ستارے ہمیشہ اندھیرے میں ہی چمکتے ہیں
زندگی قوس قزح کے خوبصورت رنگوں کی مانند ہے اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم دھنک کا کون سا رنگ اپنے اردگرد بکھیرتے ہیں یا کس رنگ میں خود کو رنگتے ہیں۔
ہم اپنی سوچ سے اور اپنے وجود سے اپنے اردگرد کے ماحول کو بناتے ہیں۔ اب جس طرح کی شعاعیں ہم میں سے نکلیں گی اسی طرح کا ماحول بنتا جائے گا۔ اگر ہم میں سے مثبت شعاعیں خارج ہوں گی تو ہم سے منسلک سبھی لوگ اس روشنی میں چمکنے لگیں گے۔ اسی طرح نتیجہ اس کے برعکس ہو گا اگر ہم منفی شعاعوں کی طرف جاتے ہیں۔ اب یہ ہماری شخصیت پر منحصر ہے کہ ہم کون سی روشنی بکھیرتے ہیں۔
ارسطو کے بقول: ”مشکلات میں ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ ستارے ہمیشہ اندھیرے میں ہی چمکتے ہیں۔“
ہمارا دین اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ یہ مشکلات ہمارے رب کی طرف سے ہوتی ہیں اور اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کو چنتا ہے جو ان مشکلات کو برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ مشکلات و پریشانیاں ہمیں سبق سکھاتی ہیں ’زمانے کی اونچ نیچ بتاتی ہیں اور ہمیں وقت کے ساتھ نہ صرف مضبوط تر بلکہ کندن بناتی ہیں۔
جب ہم ان مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں یا مختلف ادوار سے گزرتے ہیں تو ہمارے اندر قوت برداشت پیدا ہوتی ہے ’سوچنے سمجھنے اور حالات و واقعات کو پرکھنے کی حس بیدار ہوتی ہے۔ ہمارے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں اور ہم پہلے کی نسبت بہتر فیصلے کرنے کے قابل بنتے ہیں۔ اچھے اور برے کی تمیز سیکھتے ہیں‘ گر کر اٹھنا ’آگے بڑھنا اور اپنے زور بازو پر بھروسا کرنا سیکھتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر ہم اپنے رب کے ’اپنے پیدا کرنے والے خالق کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ہمیں دعا مانگنا سکھاتی ہیں۔ یہ ہمیں اپنے رب کے آگے پیش ہونا سکھاتی ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ہمارا رب کبھی ہمارا برا نہیں چاہ سکتا اور اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کیونکہ ہمارا علم محدود ہے ہمیں اپنے اچھے برے کا ادراک نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک ماں اپنی اولاد سے کتنا پیار کرتی ہے۔ وہ ماں جس کے دل میں اللہ تعالی نے اپنی اولاد کے لئے محبت ڈالی ہے اور وہ اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتی ہے تو سوچیں کہ اللہ تعالی ماں کی محبت سے ستر گناہ زیادہ محبت اپنی تخلیق کردہ مخلوق سے کرتا ہے۔
یہ مشکلات ’مصائب اور پریشانیاں زندگی کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں اس میں رنگ بھرتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو زندگی یکسانیت کا شکار ہو جائے۔ ہمیں اللہ اور اس کی رحمتوں سے دور کر دے۔
لہذا ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا چاہیے اور اپنے دیکھنے کا زاویہ درست کرنا چاہیے۔ اگر مسائل کو ہم خود پر حاوی کر لیں گے تو ہماری سوچنے کی صلاحیت ختم یا کم ہو جائے گی اور مسائل جیت جائیں گے۔ ہم نے اپنی قوت ارادی اور سوچ کے ذریعے ان مسائل کو شکست دینی ہے اس لئے اپنی سوچ پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم کامیاب ہو سکیں اور بہتر زندگی گزار سکیں۔
ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے حالات بدلنا تو چاہتے ہیں لیکن کیسے بدلنا ہے یہ ہم معلوم نہیں کر پاتے۔ ہم اپنی زندگی مین آسائشیں تو چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے محنت کا راستہ نہیں چنتے۔ ہم بڑے بڑے خواب تو دیکھتے ہیں لیکن ان تک پہنچنے کے لئے لائحہ عمل تیار نہیں کرتے۔ ہم سفر شروع تو کر لیتے ہیں لیکن ہمیں منزل کا معلوم نہیں ہوتا ’اسی طرح دشوار راستوں اور مصیبتوں سے گھبرا کر راستہ بدل لیتے ہیں یا بد دل اور مایوس ہو کر سفر ہی ترک کر دیتے ہیں حتٰی کہ منزل کو پانے کے خواب کو ہی ترک کر کے حسرتوں کا محل تعمیر کر لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ کامیاب لوگوں سے حسد کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کامیابی کے پیچھے ان کی محنت اور جدوجہد کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں وہ رات و رات کامیابی کی منزل کو نہیں پہنچ جاتے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ انھوں نے اس راہ میں کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کیا ہو۔ ان میں اور ناکام لوگوں میں فرق صرف سوچ کا ہوتا ہے یہ ہماری سوچ ہی ہے جو ہمیں عمل پر اکساتی ہے اور ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔
کامیاب ہونے والے لوگ جب مشکلات میں گھرتے ہیں تو اس کا حل تلاش کرتے ہیں۔ اپنی مضبوط قوت ارادی کی بدولت اپنے فیصلے پر ڈٹے رہتے ہیں۔ ناکامیوں کے باوجود ہار نہیں مانتے بلکہ یہ سوچتے ہیں کہ کہاں کوتاہی ہوئی اور کیسے اس مشکل سے نکلا جا سکتا ہے اور منزل تک پہنچنے کے راستے کو ہموار کیا جا سکتا ہے۔ اپنی منزل کو نہیں بلکہ اپنے لائحہ عمل کو تبدیل کرتے ہیں۔ بقول تھامسن ایڈسن ”جو پلان نہیں کرتا اس کو کبھی موقع نہیں ملتا“
آنے والے وقت پر گہری نظر رکھنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت نوح علیہ اسلام نے جب کشتی بنائی تھی تب سیلاب کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ ہمیں سوچ سمجھ کر ہر طرح کے حالات کا جائزہ لے کر آگے بڑھنا چاہیے اور پلان بی بھی تیار رکھنا چاہیے تاکہ بوکھلاہٹ سے بچا جا سکے۔
مقصد حیات کو جاننا سب سے بڑی کامیابی ہے پھر اس کو پانے کی تگ و دو کرنا ’کبھی بھی کسی بھی حالت میں مایوس نہ ہونا اللہ پر یقین کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں محنت اس طرح کرنی چاہیے کہ ہم ناموافق حالات کو اپنے لئے موافق بنا سکیں۔ اپنے لئے خود مواقع پیدا کر سکیں۔ خود پر اور اپنی صلاحیتوں پر قوی یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہی کامیابی کی اصل کنجی ہے۔ کیونکہ جب ہم اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرتے ہیں تبھی ہم ناممکنات کو ممکن بنا دیتے ہیں۔
ناکامی کا خوف دل سے نکال دیں۔ ہم سب میں کوئی نہ کوئی خامی ہوتی ہے لیکن اس سے بڑھ کر خوبیاں ہوتی ہیں۔ لہذا اپنی خوبیوں ’صلاحیتوں اور قابلیت پر اعتماد کریں ان کو وقت کے ساتھ بڑھائیں اور اپنی خامیوں یا کمزوریوں کو اپنی طاقت میں بدل دیں پھر دیکھیں کہ کیسے کامیابی خود آپ کے قدموں کو چھو لے گی۔
بقول اقبال: نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
ایک اور جگہ فرماتے ہیں ”
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
- ہمارا عمل ہمارے الفاظ سے زیادہ گونج دار ہونا چاہیے - 19/05/2025
- اپنے دیکھنے کا زاویہ اور عدسہ درست کرنا ضروری ہے - 19/04/2025
- دھنک کا آٹھواں رنگ - 08/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).