وہ شاعر جسے حسد کے باعث مشاعرے میں نہیں بلایا جاتا تھا


شاعر قابل اجمیری کو شاید وہ شہرت نہ مل سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ ہندوستان کے شہر اجمیر میں پیدا ہوئے اور وہیں 14 سال کی عمر میں شعر کہنے لگے۔ 1947 کے بٹوارے کے بعد ہجرت کر کے پاکستان کے شہر حیدرآباد میں مقیم ہو گئے۔ کم سنی میں ہی والدین انتقال کر گئے تو بڑی بہن نے پرورش کی۔

قابل جب پندرہ سال کے ہوئے تو بہن بھی چل بسی۔ بائیس سال کی عمر میں قابل کو تپ دق نے آ لیا۔ علاج کے لئے کوئٹہ کے اسپتال میں جب داخل تھے تو ان کی تیمارداری ایک عیسائی نرس نے کی جن کا نام نرگس سوزن تھا۔

نرگس سوزن، قابل کی شخصیت اور شاعری سے اتنی متاثر ہوئی کہ دونوں نے شادی کر لی۔ تپ دق اور پھر گھر کے معاشی حالات نے قابل کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ دس سال تک تپ دق سے لڑنے کے بعد قابل اجمیری 31 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

اسی طرح کی زندگی گزارنے کے بعد تو قابل نے اپنے آپ کو حوصلہ دینے کے لئے شہرہ آفاق غزل تخلیق کی کہ
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
راستہ کٹ ہی جائے گا قابل
شوق منزل اگر سلامت ہے

اور جب قابل کی اسی غزل کا یہ شعر مشہور شاعر جوش ملیح آبادی تک پہنچا کہ
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو میری ضرورت ہے

تو جوش نے استفسار کیا کہ یہ شعر کس کا ہے۔ بتایا گیا کہ شاعر قابل اجمیری کا ہے۔ جوش نے کہا وہ اب جب بھی پاکستان جائیں گے تو قابل سے ضرور ملاقات کریں گے۔

پھر یہی ہوا جوش کو ایک مشاعرے میں پاکستان آنے کی دعوت ملی۔ لیکن جوش کو پتا چلا کہ قابل اجمیری کو مشاعرے میں شرکت کی دعوت نہیں دی جاتی ہے۔ پس منظر یہ تھا کہ اس زمانے کے کچھ مشہور شعراء قابل سے کچھ ناراض ناراض سے رہتے تھے۔

قابل جس مشاعرے میں جاتے مشاعرہ لوٹ لیتے تھے اور یہ بات کچھ مشہور شاعروں کو شاید ناگوار گزرتی تھی۔ جب قابل اس طرح کی غزل پڑھیں گے تو دوسرے شعراء میں ایک پیشہ ورانہ رقابت تو جنم لے گی،

وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد
سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد
مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد
چراغ بزم ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد
قابل کی ایک اور غزل کے چند شعر دیکھئے،
حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے، تم تو جاں تک آ گئے
اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے، ہم فغاں تک آ گئے
خود تمہیں چاک گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاؤ، ہم جہاں تک آ گئے
نامرادی اپنی قسمت، گمراہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے

لیکن اتنی پائے کی شاعری کے باوجود، مشاعرے کا اہتمام کرنے والوں کی پاس یہی حل تھا کہ قابل کو مشاعرے میں نہ بلایا جائے۔

قابل کے معاشی حالات اتنے خراب ہو گئے کہ کچھ مقامی شعراء قابل کا کلام پیسے دے کر لے جاتے اور مشاعرے میں پڑھتے اور داد سمیٹتے۔ ان ہی حالات کی روشنی میں شاید قابل نے کہا ہو گا،

تضاد جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو، میں مسکرایا تو کیا کرو گے
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ، میرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والوں، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
مجھے تو اس درجہ وقت رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا، میں یاد آیا تو کیا کرو گے
اتر تو سکتے ہو پار لیکن مآل پر بھی نگاہ کر لو
خدا نا کردہ سکون ساحل نہ راس آیا تو کیا کرو گے
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے

ایسی کئی غزلیں ہیں جو قابل اجمیری کی شاعری کو چار چاند لگاتی ہیں لیکن عوام کی اکثریت قابل اجمیری کی شاعری سے ناواقف ہے۔ قابل اجمیری صرف 31 سال زندہ رہے۔ اگر لمبی زندگی پاتے تو شاید ہمیں ایک اور احمد فراز مل جاتا۔

کچھ تو دل مبتلائے وحشت ہے
کچھ تری یاد بھی قیامت ہے
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments