تحریک عدم اعتماد کے خلاف عمران خان کی سٹریٹیجی


ایک دوپہر کو امریکہ اور اتحادیوں کی بدترین بمباریوں کے بعد مرحوم صدام حسین اچانک بغداد شہر میں کھجوروں کی جھنڈ کے قریب نمودار ہوا اپنے مخصوص انداز میں مکا دکھا دکھا کر اپنے شہریوں کا خون گرمایا مختصر تقریر کر کے کہا کہ میں کل مخالفین کے لئے عراقی زمین آگ میں تبدیل کردوں گا۔ میں کل وہ کروں گا جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

اسکی مختصر تقریر ختم ہوئی، تو میں نے کہا کہ یہ کل بھاگے گا۔ جبکہ وہاں موجود اکثریتی دوست میرے تجزیے کے ساتھ متفق نہیں تھے۔ لیکن میرا تجزیہ صحیح نکلا اگلی صبح صدام غائب ہو گیا تھا۔ درحقیقت جس شخص نے صدام بن کر اس دن تقریر کی تھی وہ صدام نہیں اس کا ڈپلیکیٹ تھا۔ اس کی پرفارمنس چیک کرنے کی خاطر اسے عوام کے درمیان لایا گیا تھا جبکہ صدام حسین خود کئی ہفتوں سے نظروں سے اوجھل داڑھی اور سر کے بال بڑھانے میں مصروف تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت بھی یہی کر رہی ہے۔ وہ عدم اعتماد میں شکست کھانے کے لئے تیار اور آنے والی انتخابات کے لئے تیاریوں میں لگی ہوئی ہے۔

کیا آپ نے میلسی میں وزیراعظم صاحب کی ہمہ جہت حملہ اور تقریر نہیں سنی جس میں وہ کسی کو چور کسی کو پالشی کسی کو بیماری اور کسی کو فضلو جیسے بازاری خطابات سے نوازنے کے بعد یورپی یونین کو اپنے جذباتی کارکنوں کے منہ میں دے رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جو وزیراعظم چینی چور آٹا چور دوائی چور اور تیل کے چور کو نہ پکڑ سکا وہ اپنے خلاف عالمی سازش کو پکڑنے کا دعویٰ کرے تو اس پر ایک شدید متاثرہ پی ٹی آئی کارکن کے علاوہ کون یقین کرے گا؟

اس تقریر میں مبتذل خطابات کے علاوہ جو سب سے اہم بات کی گئی وہ یہ ہلا شیری نما دھمکی تھی کہ اگر آپ لوگ عدم اعتماد لاکر اس میں ناکام ہو گئے تو پھر آپ سب جانتے ہیں میں آپ کے ساتھ کیا کروں گا۔ اسے میں ناکامی کی دھمکی سے زیادہ کامیابی کے لئے ہلاشیری سمجھتا ہوں۔ وزیراعظم صاحب کا مطلب تھا کہ دیکھو میں آپ کو نازیبا خطابات بھی دے رہا ہوں اور ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ مجھے ہر حالت میں حکومت سے نکال دیں کیونکہ آپ کی ناکامی کی صورت میں، میں آپ کے ساتھ بہت برا سلوک کرنے والا ہوں۔ تعلیم و تدریس کی اصطلاح میں اسے (مثبت تھپکی) پوزیٹو ری انفورسمنٹ کہتے ہیں۔ یہ ایسی دھمکی ہے جو باپ اپنے لائق بچے کو دیتا ہے کہ اگر تم نے امتحان میں ٹاپ نہیں کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ جس سے لگتا ہے کہ حکومت خود چاہتی ہے کہ حزب اختلاف اسے فارغ کریں۔

ایک دو دفعہ وزیراعظم صاحب نے کہا کہ حکومت کہیں نہیں جاتی مزید مضبوط ہو کر واپس آئے گی۔ اس جملے میں واپس حکومت میں آنے کا پیغام ہے۔

جب سے حزب اختلاف نے لانگ مارچ، عدم اعتماد کی دھمکیاں مذاکرات اور کوششیں شروع کی ہیں ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر حکومت کی نمائندگی کرنے والے لوگ یعنی شیخ رشید، سینیٹر فیصل جاوید، علی محمد خان اور خصوصاً شہباز گل جب بھی وزیراعظم کی بات کرتے ہیں تو وہ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں اور بار بار ان تین الفاظ کی گردان کرتے ہیں۔ جو سننے والوں کے ذہن میں وزیراعظم لفظ کے ساتھ عمران خان اور عمران خان کے ساتھ وزیراعظم کے لفظ کو نتھی کر کے فیڈ کرنا چاہتے ہیں۔

اس کو سائیکالوجی میں ورڈ ایسوسی ایشن کہتے ہیں۔ اسی طرح نواز شریف اور زرداری کے ناموں کے ساتھ یہ سارے لوگ بار بار چور ڈاکو کہہ کر عوام کے ذہنوں میں بٹھا رہے ہیں۔ یہ وہی طریقہ کار ہے جو پی ٹی آئی کو عوام میں مشہور کرنے کے لئے لفظ انصاف کو روزانہ ٹی وی چینلز اخبارات اور عام بات چیت میں بار بار دہرایا جاتا تھا۔ یہ چیف جسٹس چوہدری افتخار سمیت کئی ججوں کو نکالے جانے کا دور تھا۔ مشرف جا رہا تھا لیکن ہر کوئی چیف جسٹس کو انصاف دلانے انصاف کے لئے کوشش کرنے انصاف کے لئے نکلنے والے وکلاء پر بحث کرنے سب سے بڑے انصاف کرنے والے سے نا انصافی ہونے کی دہائی دے رہا تھا۔

بار بار کوئی نام لوگوں کے سامنے لینا ایڈورٹائزمنٹ کا مقبول ترین طریقہ کار ہے۔ یوں انصاف انصاف کی مشق اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کے ذریعے تحریک انصاف کو مارکیٹ کیا گیا۔ آپ خود دیکھ لیں، گھر میں آپ کو نہانے کا صابن لانے کا کہا جائے تو آپ دکاندار سے سیف گارڈ صابن مانگتے ہیں اور گھر والے واشنگ پاؤڈر مانگیں تو آپ سرف خرید کر لاتے ہیں۔

نواز شریف اور زرداری کی بات کی جائے تو اس طریقے سے ذہنی طور پر متاثر کردہ بندہ جواب دیتا ہے کہ آپ پھر چوروں کو لانا چاہتے ہیں جبکہ ان کی چوری کے ثبوت حکومت کے پاس ہیں نہ عدالت میں ثابت ہوئی۔ دوسری طرف وزیراعظم صاحب ذاتی طور پر بہت ایماندار ہے والا جملہ بولنے والا آٹا بجلی تیل چینی مالم جبہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں کیسے کہہ سکتا ہے کہ وزیراعظم صاحب ایمان دار ہے، کیونکہ ایسا بھی ابھی تک ثابت نہیں ہوا۔ ایسے ثبوت عموماً حکومت ختم ہونے کے بعد سامنے لائے جاتے ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ حزب اختلاف والوں کی چوری غیر ثابت شدہ ہے تو وزیراعظم صاحب کی ایمانداری کا ثبوت بھی کسی کے پاس نہیں جب تک اسے عدالتیں تمام الزامات سے بری نہ کر دیں۔

آئی ایم ایف سے معاہدے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود بجٹ تک تیل اور بجلی کی قیمت نہ بڑھانے کا وعدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وزیراعظم کو احساس ہے کہ اس کی حکومت ختم ہونے والی ہے اس لئے ضروری اشیاء صرف کی قیمتیں بجٹ تک کم کر کے نئے انتخابات کی تیاری ہے۔

دوران جنگ روس کا دورہ انہوں نے ”آزاد خارجہ پالیسی“ کا بیانیہ بنانے کے لئے کیا تاکہ الیکشن میں عوام کے پاس جاتے ہوئے اس کے پاس عالمی سازش کی تھیوری ہو۔ یورپی یونین کو جلسے میں دھمکیاں دینا بھی نئے انتخابات کی تیاری کا حصہ ہے کیونکہ وزیراعظم صاحب کو ان حالات میں حکومت کرنے کا کوئی شوق نہیں

پھر جونہی حزب اختلاف کی طرف سے تحریک اعتماد پیش ہوئی تو اپنے ممبران کو اکٹھا کرنے اور ساتھ رکھنے کی بجائے وزیراعظم صاحب نے یوٹیوبروں سے میٹنگ کی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم صاحب الیکشن میں جانا چاہتے ہیں کیونکہ یوٹیوبروں کے ذریعے اپنے ممبران اسمبلی کو متاثر نہیں کیا جاسکتا بلکہ عوام کو ایک نیا بیانیہ دینا ہے جس میں سر فہرست بین الاقوامی سازش اور اسی سازش کی وجہ سے ان کی حکومت کی رخصتی اور ”چور ڈاکووں“ کی حکومت میں واپسی ہے۔

حکومت کی خواہش ہے کہ عدم اعتماد کامیاب ہو جائے کیونکہ ملک بدترین مالی اور انتظامی بحران کا شکار ہے۔ اگر حکومت کے پاس اپنے نمبر پورے ہوتے تو وہ فوراً اسمبلی اجلاس بلا کر عدم اعتماد کا سامنا کرتی۔

یوٹیوبروں سے میٹنگ کر کے انتخابات کے لئے غیرملکی سازش کا بیانیہ بیچنے کی کوشش نہ کرتی۔

اس کے علاوہ حکومت میں مقابلے کی سکت ہوتی تو سندھ سے واؤڈا کی خالی شدہ سینیٹ نشست پر ہونے والی ووٹنگ میں حصہ لیتی بائیکاٹ نہ کرتی۔

اس کے علاوہ وزیراعظم صاحب علیم خان اور جہانگیر ترین کو پنجاب آفر کرتے اور ساتھ رکھتے کیونکہ بزدار کوئی ایسی توپ چیز نہیں کہ اس کے لئے مرکزی حکومت داؤ پر لگا دی جائے۔ بزدار اور محمود خان کی ایک ہی خصوصیت ہے کہ دونوں بے زبان ہیں یوں دونوں صوبوں میں موجود پی ٹی آئی کی حکومت دراصل خان صاحب مرکز سے ان برائے نام وزراء اعلیٰ کے نام پر چلا رہے ہیں۔ اگر خان صاحب پنجاب کو اپنے ناراض گروپ کے حوالے کر دے گا تو ان کے پاس اسلام آباد کے پچیس مربع کلومیٹر کے علاقے کے سوا کیا رہ جائے گا۔

حکومت الیکشن کی تیاری میں مصروف نہ ہوتی تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین انٹرنیٹ ووٹنگ اور ووٹنگ لسٹ الیکشن کمیشن کی بجائے نادرا کے حوالے کرنے کی قانون سازی کیوں کرتی؟

پاکستان میں جمہوریت کے لئے حالات کبھی بھی سازگار نہیں رہے۔ لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ جمہوریت لولی لنگڑی ہو یا کسی حادثے کی صورت میں آئے تو اسے مکمل جمہوریت کی خاطر قبول ہی نہ کی جائے۔ سیاست کی جوہر یہی ہے کہ یہ بدترین حالات میں بہترین کی طرف سفر کو ممکن بناتی ہے۔ سیاست مذاکرات ممکنات آسانیاں اور حقوق حاصل کرنے کے لئے اپنا دروازہ کبھی بند نہیں کرتی بلکہ سیاست کی عمارت میں ایسا کوئی دروازہ ہی نہیں جس پر زنگ شدہ تالا لگا ہو۔

جو لوگ حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک میں غیر جمہوری قوتوں کا ہاتھ کہہ کر رواں جدوجہد پر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں۔ پہلے وہ جن کی روزی غیر سیاسی قوتوں کی بخششوں اور راتب سے چلتی ہے اور دوسرے مایوس آئیڈیلسٹ ہیں جو جمہوریت کو پوری آن بان کے ساتھ لانا چاہتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے اس پیراگراف کے شروع میں لکھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے لئے حالات ہمیشہ سازگار نہیں رہے۔

لیکن سیاسی قوتوں کی موجودہ جدوجہد اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے یا مدد کے لئے نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا دوغلے نظام کا تجربہ فیل ہو چکا ہے۔ اس لئے آج جمہوریت کوایک بار پھر پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔ ویسے تو پیپلز پارٹی نہیں کہتی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ یہ انتقام عوام سے نہیں لی جاتی ان قوتوں سے لی جاتی ہے جو جمہوریت آنے کی وجہ سے دیار غیر میں سسک سسک کر جان دے رہی ہے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments