اگر صادق و امین ہو تو توشہ خانہ کا حساب دو


خبر گرم ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک روز قبل ڈی چوک، اسلام آباد میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بقول شخصے وہ اپوزیشن کے کردار اور تحریک عدم اعتماد کے پس منظر پر ’روشنی‘ ڈالیں گے۔ توقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس کے ساتھ ساتھ خود کو ملنے والے غیرملکی تحائف کی تفصیل بھی عوام کو بتائیں گے، جس کے لئے میں گزشتہ پندرہ ماہ سے جوتیاں چٹخا رہا ہوں اور اسلام آباد ہائیکورٹ و پاکستان انفارمیشن کمیشن کے مابین فٹ بال بنا ہوا ہوں۔

ہو سکتا ہے کہ کچھ دوست میری اس بات کا مضحکہ اڑائیں یا یہ کہیں کہ ہنوز دلی دور است، لیکن میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کو ہمیشہ اچھا سوچنا چاہیے اور اچھے کی ہی امید رکھنی چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ عوام کا ’ٹھاٹھیں مارتا سمندر‘ سامنے دیکھ کر وزیراعظم عمران خان کی سوچ بدل جائے اور عوام کے سامنے سچ بول دیں، جس کو بتانے سے وہ پچھلے پندرہ ماہ سے گھبرا رہے ہیں!

وزیراعظم عمران خان جس طرح عوامی جلسوں میں چوروں، ڈاکوؤں کو پکڑنے اور ملک سے کرپشن و بدعنوانی، رشوت، اقربا پروری اور سفارش کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، کوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ یہ وہی شخص ہے جو ایک صحافی کے پانچ چھوٹے چھوٹے معصومانہ سوالات کے جوابات دینے سے گھبرا رہا ہے۔ سچ بات ہے کہ عمران خان کے منہ سے قانون کی نظر میں سب کے برابر ہونے کے فلک شگاف نعرے سن کر عام لوگ الٹا سوالات پوچھنے والے پر شک کرنے لگتے ہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایسا وزیراعظم جو آیا ہی کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر ہو، جو سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت کرپشن و بدعنوانی کے خاتمے اور چوروں، ڈاکوؤں کو معاف نہ کرنے کی بات کرتا ہو، خود اپنا حساب دینے سے ہی گھبرا رہا ہو گا، نہ صرف گھبرا رہا ہے بلکہ سوالات کے جوابات روکنے کے لئے سوال پوچھنے والے صحافی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج اور پاکستان انفارمیشن کمیشن کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کر رہا ہو گا۔

کبھی کبھی خود مجھے اپنے آپ پہ شک ہونے لگتا ہے کہ وہ شخص کوئی اور ہو گا جو غیرملکی تحائف کی تفصیل بتانے سے گھبراتا ہے، ہمارا وزیراعظم تو بہت ہی بہادر اور دیانت و صداقت کا مرقع ہے، کیونکہ وزیراعظم عمران خان عوامی جلسوں اور ٹیلی ویژن پر جو گفتگو کرتے ہیں اسے سن کر عام آدمی کے ذہن میں ان کی شخصیت کا جو خاکہ بنتا ہے وہ انتہائی دیانتدار، پرہیزگار اور متقی شخص کا ہے۔ مگر جب میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں داخل ہوتا ہوں یا پھر پاکستان انفارمیشن کمیشن جاتا ہوں تو عمران خان کے حوالے سے میرا بنایا ہوا خاکہ اچانک دھندلانے اور بگڑنے لگتا ہے، پھر ایک بددیانت، سفاک اور فاشسٹ حکمران کا ہیولا سامنے آ جاتا ہے۔ ایسے موقعے پر مجھے مرشد رفعت عباس کے سرائیکی مصرعے یاد آ جاتے ہیں۔

تاریخ پئی لکھیندی ہے
تاریخ دی اپڑیں ہک پوشاک اے
تاریخ دے کالے یا وت اصلوں چٹے بوٹ ہن
تاریخ دی اپڑیں ہک تلوار ہے، گھوڑا ہے
تاریخ وچ بھرا کوں ماریا ونج سگدا ہے
پیو اپنے دیاں اکھیں کڈھوایاں ونج سگدیاں ہن

ترجمہ؛ شاعر کی یہاں مراد سیاسی تاریخ سے ہے، تاریخ لکھی جا رہی ہے، تاریخ کا ایک اپنا لباس ہے، تاریخ کے کالے یا پھر بالکل سفید بوٹ ہیں، تاریخ کی اپنی ایک تلوار ہے اور گھوڑا ہے، تاریخ میں بھائی کو مارا جاسکتا ہے، اپنے باپ کی آنکھیں نکلوائی جا سکتی ہیں۔

جیسے ہی مرشد رفعت عباس کے یہ مصرعے پڑھتا ہوں تو میری آنکھیں کھل جاتی ہیں، تاریخ کے یہ سب کردار بھی کتنے متقی اور پرہیزگار تھے۔ وہ تاریخ جو ہمیں بتاتی ہے کہ قابیل کو مارنے بعد ہابیل اپنے بھائی کی لاش اٹھا کر سارا دن روتا رہا، اسی طرح اپنے باپ شاہجہاں کو قید کرنے والا اورنگزیب عالمگیر تو اس قدر متقی اور پرہیزگار تھا کہ ٹوپیاں سی کر گزر اوقات کرتا تھا۔

دراصل تاریخ ہی ہم جیسے اندھوں کے لئے وہ سفید چھڑی ہے جو راستہ دکھاتی ہے، اگر ریاست مدینہ کا دعویدار عمران خان غیرملکی دوروں میں سربراہان مملکت سے ملنے والے تحائف کی تفصیل بتانے کی بجائے سوال پوچھنے والے صحافی کے گھر خفیہ ایجنسیوں کے لوگ بھجواتا ہے، جسمانی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، مسلسل اس کی نگرانی کرواتا ہے، اخبار کی نوکری سے نکلواتا ہے، تمام اخبارات و ٹی وی چینلوں کو ایسے صحافی کو نوکری دینے سے روکتا ہے، توشہ خانہ کیس سننے والے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کو دباؤ میں لانے کے لئے ان کا آبائی گھر سیکشن فور لگا کر چھین لینے کی کوشش کرتا ہے، پاکستان انفارمیشن کمیشن سے توشہ خانہ کیس کی اوریجنل فائل چوری کرواتا ہے، سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے ذریعے انفارمیشن کمشنر کو دھمکی دلواتا ہے (خبردار! وفاقی حکومت سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں ہو سکتا )، اپنے ورکر کے ذریعے انفارمیشن کمشنر کے خلاف اپنے ہی دفتر میں شکایت درج کرواتا ہے تاکہ فیصلہ سنانے والے انفارمیشن کمشنر کو فارغ کیا جا سکے، توشہ خانہ کا سوال پوچھنے والے صحافی کے وکیل کے چیمبر کے دروازے پہ دو مرتبہ سیاہی پھینکواتا ہے تاکہ وہ دباؤ میں آ کر مقدمے سے الگ ہو جائے، تو یہ ہرگز اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ تاریخ میں یہ سب کچھ یونہی ہوتا آیا ہے، جبکہ مرشد رفعت عباس نے پہلے ہی بتا دیا کہ تاریخ لکھی جا رہی ہے۔

ہاں! تاریخ لکھی جا رہی ہے، توشہ خانے کے اس مقدمے کے ذریعے بھی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ تاریخ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں کہ وہ کس کے لئے کس کردار کا تعین کرتی ہے۔ کون حر، عبداللہ شاہ غازی، داہر، رانا پرتاب، ٹراٹسکی، بھگت سنگھ، گلالئی (میوند)، ہوشو شیدی، شاہ عنایت، روپلو کولھی، بھٹو، نذیر عباسی، فاضل راہو بنتا ہے جبکہ کون شمر، زار، لارڈ کرزن، جنرل ڈائر، ایوب، تارا مسیح، ضیا الحق اور پرویز مشرف بنتا ہے۔ دراصل یہ سب تاریخ کے فیصلے ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عمران خان بھی اسی تاریخ کو دوہرا رہے ہیں، حالانکہ غیرملکی تحائف کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات ایسے ناممکن بھی نہیں کہ ان کے جوابات عمران خان کے پاس نہ ہوں لیکن اپوزیشن کے بڑے بڑے لیڈروں کو چور ڈاکو کہہ کر للکارنے والا عمران خان نجانے کیوں ان معصومانہ سوالات کے جوابات دینے سے گھبراتا ہے۔ وہ سوالات کیا ہیں، آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ وزیراعظم عمران خان کو 18 اگست 2018 تا 31 اکتوبر 2020 کے دوران غیر ملکی سربراہان حکومت و دیگر غیرملکی معززین سے کتنے تحائف ملے؟

2۔ وزیراعظم عمران خان کو 18 اگست 2018 تا 31 اکتوبر 2020 کے دوران غیر ملکی سربراہان حکومت و دیگر غیر ملکی معززین سے جو تحائف ملے ان کی نوعیت کی مکمل تفصیل اور سپیسی فکیشن کیا ہے؟

3۔ وزیراعظم عمران خان کو 18 اگست 2018 تا 31 اکتوبر 2020 کے دوران غیر ملکی سربراہان حکومت و دیگر غیرملکی معززین سے جو تحائف ملے، ان میں سے وزیر اعظم عمران خان نے خود اپنے پاس کتنے رکھے (کون سے قواعد و ضوابط کے تحت تحفے اپنے پاس رکھے)؟

4۔ وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018 تا 31 اکتوبر 2020 کے دوران غیر ملکی سربراہان حکومت و دیگر غیرملکی معززین سے ملنے والے تحائف میں سے جو تحفے خود اپنے پاس رکھے ان کی مکمل تفصیل (مع ہر ایک تحفے کی سپیسی فکیشن، ماڈل، مارکیٹ قیمت) کیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ہر ایک تحفے کی کتنی قیمت ادا کی؟

5۔ وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018 تا 31 اکتوبر 2020 کے دوران غیر ملکی سربراہان حکومت و دیگر غیرملکی معززین سے ملنے والے تحائف میں سے جو تحفے خود اپنے پاس رکھے اور ان کی جو قیمت ادا کی، وہ رقم (قیمت) کس بینک اکاؤنٹ (مع اکاؤنٹ نمبر، ہیڈ آف اکاؤنٹ، بینک کا نام) سے قومی خزانے میں منتقل ہوئی؟

یہ بات سب کے لئے ناقابل یقین ہو گی کہ ہمارے مستند صادق و امین وزیراعظم مذکورہ بالا سوالوں کے جوابات گزشتہ ساڑھے پندرہ ماہ سے نہیں دے پا رہے بلکہ غیرملکی تحائف کی تفصیل کو عام ہونے سے روکنے کے لئے وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرچکے ہیں جو سطور بالا میں بیان کرچکا ہوں، حالانکہ معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت تمام سرکاری ادارے دس روز کے اندر مطلوبہ معلومات کی فراہمی کے پابند ہیں۔ خیال رہے کہ میری طرف سے تاحال وزیراعظم عمران خان کی ذات پر نہ تو کوئی الزام عائد کیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی قیاس آرائی سے کام لیا گیا حالانکہ 23 نومبر 2020 کو میں نے ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کو مذکورہ بالا سوالات کسی انفارمیشن اور کچھ ثبوتوں کی بنا پر ہی بھجوائے تھے۔

اگر میں بھی چاہتا تو دیگر کئی یوٹیوبرز کی طرح تحائف کی تفصیل نمک مرچ لگا کر بیان کر سکتا تھا لیکن میں چاہتا ہوں کہ کابینہ ڈویژن اپنی تصدیق کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے غیرملکی تحائف کی تفصیل فراہم کرے تاکہ ہمارے مستند صادق و امین وزیر اعظم کی ذات کے حوالے سے شکوک و شبہات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں۔ اس کے برعکس وزیراعظم عمران خان کی گھبراہٹ اور انفارمیشن روکنے کے لئے استعمال کیے جانے والے فسطائی ہتھکنڈوں سے یہ شبہ مزید پختہ ہوتا ہے کہ

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments