کیا عمران خان کو تبدیل کرنے سے قسمت بدلے گی؟


ان دنوں ملکی سیاست میں کافی ہلچل دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے باہمی مشاورت کے بعد حکومت کے خلاف آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو ملکی سیاست میں کئی ماہ کی غیر یقینی صورتحال کے بعد جمع کروایا گیا۔ یا اسے ایسے کہا جا سکتا ہے کہ آصف علی زرداری کو ایک بار پھر میدان میں اتارا گیا ہے۔ اب کی بار عمران خان شاید اسی وجہ سے زیادہ غصہ دکھا رہا ہے کیونکہ سینیٹ چیئرمین بنوانے اور اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروانے میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے اور سید یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹر منتخب کروانے کے معاملے میں بھی سابق صدر آصف علی زرداری کامیاب رہے۔

کچھ بھی کہیں، اب کی بار دونوں اطراف (حکومت اور اپوزیشن) سے اپنی اپنی کامیابی کے دعوے اور کوششیں جاری ہیں۔ کہنے کو تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت ناراض پارٹی اراکین کے خلاف کارروائی کرے گی اور سپیکر رکنیت سے فارغ بھی کر سکتا ہے۔ اگرچہ فی الحال میں میرا مقصد یہ بحث کرنا نہیں تو بھی معلومات کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت حکومتی پارٹی کے ارکان کی تعداد میں سے اگر دس ارکان کی رکنیت پارٹی پالیسی کے تحت منسوخ کردی جائے تو کیا حکومت قائم رہ سکے گی یا وزیراعظم اپنا منصب برقرار رکھ سکیں گے؟

دوسری جانب اگر اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے منصب سے اتارنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں تو کیا ملک میں خوشحالی آئے گی؟ غریب کو انصاف مل پائے گا؟ عام آدمی کی قسمت تبدیل ہوگی؟ ہرگز نہیں! وفاقی دارالحکومت میں تو یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ بعض حلقے گزشتہ کئی ہفتوں سے عبوری حکومت کے قیام کے لیے بعض راہنماؤں سے رابطے کر رہے ہیں۔ اگر ان افواہوں کو سچ مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ دراصل وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے راہیں ہموار کی گئیں۔

یہی کچھ سابقہ ادوار میں ہوا، بے نظیر بھٹو شہید کے دو مرتبہ اور نواز شریف تین بار ایسی منصوبہ بندیوں کا شکار ہوئے۔ پچھلے الیکشن کے بعد اسی کام کے لئے عمران خان کو تیار کیا گیا اور اب وہی کام عمران خان کے خلاف ہونے جا رہا ہے۔ ایسے میں اقتدار کی تبدیلی کے فیصلے کو عوام کی منشاء قرار دینا سراسر فریب ہے۔ نہ تو مہنگائی کم ہوگی اور نہ ہی آئندہ قائم ہونے والی حکومت خود مختار ہوگی۔ گزشتہ ستر سالوں سے عوام کے نام پر ڈھونگ رچایا جا رہا ہے مگر عوام کی حالت زار دن بدن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

جمہوریت تو محض فریب اور دھوکہ ہے، عوام کے نام پر ذاتی مفادات یا رنجش، عناد۔ ملک اس وقت بیرونی قرضوں اور امداد پر چل رہا ہے اور ایسے میں نئے الیکشن کے اخراجات کا بوجھ۔ جو لوگ اس وقت ملک میں مہنگائی اور عوام کے دکھ درد کا راگ الاپ رہے ہیں انہوں نے ابھی تک کسی پریس کانفرنس میں مہنگائی کم کرنے اور غریب کو روزگار فراہم کرنے کا کوئی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا۔ تیل کی قیمتوں اور ڈالر کی ریس لگی ہوئی ہے، جبکہ مارکیٹ میں مندی کا رجحان ہے۔

بین الاقوامی حالات ہمارے کنٹرول میں نہیں، بچی کھچی بین الاقوامی تجارت کا ہم ویسے ہی جنازہ نکالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ملک کے بیشتر ڈیمز، موٹروے اور بیشتر پراجیکٹس پہلے ہی گروی رکھ چکے ہیں اور جو رہ گئے ان پر چین کا قبضہ ہے، اور چین جن شرائط پر کام کرتا ہے اس سے دنیا واقف ہے مگر ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ سری لنکا اور افریقی ممالک کے ساتھ چین کے تجربات سے سبق نہیں سیکھا۔ ہمسایہ ملک تو ویسے ہی ہمارا دشمن ہے اور جو ممالک کچھ تھوڑی بہت امداد یا معاونت کرتے تھے انہیں ہم بلاوجہ آنکھیں دکھاتے ہیں۔ جو لوگ سفارتکاری کے آداب پر بیرونی ممالک کے سفیروں کو طعنے مارتے ہیں وہ سرعام منصب کے آداب پر درس دینا بھول جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ سیکھا ہے ہم نے گزشتہ سات دہائیوں میں اور یہی ہماری قسمت میں ہے۔ کہیں دور یہ شک بھی ہے کہ اس بار پھر کھیل رچا کر مذموم مقاصد کا حصول تو نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments