اس لاش کو دفنانا آسان کام نہیں تھا۔ رعنائی سے ہم آغوش پرسکون موت سامنے لیٹی تھی۔ جہد مسلسل اپنی معراج کو پہنچ چکی تھی۔ دل کے نقائص اور تقدیر میں لکھے مصائب سے لطف اندوز ہوئی کبھی بھی اس کے چہرے کو متالم نہ پایا۔ وہ ایذائے خلق سے لذت پاتی ہوئی موت اسود کی معراج کو پہنچی یا بھوک پیاس اور جسمانی ضروریات پر قابو پا کر تہی داماں و خالی شکم موت ابیض پا کر تصوف کے مراحل طے کرتی ہوئی امر ہو گئی، کچھ بھی کہہ لیں زندہ میت سامنے پڑی تھی۔ اب تجہیز و تکفین کے مراحل طے کرنا ہم دنیا داروں کی ذمہ داری تھی۔

خوبصورت تھی۔ سانولی سی گول مول کتابی چہرے کی مالک؛ گول موٹے رخساروں پر ہیرے جیسی نشیلی آنکھیں جڑی ہوئی تھیں۔ پورے چہرے پر صرف آنکھیں اور آکسیجن کی مستقل کمی سے عنابی خون میں لتھڑے ہونٹ ہی نظر آتے تھے۔ ڈرم سٹک ناخنوں پر اسی رنگ کی نیل پالش لگائے رکھتی۔ آج اس بے جاں چہرے پر بند آنکھیں اور پھول سے ہلکے موٹے ہونٹ سفید بادلوں کی طرح پھٹے دکھائی دیتے تھے۔ خاموش چشم و جبین و رخسار میں یہ ہونٹ کچھ کہتے محسوس ہوتے تھے، کوئی ان کہی سی بات، کوئی ناگفتہ خواہش۔

سر شام اس کی موت کی خبر ملی تو سب دوڑے چلے آئے۔ بہن بھائیوں، رشتہ داروں میں کوئی بھی اس کی ان کہی سننے کو تیار نہیں تھا۔ زیست کی کڑی راہوں پر اسی دکھ کے گھن سے اس کے استخوان خاک ہو گئے تھے۔ اس کھوکھلے پنجر میں دل کی ناکامیوں کے باعث جمع ہونے والے پانی کو نکالنے کے لیے آج کل وہ چھ پیشاب آور گولیاں لے رہی تھی۔

اس انجام کا اسے لڑکپن سے ہی علم تھا۔ کہتی تھی مجھے ادویات کے لیے نوکری کرنی پڑتی ہے ورنہ مجھ میں کام کرنے کی ہمت نہیں۔

بہت سال پہلے دل کی باتیں کرتے کرتے کہنے لگی اب میں شادی کرنا چاہتی ہوں۔
کون کرے گا تم سے شادی؟ سب کو تمہاری بیماری کا علم ہے۔ ”
”ہاں، مجھے اپنے جیسا ایک دیوانہ مل گیا ہے۔“
لڑکا بہت پیارا تھا۔ عمر میں بھی تقریباً پندرہ سال چھوٹا۔

کچھ دن بعد تمام خاندان کی مخالفت کے باوجود دونوں نے شادی کرلی۔ بابر گھر چھوڑ کر اس کے پاس ہی آ گیا۔ وہ کسی سیٹھ کی گاڑی چلاتا تھا۔ اب اسی بڑی سی گاڑی میں روزانہ رات رخسانہ کو لینے آتا۔ دونوں کی شان دیکھنے والی ہوتی۔ بلند قد کاٹھ کے ساتھ نخرہ اس کا پہلے ہی آسمان کو چھوتا تھا، اب چھنال دیدہ گھنیری پلکیں مٹکاتی تو بجلیاں کوند جاتیں۔ مریضوں کے ساتھ اس کا پیار مزید بڑھ گیا۔

پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پاؤں بھاری ہوئے تو سانس لینا محال ہو گیا۔ میں نے تو اسے شادی سے منع کرتے وقت سمجھایا تھا۔

”اگر تم حاملہ ہو گیں تو تمہارا دل یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا۔“

پہلے تین ماہ ہی مشکل ہو گئے تو حمل ضائع کروا آئی۔ اس دن دونوں آنکھوں سے جھرنے پھوٹ پڑے۔ لاکھ سمجھایا کہ موٹی آنکھیں سوکھ جائیں گئیں۔ لیکن اس پر اثر ہوا اور نہ ہی آنکھوں پر، بلکہ آنسوؤں کے تبخر سے پپوٹے مزید بھاری ہو گئے۔

ایسی دیوانی تھی کہ کچھ دیر بعد پھر حاملہ ہو گئی۔ میں غصے ہوا تو کہنے لگی ”اسے کس کھونٹے سے باندھ کر رکھوں؟“

”مر جاؤ گی۔“
”پھر کیا ہے؟ دفن کرنے تو ساتھ جائے گا۔ اس کے بغیر بھی تو مر جانا ہے۔“
یاد ہے، میں نے کہا تھا یہ نباہ نہیں ہو سکے گا۔ اس وقت تمہارا کیا جواب تھا؟ ”

”ہاں میں نے کہا تھا، چھوڑ جائے۔ اتنی لمبی زندگی میں سے کچھ دیر تو جی لوں گی۔ دکھوں کا کچھ تو افاقہ ہو گا۔“

اس بار حمل مزید مشکلات لایا اور انجام وہی ہوا۔

پھر وہ بھی چھوڑ کر چلا گیا۔ سخت جان تھی، دل کے پیدائشی نقائص برداشت کر رہی تھی، روایات کی مصیبتیں جھیلیں، جدائی کا دکھ بھی برداشت کر گئی۔

سال ہا سال گزر گئے۔

آج ہمارے سامنے ہی چکرا کر گری اور کہانی ختم ہو گئی۔ اس کی لاش سامنے پڑی تھی۔ رات اس کے خاندان کو منانے کی کوشش کرتا رہا کہ بابر کو پیغام بھیج دیا جائے۔

کچھ دن پہلے ہی مجھے پوچھ رہی تھی ”آپ کو کبھی اس کا فون نہیں آیا؟“
دفن کے لیے قبر کی طرف لے جا رہے تھے تو بہت پہلے کہے الفاظ یاد آئے۔
”مر جاؤں تو کسی گڑھے میں پھینک آنا۔ دفن نہ کرنا۔“
میں قبرستان کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دور سے وہ آتا دکھائی دیا۔

آخری دیدار کروایا جا رہا تھا۔ بابر بھی پہنچ گیا۔ زندہ میت کے بادلوں کی طرح پھٹے سرد سفید ہونٹ مسکراتے نظر آئے۔ اس کی ان کہی شاید بابر نے بھی سن لی،

”سارے دکھ ختم ہو گئے ہیں، اب مجھے قبر میں اتار دو۔“