قرارداد مقاصد: لیاقت علی خان کے دور میں یہ ’مقدس‘ دستاویز کن حالات میں منظور ہوئی

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


لیاقت علی خان
وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس قرارداد کا مسودہ برصغیر میں مسلمانوں کی نئی آزاد ریاست پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا
پاکستان کی سرکاری دستاویزات میں ایک دستاویز ایسی بھی ہے جسے ’مقدس‘ ہونے کا درجہ حاصل ہے جسے قرارداد مقاصد کہتے ہیں۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949 کو قرارداد مقاصد منظور کی تو اس پر ایک تبصرہ زبان زدِ عام ہوا:

‘ریاست کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی، اس کی اطاعت اب فرض عین ہے’۔

یہ جملہ مولانا مودودی سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی حوالہ دستیاب نہیں۔ معاشروں میں بعض اوقات کچھ ایسی باتیں بھی معروف ہو جاتی ہیں جن کی ذمہ داری کوئی لیتا نہیں یا اس کے کہنے والے کی کبھی خبر بھی نہیں ملتی۔

آواز خلق اور نقارہ خدا شاید ایسی ہی باتوں کے لیے کہا جاتا ہو۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن قرارداد مقاصد کے بارے میں یہ خیال اتنا بے بنیاد بھی نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس تبصرے کی جڑیں ملتی ہیں۔

سنہ 1949 کے اوائل میں حکومت نے مولانا مودودی کو گرفتار کر لیا تھا۔ جماعت اسلامی نے اس موقع پر ایک پمفلٹ شائع کیا۔ اس پمفلٹ میں قرارداد مقاصد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ:

‘قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جب ہماری ریاست اپنی دستوری زبان سے اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے اور ریاست کا پبلک لا جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے اصولوں پر مبنی ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اور ریاست کا کام یہ ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق منظم کریں تو اس قرارداد کے بعد یہ ریاست اصولاً ایک اسلامی ریاست بن چکی ہے اور اس کے بعد وہ دستوری رکاوٹیں از خود ختم ہو چکی ہیں جو سابق کافرانہ نظام میں شریعت کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی تھیں’۔

اس اعلان کے بعد جماعت نے پانچ ایسے اقدامات کی نشان دہی کی جن کی قرارداد مقاصد کی منظوری سے قبل اجازت نہ تھی لیکن اب یہ جائز ہو چکے تھے۔ ان معاملات میں سرکاری ملازمتوں کا حصول اور فیصلوں کے لیے عدالتوں سے رجوع جائز قرار پائے۔

انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہو گئی۔ مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا کہ وہ اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتیں ریاست کو مضبوط بنانے میں صرف کردیں۔ جماعت اسلامی نے اپنے لیے قرار دیا کہ اب ریاست کے ساتھ اس کا تعلق وفاداری کا ہے اور عدم تعاون کا رویہ ختم ہو گیا ہے۔

پاکستان میں ایک مکتب فکر کے لیے اس درجے اہمیت رکھنے والی قرارداد کی بیناد کیسے پڑی، اس کی تفصیلات طویل ہیں۔ البتہ اس تصور کو دستاویز کی صورت دینے کی ابتدا سات مارچ 1949 کو ہوئی جب وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اس قرارداد کا مسودہ برصغیر میں مسلمانوں کی نئی آزاد ریاست پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا۔

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ:

1- چوںکہ اللہ تبارک تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا، وہ ایک مقدس امانت ہے۔

2- چوںکہ پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہوریت، آزادی، مساوات، روداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائے گا۔

3- جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں۔

4- جس میں قرار واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔

قرارداد کے دیگر نکات میں پاکستان میں شامل علاقوں کے اشتراک سے ایک وفاق کے قیام، بنیادی حقوق کی فراہمی کی ضمانت، اقلیتوں اور پست طبقات کے جائز طبقات کا تحفظ اور عدلیہ کی آزادی سمیت دیگر حقوق کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا ہے۔

اس قرارداد کی منظوری کیوں ضروری تھی، اس کے مقاصد کیا تھے اور اس کی منظوری کے بعد نو آزاد مسلم ریاست میں بسنے والے عوام کی زندگی میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی، وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ان سوالوں کا جواب اپنی اُس تقریر میں دیا جو انھوں نے اس قرارداد کو ایوان میں پیش کرتے وقت کی۔

انھوں نے ایوان کو بتایا کہ یہ قرارداد چھ نکات پر مشتمل ہے یعنی:

1- جمہوریت

2- آزادی

3- مساوات

4- رواداری اور برداشت

5- سماجی انصاف۔۔۔۔۔ اور

6- ان قوانین پر اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل درآمد

اس روز پیش ہونے والی قرارداد کے بارے میں یہ پہلی گفتگو تھی لیکن وزیر اعظم کو اس کے باوجود احساس تھا کہ اس پر کیا اعتراضات ہو سکتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ کسی جانب سے کوئی اعتراض آنے سے پہلے ہی انھوں نے پیشگی ان کے سامنے بند باندھنے کی شعوری کوشش کی۔

اپنی تقریر کے پہلے حصے میں انھوں نے جمہوریت کے اسلامی تصور کی وضاحت کی اور بتایا کہ اسلام رنگ، نسل اور کسی مذہب کے امتیاز کے بغیر ریاست کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اسلام نے مساوات کی قابل رشک مثال قائم کی ہے، قرون وسطیٰ میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

اس سلسلے میں انھوں نے چند مثالیں پیش کیں۔ انھوں نے کہا کہ عیسائی منحرفین اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالا جاتا، جانوروں کی طرح ہانکا جاتا اور مجرموں کی طرح جلا دیا جاتا۔ اس کے برعکس اسلام میں مجرموں کو بھی نہیں جلایا جاتا۔ اسی طرح انھوں نے ایک مثال یہودیوں کی پیش کی جس کے مطابق جب یورپ میں یہودیوں کا ناطقہ بند کر دیا گیا تو یہ صرف (مسلمانوں کی) سلطنت عثمانیہ ہی تھی جس نے انھیں پناہ دی۔

انھوں نے واضح کیا کہ ہم ایک لبرل حکومت کی تشکیل چاہتے ہیں جو اپنے عوام کو ایک ہاتھ سے حقوق دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس نہیں لے گی۔

یہ حکومت نہ صرف مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق یقینی بنائے گی بلکہ غیر مسلموں کو بھی اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے اور اپنی ثقافتی روایات کو پروان چڑھانے کی آزادی دے گی۔ ملائیت کا کوئی تصور نہیں ہو گا۔

حریت فکر کی آزادی ہو گی۔ دولت کی مساویانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا اور غیر مسلموں کے پرسنل لا کو تحفظ حاصل ہو گا۔ یہ سب اس لیے ہو گا کہ ایسا نہ کرنا مطالبہ پاکستان کے تصور اور اسلامی تعلیمات کی نفی ہو گی۔

وزیر اعظم کی تقریر کے بعد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان نیشنل کانگریس پارٹی کے رکن پریم ہری برما نے اپنی تقریر میں اس قراداد کو مسترد کیا اور تجویز کیا کہ رائے عامہ سے آگاہی کے لیے اسے مشتہر کر دیا جائے۔

٭٭٭٭پریم ہری برما کی تقریر میں ایک نکتہ شامل ہے جس کی بازگشت کہیں اور سنائی نہیں دیتی۔ وہ نکتہ ہے انڈیا کی دستوریہ سے منظور ہونے والی قرارداد مقاصد۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا میں ایسی قرارداد کی منظوری یوں ضروری تھی کہ وہاں انگریز ابھی موجود ہیں۔

اس لیے انھیں اپنے عوام اور دنیا کو بتانا تھا کہ ان کا آئین کیسا ہوگا۔ ہمارا معاملہ مختلف ہے۔ اس لیے ہمیں کسی قرارداد کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے تجویز کیا کہ مساوات، سماجی انصاف اور جمہوریت کے تین ابدی اصولوں کی بنیاد پر ہمیں اپنا دستور بنا لینا چاہیے۔ انھوں نے مذہب اور سیاست کو باہم خلط ملط کرنا نامناسب قرار دیا اور کہا:

‘قائد اعظم نے بھی یہی اصول ورثے میں چھوڑے ہیں’۔

یہ دو تقاریر ایسی تھیں جن کا تعلق اس بات سے تھا کہ یہ قرارداد بحث کے لیے منظور ہو سکتی ہے یا نہیں۔ پریم ہری برما کے بعد وزیر اعظم نے جوابی تقریر کی۔ اس کے بعد قرارداد کو بحث کے لیے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ یون قرارداد پر باقاعدہ بحث کا آغاز ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

اقلیتوں کا پاکستان: ’مذہب ذات یا نسل سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں‘

’جناح نے خود ہی دو قومی نظریہ ختم کر دیا تھا‘

پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو کس نے قتل کروایا؟

پاکستان کے پہلے وزیر قانون جنھوں نے اپنے آخری ایام انڈیا کی جھگیوں میں گزارے

بحث میں اقلیتی ارکان بھوپندر کمار دتا، پروفیسر راج کمار چکرورتی، کانسی کمار دتا اور برات چنڈل مںڈل نے حصہ لیا۔ اس طرح قرارداد میں تبدیلی کے لیے چند نکات مرتب ہو گئے۔

ان نکات کے مطابق تجویز کیا گیا تھا کہ قرارداد سے پوری کائنات پر اللہ کی حاکمیت اور اس قسم کے دیگر اسلامی تصورات حذف کر دیے جائیں۔

اس موقع پر جو نکات زیر بحث آئے، ان میں غیر مسلم نمائندوں کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ اسلام عرب کا دین ہے، خطے سے اس کا تعلق نہیں۔ ایک دلیل میں ترکی کا حوالہ دیا گیا کہ یہ ایک طاقتور مسلم ملک ہے لیکن اس ملک میں بھی مذہب کو آئین کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

بانی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ انھوں نے ہی ایک سیکیولر ریاست کا وعدہ کیا تھا اس لیے ملک کے آئین کی بنیاد جمہوریت اور معیشت کے مسلمہ اصولوں پر رکھی جائے۔ کہا گیا ’ہم وزیر اعظم کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک سنگین غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘

اس کے جواب میں مسلم لیگ کے کئی اہم نمائندوں کی طرف سے تقاریر ہوئیں۔ ان میں مولانا شبیر احمد عثمانی، سردار عبد الرب نشتر اور سر ظفر اللہ خان کی تقاریر کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ ایسی تقاریر تھیں جن کی وجہ سے دستور ساز اسمبلی کا ماحول تبدیل ہو گیا اور قرارداد آسانی سے منظور ہو گئی، یہاں تک کہ غیر مسلم وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

سوال یہ ہے قیام پاکستان کے ٹھیک اٹھارہ ماہ کے بعد ایسی کیا ضرورت پڑی تھی کہ ایسی قرارداد منظور کی جاتی؟

اس سوال کا ایک جواب وزیر اعظم لیاقت علی خان کی تقریر فراہم کرتی ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ آئین کی تشکیل کے لیے اس کے بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے ضروری ہے۔ دوسرا جواب پریم ہری برما کی تقریر سے ملتا ہے۔ اس تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل انڈیا نے بھی قرارداد مقاصد منظور کی تھی جس میں سوشلزم اور جمہوریت کو آئین کی بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

اس کی تیسری وجہ اس مضمون میں دکھائی دیتی ہے جو اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ الطاف حسن قریشی نے بانی پاکستان کے ساتھی سردار عبد الرب نشتر کی وفات پر لکھا۔ اس مضمون میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ قرارداد پیش کرتے وقت وزیراعظم لیاقت علی خان اپنے ہی ساتھیوں کے دباؤ کا شکار تھے۔ الطاف حسن قریشی نے مسلم لیگ کے ان راہنماؤں کی نشان دہی نہیں کی کہ وہ کون تھے۔ یہی سوال میں نے ان سے کیا جس پر ان کا کہنا تھا:

‘دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جن کا تعلق مسلم لیگ کی جدوجہد سے نہیں تھا اور پاکستان بنتا دیکھ کر آخری مرحلے پر مسلم لیگ کا حصہ بنے۔ ان میں فیروز خان نون اور خان عبد القیوم خان جیسے راہنما شامل تھے۔ دوسرا طبقہ مغربی تعلیم یافتہ راہنماؤں پر مشتمل تھا۔ اس طبقے کی قیادت میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور ان کے ہم خیال راہنما کر رہے تھے۔’

مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والا یہ طبقہ کیا دلائل رکھتا تھا، اس کی ایک جھلک میاں طفیل محمد کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ‘مشاہدات’ میں ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی قیادت کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اگر پاکستان کو اسلامی بنایا گیا تو انڈیا میں رام راج قائم کر دیا جائے گا۔

ایک استدلال یہ تھا کہ اسلامی سزائیں مناسب نہیں ہیں۔ اُن کے مطابق ایک استدلال یہ بھی اختیار کیا گیا کہ رجعت پسندانہ نظام اختیار کیا گیا تو پاکستان کا دنیا کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنا مشکل ہو جائے گا۔

قرارداد مقاصد کے ضمن میں بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی کی سرگرمیاں اس وقت نظر آتی ہیں جب انھیں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی نظام کے موضوع پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا گیا۔

ان لیکچروں کی دعوت انھیں یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دستور ساز اسمبلی کے رکن ڈاکٹر عمر حیات نے دی تھی۔ مولانا مودودی نے یہاں دو لیکچر دیے۔ ان کے سامعین میں اساتذہ اور دانشوروں کے علاوہ دستور ساز اسمبلی کے ارکان بھی شامل تھے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عمر حیات نے اسلامی نظام کے سلسلے میں ان لیکچروں کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ ترجمان القرآن کے مدیر پروفیسر سلیم منصور خالد کہتے ہیں کہ اس کا سبب مسلم لیگ میں شامل جدید رجحانات رکھنے والا طبقہ تھا جو پاکستان کی اسلامی شناخت کے راستے میں مزاحم تھا اور ان کے مطابق اس صورت حال پر ڈاکٹر عمر حیات پریشان تھے۔

یہ قرارداد کیسے تیار ہوئی اور اس کے مصنفین کون تھے۔ یہ اشارہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل مولانا ظفر احمد انصاری کے ایک انٹرویو سے ملتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بڑی مشکل صورت حال تھی۔

دستوریہ کے اندر مولانا شبیر احمد عثمانی متحرک تھے اور باہر وہ خود۔ قرارداد کی ڈرافٹنگ کے ضمن میں انھوں نے بتایا کہ اس کے ایک ایک لفظ اور جملوں کی ساخت پر طویل غور کیا جاتا تاکہ جدیدیت پسند طبقات کی طرف سے اس پر کوئی اعتراض نہ اٹھایا جاسکے۔

مسلم لیگ سے وابستہ اور دیگر دینی طبقات نے پارلیمنٹ سے باہر رائے عامہ کو ہموار کرنا شروع کیا تو دوسری طرف دستوریہ کے اندر مولانا شبیر احمد عثمانی کی حمایت میں چند طاقتور آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ ان میں ایک آواز وزیراعظم کی تھی، دوسری سردار عبد الرب نشتر کی تھی جنھوں نے اپنی تقریروں سے ایک ماحول پیدا کر دیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ پاکستان ایک مقصد کے لیے بنایا گیا اور بانی پاکستان نے اس مقصد کی نشان دہی بار بار کی کہ اس ملک کا دستور قرآن حکیم کی تعلیمات پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے واضح کیا کہ ہم بانی پاکستان کی خواہشات کے برعکس نہیں جاسکتے۔

دو مزید آوازیں ایسی تھیں جنھوں نے قرارداد مقاصد کو تقویت پہنچائی۔ ایک آواز وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کی تھی۔ وہ احمدی عقیدہ رکھتے تھے۔ احمدی برادری کو اس وقت تک غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا تھا۔

سر ظفر اللہ خان کو دستوریہ کی دستاویزات میں بھی مسلم نمائندہ ہی لکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود اس جماعت کے عقائد کے بارے میں اس وقت بھی حساسیت پائی جاتی تھی۔ سر ظفر اللہ خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ مسلم اور غیر مسلم کا سوال نہیں، خدا پر یقین رکھنے والا کوئی بھی شخص کائنات پر اللہ کی حاکمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔

میاں افتخار الدین کا تعلق اگرچہ مسلم لیگ سے تھا لیکن دستوریہ میں وہ اپنے ترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سے بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے طبقات کے نمائندہ سمجھے جاتے تھے۔ قرارداد مقاصد کی منظوری میں ان کے کردار کے بارے میں ایک مضمون میں یعقوب خان بنگش نے لکھا ہے کہ ان کا شمار قرارداد کے ناقدوں میں ہوتا ہے۔

ان کا بنیادی اختلاف یہ تھا کہ قرارداد میں ریاست کو اقتدار اعلیٰ دینے کے الفاظ درج کیے گئے ہیں۔ یہ درست نہیں۔ یہاں ریاست کی جگہ عوام کا لفظ ہونا چاہیے۔

قرارداد میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ کو قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان نیشنل کانگریس کے ارکان نے اس پر اعتراض کیا تھا۔ اس اعتراض کا جواب میاں افتخار الدین نے دیا اور کہا کہ اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں کیوں کہ دنیا کئی ممالک کے دستور بھی اسی طرح کے ہیں۔

انھوں نے کانگریس کے ارکان کے اس اعتراض کو بھی مسترد کر دیا کہ قرارداد سے ملائیت جھلکتی ہے۔ یوں دستوریہ کے اندر اور باہر قرارداد مقاصد کے حق میں فضا سازگار ہو گئی اور یہ قرارداد آسانی کے ساتھ منظور ہو گئی۔

ممتاز قانون دان حامد خان نے لکھا ہے کہ اگر یہ قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی جاتی تو بہتر ہوتا لیکن اس کے لیے کوئی کوشش نہیں ہوئی اس کے باوجود کہ قرارداد کے سلسلے میں پیش کی گئی کئی ترامیم معقول تھیں۔

قیام پاکستان سے 1973 تک ملک میں تین دساتیر کا نفاذ ہوا۔ قرارداد پاکستان کا امتیاز یہ ہے کہ یہ دستاویز ہر دستور کا حصہ بنی۔ 1985ء کی معروف آٹھویں ترمیم کے بعد یہ قرارداد دستور کا قابل نفاذ حصہ بن گئی۔ اس سے قبل یہ دستور کے دیباچے کا حصہ ہوا کرتی تھی۔

اس کے باوجود کہ یہ قرارداد ایک حقیقت کے طور پر آئین کے قابل نفاذ حصے میں شامل ہے لیکن پاکستان میں کئی طبقات اس کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔

بی بی سی کی شمائلہ جعفری نے اقلیتوں کے دن کے موقع پر اپنی رپورٹ میں محقق یاسر لطیف کا انٹرویو شامل کیا تھا جس میں انھوں نے قرارداد مقاصد کو وہ پہلی دراڑ قرار دیا جس کی وجہ سے ریاست کی بنیاد مذہب پر رکھ دی گئی جس سے مسائل پیدا ہوئے۔

اس قراداد کے بارے میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے وعدہ کیا تھا کہ یہ شہری آزادیوں، جمہوریت، مساوات، دولت کی مساویانہ تقسیم اور ہر قسم کے امتیازات کا خاتمہ یقینی بنائے گی۔

لوگ سوال کرتے ہیں کہ ’پھر ایسا کیوں نہ ہو سکا؟’

قرارداد مقاصد کے پرجوش حامی اور صحافی الطاف حسن قریشی سے میں نے سوال کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا سبب سیاسی نظام میں غیر سیاسی طبقات کی مداخلت تھی جس کی وجہ سے ریاست کا توازن بگڑ گیا۔ ورنہ یہ قرارداد آج بھی جمہوریت کو یقینی بناتی ہے۔

جمہوریت کو یہ کیسے یقینی بناتی ہے، اس سوال پر انھوں نے بتایا کہ 1972 میں مارشل لا انتظامیہ نے انھیں ان کے ساتھیوں مجیب الرحمٰن شامی اور اعجاز حسن قریشی سمیت گرفتار کر لیا تھا۔

اس موقع پر انھوں نے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ مارشل لا کو وہ تسلیم نہیں کرتے کیوں کہ یہ اللہ اور اس کی نیابت کرنے والے عوام کی حاکمیت کے تصور کے خلاف ہے جب کہ قرارداد مقاصد اس پر زور دیتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ان کا یہ موقف تسلیم کر لیا تھا۔

قرارداد مقاصد ایک آئینی حقیقت ہے، عدلیہ کے کئی فیصلوں کے مطابق اسے آئین سے نکالا جاسکتا ہے اور نہ اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ دستاویز ملک میں بحث کا ایک مستقل موضوع بھی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قرارداد کے بارے میں متبادل رائے رکھنے والے طبقات بھی ایک حقیقت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments