قاضی فائز عیسی سے لندن میں پوچھے گئے سوالات


سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز (SOAS) لندن یونیورسٹی کا ایک انتہائی مشہور اور معتبر تعلیمی ادارہ ہے۔ میرے مشفق دوست نادر چیمہ صاحب وہاں معاشیات کی تدریس سے وابستہ ہیں اور بلومسبری (Bloomsbury) نامی تنظیم کے تحت پاکستان سے متعلق علمی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں سالانہ باچا خان لیکچر اور عاصمہ جہانگیر لیکچر سر فہرست ہیں جن میں مقامی پاکستانی اساتذہ، طلبا اور دیگر اصحاب رائے کی بھرپور شرکت ہوا کرتی ہے۔

اس سال عاصمہ جہانگیر لیکچر اس لحاظ سے زیادہ دلچسپی کا باعث تھا کہ اس میں قاضی فائز عیسی کو بطور مہمان خصوصی بلایا گیا تھا اور ان کے لیکچر کا موضوع تھا ”پاکستان میں جمہوریت کے لئے عدلیہ کا کردار“ ۔ عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن کی ترجمانی کرتے ہوئے سلیمہ جہانگیر نے، جو خود بھی نامور اور کہنہ مشق وکیل ہیں، اپنی والدہ کے متعلق ابتدائی کلمات کہے اور فائز عیسی کی خدمات کو سراہا۔ اس سے پہلے سکول کی پاکستان سوسائٹی کی صدر اور نشست کے چئیر پرسن نے خیر مقدمی کلمات کہے۔

قاضی فائز عیسی نے اپنے لیکچر میں پاکستان کی آئینی تاریخ کا خلاصہ پیش کیا۔ جو پاکستانی تاریخ سے آگاہی نہ رکھنے والوں کے لئے دلچسپی کا باعث تھا۔ اس کے بعد انھوں نے بطور کیس سٹڈی لوکل گورنمنٹ نظام سے متعلق سپریم کورٹ کیس کو پیش کیا کہ کیسے ہمارے ہاں حکومتیں آئینی تقاضوں کو خاطر میں نہ لا کر مطلق العنانی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ پس منظر کے طور پر انھوں نے بتایا کہ اٹھارہویں ترمیم نے بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔ لیکن خیبر پختونخوا اور سندھ میں انتخابات نہیں کرائے جا رہے تھے اور پنجاب میں گورنر نے آرڈننس کے ذریعے پورے نظام کی چھٹی کر دی تھی۔ سپریم کورٹ نے آئین سے اس کھلم کھلا انحراف کا سد باب کرتے ہوئے تمام صوبوں میں بروقت بلدیاتی انتخابات کا حکم دیا۔

انھوں نے مزید مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ بسا اوقات سپریم کورٹ خود بھی قانون کی حکمرانی کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور اس کے لئے کچھ کیسوں میں رجسٹرار سپریم کورٹ کے منفی کردار کا حوالہ دیا۔ عاصمہ جہانگیر کے متعلق انہوں نے تعریفی کلمات ادا کرتے ہوئے انھیں ایک ایسی نڈر خاتون قرار دیا جس سے معزز جج حضرات بھی خائف رہتے تھے۔

قاضی صاحب کے لیکچر کے بعد جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے تحلیل نفسی کے ذریعے میں قدیم ایتھنز جا پہنچا ہوں جہاں جرنیل اور جج حضرات خود کو احتساب کے لیے عوامی عدالت میں پیش کیا کرتے تھے اور جہاں جب ایتھنز کے عوام کسی عوامی عہدیدار سے ناراضی کا اظہار کرتے تو مختلف سزائیں ان معززین کا مقدر بنتیں جن میں موت اور جلاوطنی کی سزائیں بھی شامل تھیں۔ قاضی صاحب نے تحمل اور متانت کے ساتھ سوالوں کا جواب دیا۔ راقم کے ذہن میں بھی کچھ سوالات نے انگڑائی لی تھی مگر سوال گر بہت تھے اور سٹیج پر تشریف فرما چیئرپرسن نکتہ چینوں کا انتخاب کر رہے تھے۔ ہم منظور نظر نہ ہو سکے اور یوں۔

”دل میں رہ گئی دل کی بات۔“

سوچا کہ اک نامہ لکھ کر کے اپنے جواب طلب سوالات رقم کر دوں کہ کیا پتہ کوئی نامہ بر قاضی صاحب تک پہنچا دے۔ لیکن اپنے سوالات سے قبل پہلے اس قسط میں ان سوالات کا یہاں تذکرہ کروں گا جو تقریب میں قاضی صاحب سے پوچھے گئے تھے۔ آغاز ہی میں میرے پیچھے تشریف فرما سامع نے تند و تیز لہجے میں میمو گیٹ کیس اور حسین حقانی سے متعلق فیصلے میں قاضی صاحب کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے استفسار کیا کہ اسٹبلشمنٹ اور جمہوری اداروں کے مابین اس وقت کی رسہ کشی میں کیا انھوں نے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ نہیں دیا تھا؟

سوال پوچھنے والے نے اپنا تعارف کرایا تو پتہ چلا کہ سوال گر عاصم سعید ہے جو ان تین بلاگرز میں شامل تھے جنھیں نون لیگ کے دورحکومت میں ایجنسیوں نے دن دھاڑے اغوا کر کے عقوبت خانوں میں اذیت کا شکار کیے رکھا اور شدید قومی اور بین الاقوامی دباؤ کے باعث رہا ہو کر جلا وطنی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے ہے اور سوال کی کاٹ بھی یہی نمایاں کر رہی تھی۔ ہم سب کی ماضی کی الماریوں میں ایسے ڈھانچے ضرور ہوا کرتے ہیں جنھیں ہم الماری سمیت کسی سمندر میں ڈبونے کے خواہشمند رہتے ہیں۔

میموگیٹ نواز شریف کی الماری کا ایسا ہی ڈھانچہ ہے جس پر وہ دبے لفظوں میں اپنی پشیمانی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ قاضی صاحب کے لئے بھی شاید ان ہڈیوں کا ذکر تکلیف دہ ہے اور یہ ناگواری ان کے جواب میں بھی جھلکتی دکھائی دی۔ دیگر بہت سے سوالات کا بنیادی نکتہ ایسی اصلاحات کا مطالبہ تھا جن سے جمہوریت کو توانائی ملے۔ قاضی صاحب نے اس نوع کے سوالات کا مناسب جواب دیا کہ اصلاحات کرنا پارلیمان اور حکومت کا کام ہے جبکہ عدلیہ کا اختیار قوانین کے مناسب نفاذ اور ان کی تشریح تک محدود ہے۔

اپنی ذات اور چیف جسٹس بننے کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات انھوں نے قابل فہم طریقے سے کچھ زیادہ کہے بغیر نمٹا دیے۔ ایک اہم سوال ”سوو موٹو“ یعنی ازخود کارروائی سے متعلق پوچھا گیا جس کے جواب میں انھوں نے ایک کانفرنس کا واقعہ سنایا کہ کانفرنس میں بار بار سوو موٹو کا ذکر ہو رہا تھا جس پر ایک برطانوی جج نے ان سے استفسار کیا کہہ یہ سوو موٹو کیا بلا ہوتی ہے۔ جس پر مہمان جج کو بتایا گیا کہ یہ تو یہاں ایک ٹیکسی ڈرائیور کو بھی پتہ ہے کیونکہ یہ ایک خالصتاً پاکستانی بلا ہے۔

قاضی صاحب کا اپنا نکتۂ نظر یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے سوو موٹو اختیار کو صرف انتہائی اہم بنیادی حقوق کی پامالی سے تحفظ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ ذاتی طور پر انتظامیہ اور مقننہ کے اختیارات میں مداخلت کے شدید مخالف ہیں۔ ایک اور سوال میں ان سے شکایت کا عنصر نمایاں تھا کہ بطور چیف جسٹس بلوچستان انھوں نے گمشدہ افراد کے معاملے کو نظر انداز کیے رکھا۔ قاضی صاحب نے تفصیل سے اپنی خدمات کا ذکر کیا لیکن مجھے ایسے سوال سے نظریاتی اختلاف ہے۔

جب خود عوام دبک کے گھروں میں بیٹھ جائیں اور ہمارے سیاسی لیڈران چپ کا روزہ رکھ لیں اور سوشل میڈیا کے غازی کبھی سڑکوں کا رخ نہ کریں تو ایسے میں کسی جج سے یہ آس لگانا کہ وہ جان ریمبو بن کر سب تہہ و بالا کر کے ہماری خیالی دنیا آباد کر کے دے گا محض دلفریبانہ خوش فہمی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ وقت کی تنگی کے باعث سوالات کے سلسلے کے خاتمے کا اعلان ہوا اور یوں ایک انتہائی پرمغز تقریب بحسن و خوبی اختتام کو پہنچی۔ میں اپنے سوالات ساتھ لے کر اس عزم کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوا کہ انھیں نامے کے ذریعے رقم کروں گا۔ ان سوالات کے لئے دوسری قسط کا انتظار کیجئیے۔

ڈاکٹر حیدر شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر حیدر شاہ

مصنف برطانیہ کی ہارٹفورڈ شائر یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور ریشنلسٹ سوسائٹی آف پاکستان کے بانی ہیں۔ ان سے hashah9@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

haider-shah has 14 posts and counting.See all posts by haider-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments