود ہیں۔ بس ڈاکٹرز کی طرح ابھی انہوں سے کام کرنا نہیں چھوڑا۔ کلاسیں بند نہیں کروائیں یا وکیلوں کی طرح توڑ پھوڑ نہیں کی۔

اگر ایسا کچھ ہو گیا تو اس کی ذمہ داری بھی حکومت وقت کے ناتواں کاندھوں پہ ہو گی۔ کیونکہ کلاسیں نہ لینا ان کا اگلا قدم ہو گا۔ جو وہ بتا چکے ہیں۔

حکومت کو یہ بات سوچ لینی چاہیے طلبا جب میدان میں نکل آئیں تو فیصلے نا گزیر ہو جاتے ہیں۔ لیکن حالات بھی ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں۔

لہذا صرف ایک فیصلہ جو ان کے پاس موجود ہے۔ اس پہ عمل درآمد کا نوٹس جاری کر نا ہے۔ اس طرف تو جہ دیں۔ ورنہ حکمران اس بات کے لئے تیار رہیں کہ ان کے ایک اشارے پہ ایک نئی جماعت حکومت مخالف جماعتوں سے جا ملی تو تیسری جماعت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے گی۔

اور تیسری جماعت ہمیشہ دشمن کی جماعت ہوتی ہے۔ حالات کو اس رخ جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔

ملک میں یہ انارکی نہ ہی پھیلے تو اچھا ہے۔ تاریخ کو دہرانے سے روک لیں۔ جنہوں نے یہ نو ٹس جاری کر نا ہے۔ ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کون سی حکومت آئے کون سی جائے۔ ان کی نوکری چلتی رہے گی۔ ان کے گھر کی روٹی چلتی رہے گی۔ ان کا صرف تبادلہ ہو گا۔

لہذا ان کو سیاست کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنی اس نوکری پہ تو جہ دینی چاہیے جس کی بدولت ان کے گھر چل رہے ہیں۔ اس دھرنے میں پورے پنجاب سے خواتین و مرد اساتذہ شامل ہیں۔ لیکن سیکرٹریٹ سے اس جانب کوئی دروازہ نہیں کھل رہا۔

قصہ مختصر
یہ استاد قوم کے روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان سے آ کر ان کی بات تو سن لیں۔
یہ امن پسند لوگ آپ کو پتھر نہیں ماریں گے۔ نہ ہی ان کے پاس انڈے ٹماٹر خریدنے کے پیسے بچے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments