ہماری تاریخ کا بے رحم منصف


کم لوگ ہوں گے جو نوشتہ دیوار دیکھ سکیں!
اس سے بھی کم لوگ ہوں گے جو نوشتہ دیوار پڑھ سکیں!

اور اس سے بھی کم لوگ ہوں گے کہ جو نوشتہ دیوار پڑھ کر اس کا برملا، بر جستہ، اور بے خوف اظہار کر سکیں!

جرات، بہادری اور ثابت قدمی کی اس داستان کا ہیرو بھی درحقیقت ایک ایسا سرفروش تھا جس نے دیوار پر لکھا ہوا نہ صرف پڑھا، اسے محسوس کیا اور پھر پوری قوت اور دیانت داری کے ساتھ دلوں کو چھو لینے والے اشعار میں اسے ڈھالا اور یوں ہماری قومی زندگی کا وہ باب رقم ہوا جس کی قبولیت، پذیرائی اور اہمیت کی نظیر مشکل سے ہی ملے گی۔

عوام کے مسائل پر، عوام کے درمیان رہ کر، عوامی لہجے میں، عوام کی ترجمانی کا حق، جس طرح ادا ہونا چاہیے، حق تو یہ ہے، اسے اسی طرح ادا کیا۔ مگر یہ سب اس قدر سہل اور سادہ نہ تھا، کیوں کہ حق گوئی اور بے باکی کی یہ داستان تب لکھی گئی :

جب دوسرے، اپنے آپ میں گم، ذاتی خوش حالی کی تدبیروں کے تعاقب میں تھے اور وہ اپنے آپ سے بے خبر، بد حالوں کی تقدیریں بدلنے کے لئے برسر پیکار تھا۔

جب دوسرے، سچ اور حق کے استعاروں کے استعمال پر قانع ہو چکے تھے اور وہ آزادی اور انصاف کے لئے بڑھ چڑھ کر میدان عمل میں سینہ چاک تھا۔

جب دوسرے، مراعات کی آرزو اور جستجو میں سجدہ ریز تھے اور وہ محروم طبقے کے حقوق کے لئے اذان دے رہا تھا۔

جب دوسرے، دربار کی قطار میں دست بستہ حاضری لگوانے کے لئے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دھکم پیل میں شامل تھے اور وہ عوام کی بھیڑ میں عوام کا ہم آواز ہو کر ریاستی جبر سے الجھ رہا تھا۔

جب دوسرے، دل کی خواہشات کے سامنے، ذہن کے فیصلوں سے دست بردار ہو رہے تھے اور وہ دل اور ذہن کی رفاقت میں اپنے سچے یقین کے ساتھ، مسلسل پیش قدمی پر ڈٹا ہوا تھا۔

اسی لگن اور سچائی کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ اب یہ اعزاز بھی اسی کا مقدر ہے کہ عصر حاضر کا وہ شاعر جس کی شاعری کو عوامی سطح پر بار بار سنا گیا، سنایا گیا، دہرایا گیا، گایا گیا، ایک سے دوسرے تک پہنچایا گیا اور جگہ جگہ پھیلایا گیا اور۔ یہ سارا عمل کسی سطحی اور طے شدہ منصوبہ بندی سے نہیں بلکہ ان اشعار میں موجود حالات کی حقیقت پسندانہ عکاسی، معاشرے کے چبھتے مسائل کی نشاندہی اور بہتر مستقبل کی امید کے ساتھ خود بہ خود متحرک ہوا۔

مخصوص عرصے تک، جسے، مخصوص طبقہ فکر کا نمائندہ سمجھا جاتا رہا، گزرتے وقت کے ساتھ، اس کے جرات مندانہ عمل اور بے باکانہ اظہار سے یہ حقیقت سب پر ظاہر ہوتی چلی گئی کہ اس کا خواب وہی تھا جو عوام کا خواب تھا، بہتر زندگی کا خواب تھا، اظہار آزادی کا خواب تھا، خوش حالی کا خواب تھا، بیداری کا خواب تھا، برابری کا خواب تھا، رواداری کا خواب تھا! سو، کون ذی ہوش ہو گا جو اس منزل کی تعبیر کا آرزو مند نہ ہو۔ اب، اگر ہر کوئی، اس کے تخلیق کردہ الفاظ اور اس میں چھپی، سچائی کا اتنا ہی معترف ہے، تو اسے بجا طور پر کلام، لہجے، اور اظہار کی جاذبیت اور تڑپ کا جادو ہی کہا جاسکتا ہے۔

پیش نظر حالات واقعات کی منظر کشی ایسی، کہ، عہد کوئی سا ہو، اس نے خود سے کیا، یہ عہد ہمیشہ نبھایا کہ مجھے جو دکھائی دے گا، میرا قلم اسی کی گواہی (اور دہائی) دے گا خواہ اس راہ میں کتنی ہی آزمائشیں، مشکلات اور مصائب منتظر ہوں۔ ان مراحل سے گزرنے کا حوصلہ، اس احساس اور یقین کا نتیجہ تھا کہ مرے ہاتھ میں قلم ہے، مرے ذہن میں اجالا، مجھے کیا دبا سکے گا، کوئی ظلمتوں کا پالا۔ یوں ہماری تاریخ کے ہر آزمائشی موڑ پر اس کی للکار نے بے بس عوام کے دلی جذبات کی حقیقی ترجمانی کی۔ بلاشبہ، ظلم اور نا انصافی کے خلاف، اب اس کے یہ الفاظ ہماری سماجی زندگی کے تکیہ کلام کی صورت اختیار کر چکے ہیں، جسے گزرے زمانوں میں بھی اپنایا گیا اور آنے والے ادوار میں بھی اس کی گونج باقی رہے گی : میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا!

اس نے، انسانی حق کی مخالف قوتوں کو نہ ماننے اور ان کے سامنے نہ جھکنے کی جو تلقین اوروں کو کی، خود بھی اس پر دل و جان سے عمل کیا اور جب جب موقع آیا، اس نے کسی دباؤ میں نہ آ کر، پوری آزادی سے اپنے الفاظ اور خیال کا انتخاب کر کے، بار بار ( اور ہر بار ) یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ واقعی خود بھی، غلامی کے آداب سے ( یکسر ) ناواقف تھا۔ اس نے ہر جبر کے آگے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، نوشتہ دیوار سے، بہ بانگ دہل خبردار کیا، گماں ہے تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے، یقیں مجھ کو، کہ منزل کھو رہے ہو۔

جب تک اس معاشرے میں وہ اجالا نہیں پھیلے گا، اس دھرتی پر بسنے والوں کو اس کی بہادری، قربانی اور بہتری کے خواب میں لپٹے، حبیب جالب کے تابندہ لفظوں کی یاد آتی رہے گی :

وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments