پنجاب کی ڈوبتی ثقافت اور کلچر ڈے


پنجاب ثقافتی لحاظ سے اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے ایک قدیم اور مالامال صوبہ ہے جہاں عشق کی ہزاروں امر داستانیں ملتی ہیں۔ جہاں جہلم، راوی، چناب، ستلج اور بیاس بہتے ہیں۔ جہاں بابا بلھے شاہ، وارث شاہ، بابا فرید الدین گنج شکر، داتا گنج بخش نے اپنی زندگیاں گزاریں جہاں سے ہڑپہ اور گندھارا کی تہذیبیں وابستہ ہیں۔ جہاں پنجابی ادب میں لوک داستانیں اور قصہ خوانی بھی ایک دلپذیر روایت رہی ہے جس کو وارث شاہؒ صاحب نے ہیر رانجھا لکھ کر اوج ثریا سے نوازا، اس سلسلے میں حافظ برخوردارؒ کی داستان مرزا صاحباں، میاں محمد بخشؒ کی سوہنی مہینوال، ہاشم شاہؒ کی سسی پنوں، اور داستان پورن بھگت ایک اضافی باب ہے۔ پنجاب جو راولپنڈی سے لے کر بہاولپور اور صادق آباد تک ہے جسے ”لہندا“ پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں راوی کے کنارے زندہ دلوں کا شہر لاہور آباد ہے جس کی گلیوں میں آج بھی عشق پنپتا نظر آئے گا۔

پنجاب کا اپنا ایک کلچر ہے پنجاب پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس کی ثقافت تہواروں ’کھانوں‘ ملبوسات اور قدیم مقامات سمیت اپنے اندر ہزاروں رنگ سموئے ہوئے ہے۔ پنجابی ثقافت دنیا کی تاریخ میں سب سے قدیم ترین ثقافتوں میں شمار ہوتی ہے۔ ثقافتی، تاریخی، مذہبی اور جغرافیائی طور پر پنجاب اپنے اندر ہر وہ کشش رکھتا ہے جو ایک سیاح کو اپنی طرف کھینچ لے یعنی پنجاب میں تاریخی قلعے ہیں، دریا ہیں، ریگستانی سلسلے ہیں۔ خوبصورت باغات ہیں۔ پہاڑی سلسلے ہیں اور پنجاب اپنے صحت بخش اور مزیدار کھانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

تہذیب و ثقافت کو انسانی زندگی کا بنیادی اصول سمجھا جاتا ہے۔ ثقافت یعنی ایک معاشرے اور ایک قوم کی اپنی خصوصیات اور عادات و اطوار، اس کا طرز فکر، اس کا دینی نظریہ، اس کے اہداف و مقاصد، یہی چیزیں ملک کی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو شجاع و غیور اور خود مختار بنا دیتی ہیں اور ان کا فقدان قوم کو بزدل اور حقیر بنا دیتا ہے۔

آج کل کا نوجوان اور معاشرہ اپنی میراث سے دور ہوتا جا رہا اور اپنی تہذیب و ثقافت کو اپنانے میں شرم محسوس کرنے لگا ہے یا یوں کہ لیں کہ جدیدیت کے اس دور میں انسان لباس، زبان، رہن سہن، کھانا پینا ہر لحاظ سے ماڈرن ہو رہا ہے۔ دنیا میں تیرہ کروڑ سے زائد پنجابی بستے ہیں جو گرمکھی اور شاہ مکھی رسم الخط میں لکھی جانے والی پنجابی بولتے ہیں۔

پنجابی زبان میں ادبی تحریر کا آغاز تقریباً نو سو سال پہلے بابا فرید الدینؒ شکر گنج سے ہوتا ہے، ان کے ساتھ ساتھ خواجہ فریدؒ، سلطان باہوؒ، شاہ حسینؒ، میاں محمد بخشؒ، ہاشم شاہؒ، بابا بلھے شاہؒ، میاں علی حیدرؒ اور دیگر درجنوں بڑے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے پنجابی زبان کو لازوال ادبی معراج عطا کی، پندرہویں سے انیسویں صدی کے درمیان مسلمانوں نے پنجابی زبان میں بے مثال منظوم تحریریں رقم کیں جس میں صوفیانہ کلام اور کافیوں کو بہت پذیرائی ملی۔

لیکن موجودہ ادوار میں جو لوگ بڑے عہدوں پر فائز ہیں جو صحافی اور جو فنکار عالمی شہرت کی بلندیوں تک پہنچ چکے ہیں یا وہ نوجوان نسل جو پنجاب کے ہرے بھرے اور سرسبز و شاداب دیہاتوں سے نکل کر یورپی ممالک تک پنچ چکے ہیں وہ مغرب کی چکا چوند میں اس قدر گم ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی ماں بولی سے کنارہ اختیار کرتے جا رہے ہیں یا یوں کہ لیں کہ انھیں پنجاب زبان بولتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے اردو کے ساتھ انگریزی بڑے فخر سے بولی جاتی ہے لیکن اگر پنجابی کا ایک مصرعہ زبان سے نکل جائے تو شرم کے مارے زمین میں ڈوبنے لگتے ہیں ان کے نزدیک اپنی بولی کی کوئی وسعت ہی نہی۔

موجودہ دور میں پنجابی ثقافت مغربی ثقافت میں بدلتی جا رہی ہے، بھنگرہ اور گدہ ہپ ہاپ ڈانس میں بدلتا جا رہا ہے، فوک میوزک ریمکس میوزک میں بدلتا جا رہا ہے، مکئی اور سرسوں کے ساگ کی جگہ پیزا، برگر نے لے لی ہے اور پنجابی کی جگہ انگریزی نے لے لی۔

زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے لیکن جو لوگ اپنی تہذیب اور افلاس کی ثقافت کو نظر انداز کر دیتے ہیں وہ تاریخ کے گمنام اوراق میں گھم ہو جاتے ہیں۔

اس صورتحال میں پنجاب کلچر ڈے منانے کا انعقاد کرنا نہایت اہم ہے۔ جو ہر سال 14 مارچ کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد نوجوانوں میں پنجابی ثقافت کی اہمیت کو جاگر کرنا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ثقافت دوست اور دانش مندانہ اقدامات کی بدولت پنجاب کی ثقافت کو نئی پہچان ملی ہے۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے ان تین سالوں میں جہاں پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی رفتار کو تیز کیا ہے۔ وہاں انہوں نے پنجاب کی ثقافت کو زندہ کرنے اور اس کو آگے لانے کے لئے بھی کئی پروگرامز پر کام کیا ہے جن کے تحت پنجاب بھر میں خاص طور پر جنوبی پنجاب میں وہاں کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے کام کیے جا رہے ہیں۔

عثمان بزدار نے شہروں کی ثقافت کو زندہ کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی اپنائی۔ اس ضمن میں صوبائی سطح پر ایک روڈ میپ تیار کیا گیا جس میں ہر شہر کے لیے مختلف نکات پر مشتمل لائحہ عمل ترتیب دیا گیا جن سے شہروں کے ثقافتی حسن کو زندہ کیا جا سکے گا۔ اس امر میں مالی سال 2021۔ 2022 ء میں محکمہ ثقافت کے بجٹ کی مختص رقم میں 150 فیصد اضافہ کیا گیا۔ پچھلے سال محکمہ کو کل 11 منصوبوں کے ساتھ 200 ملین رقم مختص کی گئی تھی، جس میں 9 جاری اور 2 نئی اے ڈی پی اسکیمیں شامل تھیں۔

اس سال محکمہ ثقافت کا بجٹ 500 ملین ہے اور 17 سالانہ ترقیاتی پروگرام ہیں جن میں 7 جاری منصوبے ہیں جبکہ 10 نئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ پچھلے سالوں میں بہاولپور آرٹس کونسل اور میوزیم کی تعمیر اور تزئین و آرائش، سر صادق محمود خان میموریل گیلری / ہال کی جاریہ تعمیر اور بہاولپور میوزیم کی فرنٹ بلڈنگ کی تزئین و آرائش پر کام کیا گیا تھا۔ مالی سال 2020۔ 2021 میں بھکر اور بہاولپور آرٹ کونسلوں کے لئے آڈیٹوریموں کی ڈیزائننگ کے لئے فزیبلٹی اسٹڈیز مکمل کی گئیں اور ملتان اور راولپنڈی میں پنجاب رنگ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم کیے گئے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی پنجابی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے 14 مارچ کو پنجاب کلچر ڈے پر پنجاب کونسل آف دی آرٹس راولپنڈی میں محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت پنجاب کی جانب پنجابی ثقافت کا دن منایا جائے گا۔ اس روز ایک روزہ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا اس ایک روزہ ثقافتی میلے میں مختلف پنجابی مشاعرہ، فوک میوزیکل نائٹ، دستکاری کے قابلے لوک رقص اور دیگر تقریبات منعقد کی جائیں گی۔ جس میں انور مسعود، فضل جٹ افشاں زیبی اور بہت سے پنجابی ثقافت سے وابستہ لوگ شرکت کریں گے۔ اس ثقافتی دن کا مقصد نئی نسل کو پنجابی ثقافت کی اہمیت سے اجاگر کرانا ہے۔ موجودہ دور میں کلچر ڈے کی بہت اہمیت ہے تاکہ عوام کو اپنے کلچر سے روشناس کرا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments