پشتون قومی جرگہ کے مطالبات اور اثرات


11 مارچ سے 14 مارچ تک بنوں میں چار روزہ پشتون قومی جرگہ نے 25 مطالبات پیش کیے۔ جن میں کہا گیا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے گی جس کے پاس پشتون قوم کے باہمی اختلافات کو حل کرنے کا مینڈیٹ ہو، جرگے نے آئین کی پاسداری کا کرنے کے ساتھ ساتھ، پارلیمنٹ کی بالادستی کا بھی مطالبہ کیا، جرگے نے افغانستان میں بزور طاقت حکومت کرنے کی روش کی مذمت کی اور طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے افغانوں کی گرینڈ کونسل (لویا جرگہ) بلائیں۔

جرگے نے بلوچستان کے پشتون علاقوں، اٹک، میانوالی، اور کے پی پر مشتمل متحدہ پشتون صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ اور مطالبہ کیا کہ جب تک مشترکہ صوبہ نہیں بنتا بلوچستان کے پشتون اور بلوچ قوموں کے درمیان برابری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہونی چاہیے۔ مزید برآں، جرگے نے حقائق تلاش کرنے والے کمیشن کے ساتھ سچائی اور مصالحتی کمیشن کے قیام پر زور دیا جو پشتون بیلٹ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کے حقائق اور اعداد و شمار پیش کرے۔

جرگے نے عثمان کاکڑ، عارف وزیر، ارمان لونی، اور اسد اچکزئی کی شہادت کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔ جرگے نے مزید مطالبہ کیا کہ پشتون بیلٹ کے قدرتی وسائل میں پاکستان کے آئین کے مطابق پشتون قوم کے جائز حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ اس نے مزید مطالبہ کیا کہ پشتون بیلٹ سے لینڈ مائنز کو ختم کیا جائے۔ جرگے نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پشتون علاقوں میں تمام چیک پوسٹوں کو ختم کیا جائے، آئی ڈی پیز کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائے، اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔

جرگے نے مزید مطالبہ کیا کہ پشتو زبان کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جرگے نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کا عہد کیا۔ اس کے علاوہ جرگے نے 2017 کی مردم شماری کو بھی مسترد کر دیا جس میں پشتون آبادی کو کم دکھایا گیا تھا۔ جرگے نے سینیٹ الیکشن جنرل ووٹنگ کے ذریعے کرانے کی تجویز بھی دی گئی۔ جرگے نے 1991 ارسا معاہدہ کئی تجدید کرنے پر زور دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جرگے نے علی وزیر اور پی ٹی ایم کے دیگر قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

میڈیا میں پشتونوں کی منفی پروفائلنگ کو روکنے پر بھی زور دیا اور مطالبہ کیا کہ تمباکو کو زرعی پیداوار سمجھا جائے۔ مزید برآں، جرگے نے خیبر پختونخوا میں سول پاور ریگولیشنز ایکشن کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ جرگے نے مزید مطالبہ کیا کہ بجلی اور دیگر وسائل کی مد میں کے پی کے کے تمام واجبات جو وفاقی حکومت کے ذمے ہیں کے پی کے کو ادا کیے جائیں۔

اس جرگے میں تمام پشتونوں نے شرکت کی جس میں قوم پرست اور مذہبی رہنما جیسے محمود خان اچکزئی بطور میزبان، افراسیاب خٹک، مولانا محمد خان شیرانی، قبائلی سربراہان، دانشوروں جیسے فرحت اللہ بابر، ڈاکٹر لیاقت تابان اور خواتین شامل تھیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ بائیں بازو اور دائیں بازو کے پشتونوں نے ایک آزاد اور صحت مند ماحول میں حصہ لیا اور اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا۔ جہاں سب ایک مشترکہ ایجنڈے پر متفق تھے کہ پشتون بحیثیت قوم بے شمار بحرانوں کا شکار ہیں اور اسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

جرگہ کے مطالبات ان تمام شعبوں کا احاطہ کرتے تھے جن کا بحیثیت قوم پشتون سامنا کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ پشتونوں کے قدرتی وسائل کے بارے میں پوری طرح سے بات کرنے میں ناکام رہا اور یہ کہ اس نے مستقبل کی کوئی حکمت عملی تجویز نہیں کی کہ پشتون کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کو کیسے حل کیا جائے اور قوم پرستوں اور مذہبی جماعتوں کے اندرونی اختلافات اور انتشار کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ لیکن مجموعی طور پر اس جرگہ نے پانی میں کنکریاں پھینک کر عام پشتونوں میں شعور بیدار کرنے کی ایک کامیاب اور قابل تعریف کاوش کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments