گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

اب تو میں یہ سوچ رہا ہوں کہ سیاست میں جتنی تیزی سے گالیوں کا ذخیرہ استعمال ہو رہا ہے اتنی سرعت سے تو تیل اور گیس کے عالمی ذخائر بھی ختم نہیں ہو رہے۔ اتنی تیزی سے تو عالمی درجہ حرارت بھی نہیں بڑھ رہا۔

ویسے بھی اردو میں معیاری گالیوں کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔ پنجابی میں اسے دو سے ضرب دے لیں۔ ان تین سو میں سے کم ازکم دو سو گالیاں تیس اکتوبر دو ہزار گیارہ سے تادم تحریر ایک دوسرے کو بکی جا چکی ہیں۔ اور ان دو سو میں سے بھی پچاس فیصد گالیاں صرف پچھلے دو ہفتے میں سننے کو ملی ہیں۔

مجھے کسی کے کسی کو گالی دینے پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ گالی نہ صرف تہذیب کا نمک بلکہ ہماری جمہوریت کا حسن ہے۔ کوفت تب ہوتی ہے جب ہر کوئی دوسرے کو بلند آہنگی کے ساتھ بیک وقت گالی دے رہا ہو اور یہ مشق اتنا غوغا برپا کر رہی ہو کہ جسے گالی دی جا رہی ہے نہ تو وہ ٹھیک سے سن پا رہا ہو اور نہ گالی دینے والا اس غوغے میں اپنا ہی لہجہ پکڑ پا رہا ہو اور تماشائی بھی ہر گالی سے آنند کشید کرنے سے لاچار ہو۔

میں جب بھی ایسا غوغائی ملاکھڑا دیکھتا ہوں تو بچپن یاد آ جاتا ہے جب ہمارے اسکول کے باہر بازار میں چار چینک ہوٹل آمنے سامنے تھے۔ چاروں پر ریکارڈ چینجر والے کالے توے چلنتر گانے پوری آواز کے ساتھ بجتے تھے اور چاروں ہوٹل مالکان نے بھونپوؤں کا رخ ایک دوسرے کی جانب کر رکھا تھا۔ اور پھر ان چاروں بھونپوؤں سے نکلنے والے گیتوں کا جو صوتی ملیدہ تیار ہوتا تھا اس سے ہر راہگیر اور چائے نوش کا دماغی توازن ساکت ہو جاتا تھا۔ یہ شوریدہ ملیدہ کچھ ایسا ہوتا تھا۔

” میرے شوق دا نہیں اعتبار، آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر، دل سے اٹھتا ہے جاں سے اٹھتا، دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈہ پٹ، لگا ہے حسن کا بازار دیکھو۔“ ۔

بھائیو! ایک دوسرے کے خاندان کے بخئے ضرور ادھیڑئیے، ادھ بدھ تجرباتی مغلظات بھی متعارف کیجیے۔ منہ سے چھینٹا باری بھی جاری رکھئے۔ اپنے ہاتھوں اور بازؤں کو بھی گالی کی جسمانی شرح بیان کرنے کے لیے بن داس استعمال کیجیے۔ مگر سامعین، ناظرین، محققین اور مجمعین ( مجمع باز کی غلط جمع ) کو ہر گالی کا لطف لینے کے حق سے محروم نہ کیجیے۔

چنانچہ لازم ہے کہ گالی دے کر جوابی گالی خود بھی سنئے اور ہمیں بھی سننے دیجیے۔ اس کے بعد دوسری گالی لڑھکائیے۔ یہ دنگل جب تک جی چاہے جاری رکھئے۔ وقت کی ویسے بھی کوئی کمی نہیں۔ نہ آپ کے پاس نہ ہمارے پاس۔

بوریت تب شروع ہوتی ہے جب گالیاں ابتداً ایک ایک کر کے داغی جاتی ہیں اور پھر ایڑ لگ جاتی ہے اور وہ برسٹ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور پھر گتھم گتھا ہو جاتی ہیں۔ یہی پلے نہیں پڑتا کہ منہ گالی دے رہا ہے، لات مغلظ ہے یا مکا ماں بہن ایک کر رہا ہے۔

جس طرح کہا جاتا ہے کہ بہترین جنگ وہ ہے جسے چھڑنے سے پہلے جیت لیا جائے۔ اسی طرح بہترین گالی وہ ہے جو پکڑ میں نہ آئے مگر ہدف کا دل چیرتی ہوئی بھیجا اڑا دے۔ اس ہنر کو صیقل کرنے کے لیے جو تپسیا درکار ہے وہ سیاست بازوں کی موجودہ غیر سیاسی پیڑھی کے بس کا روگ نہیں۔ اسی لیے گالی پچھلی تین دہائیوں میں بالخصوص آرٹ کے درجے سے گر کے خام غلاظت میں بدل گئی ہے۔ ایسے ماحول میں نئی گالی تو خیر کیا ایجاد ہو گی پرانی گالیوں کی ادائی بھی گالی ہوتی جا رہی ہے۔

اچھا گلیارا وہ ہوتا ہے جو محض پھیپھڑوں کی طاقت اور تھوک کے استعمال پر بھروسا نہ کرے بلکہ زبان پر بھی قدرت ہو۔ کچی کچی گالیاں تو چل جاتی ہیں البتہ زبان بھی کچی ہو تو اچھی سے اچھی رسیلی اور عش عشاتی گالی کا بھی مزہ جاتا رہتا ہے۔

اس کی اہمیت یوں سمجھئے کہ جس طرح مہان گائیک کی ایک بنیادی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ ”پیا نہ ہی آئے“ یا ”چھوڑو میری بئیاں“ کو سیکڑوں بھاؤ میں ادا کر سکتا ہے۔ اسی طرح ایک دگج گلیارے سے کم ازکم یہ توقع تو ہونی ہی چاہیے کہ اسے نہ صرف گالی کے مرکزی خیال، لب و لہجے اور اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مد و جزر کی سمجھ ہو بلکہ گالیوں میں استعمال ہونے والے کس عضو کا نام لیتے وقت اسے کتنی لسانی جنبش دینی ہے کہ جسے پڑ رہی ہے وہ بھی جھوم اٹھے اور جواباً اس سے بہتر شاہکار پیش کرنے کی کوشش کرے۔

یہ میں یوں کہہ رہا ہوں کہ جس طرح رقص کو اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے۔ اسی طرح گالی بھی ایک بھرپور عضلاتی اظہاریہ ہے۔ جس طرح موسیقی سات سروں کے اندر قید ہے۔ اسی طرح گالی میں بھی سات عضلات اور سات رشتوں کا ذکر مرکزی ہے۔ ان کے برجستہ استعمال پر ذہن دسترس سے آپ ہزاروں ذیلی گالیاں تخلیق کر سکتے ہیں۔ مگر اہمیت پھر بھی نرت، بھاؤ، ادائی کی ہی رہے گی۔ اناڑی راگی اور اناڑی گلیارا بھینس برابر ہیں۔

ان دنوں کہنے کو سیاسی حریفوں کے درمیان گالیوں کے تبادلے کی مقدار بڑھ گئی ہے۔ مگر جناح جیسا طنز، چرچل جیسی برجستگی اور بھٹو جیسی بے ساختگی کو یاد کر کے اب صرف دل سے آہ ہی نکل سکتی ہے۔

سماج میں سیاسی بیداری، خواندگی، پرکھ، سمجھ اور داد دینے کی صلاحیت کتنی ہے؟ اس کا ایک پیمانہ اس سماج کے روزمرہ میں استعمال ہونے والی گالیوں کا فنی معیار بھی ہے۔

گالی وہ ہے کہ بندہ سننے کے بعد بھی کھڑا ہو کر دھیان دے کہ اس کی مار کتنی گہری اور کس قدر کثیر سمتی ہے۔ اچھی گالی بھونکی نہیں جاتی، ڈکرائی نہیں جاتی، چیخی نہیں جاتی، منمنائی نہیں جاتی۔ مگر اس وقت چلن ایسی ہی گالیوں کا ہے۔ گویا جو جمہوریت کا معیار ہے وہی گالی کا بھی ہے۔ آپ گالی کے آئینے میں اپنا ذہنی معیار دیکھ لیں یا ذہن کے آئینے میں گالی دیکھ لیں۔ بات ایک ہی ہے۔

اور جو سماج اور اس سماج کے سرخیل گالی بھی ڈھنگ سے نہیں دینا جانتے وہ طنز یا جوابی طنز کے لطیف فن کو کیا سمجھیں گے۔ طنز تو ویسے بھی گالی کا مرشد ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments