عدم اعتماد کا موسم


ایک مرغی فروش کو ایک شخص نے کٹی ہوئی مرغی لاکر دی اور کہا کہ اس کی بوٹیاں بنا دو، مرغی فروش نے کہا کہ تم آدھ گھنٹے میں آ کر لے جانا، اس آدمی کے جانے کے بعد قاضی شہر آ گئے اور مرغی مانگی دکاندار نے پورا قصہ کہہ سنایا کہ یہ مرغی میری نہیں ہے، کوئی شخص گھر سے ذبح کر کے لایا تھا مگر قاضی بضد رہا کہ یہ مجھے دے دو اور جب مالک آئے تو کہہ دینا کہ مرغی اڑ گئی، دکاندار بہت گھبرایا کہ کیسے یہ بات کہے گا مگر قاضی نے کہا کہ زیادہ تین پانچ کرے تو لے کر میرے پاس آجانا۔

ایسا ہی ہوا مرغی کا مالک بہت ناراض ہوا نوبت لڑائی تک جا پہنچی، آخر طے پایا کہ شہر کے قاضی کے پاس چل کر فیصلہ کرا لیتے ہیں، قاضی نے معاملہ سنا اور مدعی سے پوچھا کہ تم کو خدا کی قدرت پر یقین ہے، اس نے کہا کہ جی ہاں سو فیصد یقین ہے، تو پھر جب وہ بوسیدہ ہڈیوں کو جوڑ کر مردہ کو زندہ کرنے پر قادر ہے تو کیا ایک کٹی ہوئی مرغی زندہ نہیں کر سکتا؟ مدعی سمجھ گیا کہ قاضی صاحب کیا چاہتے ہیں، اس نے مقدمہ واپس لیا اور اپنی راہ لی۔

پاکستان کے سیاسی ماحول کا احوال بھی کچھ اس طرح ہی ہے، اندرونی، بیرونی، آہنی غیر آہنی ہاتھ چلتے رہتے ہیں اور ملک میں سیاسی دنگل لگا رہتا ہے۔ بہت دنوں سے ہلکے ہلکے یہ بازگشت سنی جا رہی تھی کہ حکومت نا اہل ہے، یہ ہے وہ ہے، اسے ہٹا دینا چاہیے، ان آواز لگانے والوں میں اکثریت ان نامرادوں کی تھی جو بیچارے اس بار حکومت میں شامل نہ ہو سکے، کیونکہ لت تو حکومت میں رہنے اور حکومت کرنے کی پڑ چکی ہے، تو اب ہر سو آہ و بکا، شور و غوغا مچا ہوا ہے، عجب تماشا یہ ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت بھی شور مچا رہی ہے۔ یعنی جب سے موسم عدم اعتماد آیا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے سوکھے دھانوں میں جان پڑ گئی ہو، جن کی ٹانگیں قبر میں لٹکی ہوئی ہیں وہ بھی نئی امنگ اور نئی ترنگ کے ساتھ قسمت آزمائی کے لئے سیاسی دنگل میں کود پڑے ہیں، اور لگے ہیں کچھ اس طرح آہ و فغاں میں کہ:

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل

اس سیاسی دنگل یا عدم اعتماد میلے کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ جو ماضی میں ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے در پہ رہتے تھے آج گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں، اور باہم وہ شیر و شکر ہوئے ہیں کہ خود شیر و شکر انہیں انگشت بدنداں حیرت کی تصویر بنے دیکھ رہے ہیں۔ کہ یہ وہی ہیں جو پیٹ پھاڑ پھاڑ کر روڈ پر گھسیٹنے کی للکار مارا کرتے تھے اب ایک دوسرے کی وہ ضیافتیں کر رہے ہیں کہ کھلا کھلا کر پیٹ پھاڑے دے رہے ہیں۔

جو کبھی ایک دوسرے کے خاندان کو بد ترین خلائق گردانتے تھے کلنک کا ٹیکہ اور انسانیت کے لئے ناسور کہا کرتے تھے آج جھک جھک کر فرشی سلام پیش کر رہے ہیں، صرف اقتدار کی خاطر، بلکہ یہاں تو وہ مثل صادق آ رہی ہے جس میں وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنالیا جاتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اگر مغل شہنشاہ ان لوگوں کو اس حال میں دیکھ لیتے تو یقیناً ان کو اپنے نورتنوں میں ضرور شامل کر لیتے چاہے نو کی بجائے پچاس رتن ہو جاتے۔ اس پورے عمل کا سب سے مضحکہ خیز لمحہ وہ ہوتا ہے جب حکومتی صفوں سے بھی چیخنے چلانے کی آوازیں آتی ہیں، تب بالکل ایسا لگتا ہے جیسے پرانے زمانے میں براس بینڈ کے دوران اچانک بڑا والا ٹرمپٹ پوں پوں کرنے لگتا تھا جس کی بھاری آواز کے نیچے فلوٹ، ڈرم، کلاری نیٹ سب کی آواز دب کر رہ جاتی تھی۔

اب بھی حالت وہی ہے ٹوپیاں اب بھی اچھالی جا رہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ دنگل برائے عدم اعتماد اب دائمی دشمن بمقابلہ حکومت وقت ہے یعنی تمام ازلی دشمن ایک صف میں ہیں اور حکومت دوسری صف میں، اور حشر مچا ہوا ہے الزام تراشی و ہرزہ سرائی کا، مرد و زن کی تفریق مٹ گئی تھی، وہ ہلڑ بازی، وہ دھینگا مشتی، وہ گالم گلوچ اور وہ کچھ ہو رہا ہے کہ کوئی باعزت و تعلیم یافتہ انسان اس کی امید نہیں کر سکتا مگر ہو رہا ہے۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، خرید و فروخت ہو رہی ہے، بھاؤ تاؤ ہو رہے ہیں، جس کا مول وارہ کھاتا ہے بک جاتا ہے، ہر صبح کرکٹ کے ٹیسٹ میچ کی طرح امید و نا امید کے درمیاں جھولتی بے شمار بیانات، الزامات اور دعوؤں کے ساتھ نمودار ہو رہی ہے۔

کیوں کہ عموماً لوگ جانتے ہیں کہ اسمبلی میں کس طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اس بار تو ان لوگوں نے غیر ذمہ داری کی ساری حدود ہی پار کر لیں ہیں، اور دنیا بھر میں ملک کی بدنامی و جگ ہنسائی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ مگر ملک کی عزت اور نیک نامی کی کسے پرواہ ہے۔ چند مہینوں سے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی تھی، جو اب باقاعدہ طوفان کی شکل اختیار کرچکی ہے، جلسے ہو رہے ہیں، لونگ مارچ ہو رہے ہیں، بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے، ہیں، حکومت کو برا بھلا کہا جا رہا ہے، حکومت اپوزیشن کے لتے لئے ہوئے ہے۔

عوام بیچ میں ہونق بنے دیکھ رہے ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ عوام کا خیرخواہ کوئی نہیں یہ سب مفادات کا دنگل ہے۔ جس کے لئے میلہ برائے عدم اعتماد سجایا گیا ہے۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ ہم کسی صورت اس عوام دشمن حکومت کو نہیں چلنے دیں گے اور حکومت کا کہنا تھا کہ چاہے جو بھی ہو جائے ہم اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ اپوزیشن اس فراق میں ہے کہ کسی طرح حکومت کا کام تمام کر کے حکومتی کرسیوں پر قبضہ جما لیا جائے۔

اس مقصد کے حصول کے لئے چاہے جتنا اخلاقی طور پر گرنا پڑے گریں گے۔ خوب پگڑیاں اچھالیں گے، سات سات پشتوں کو رسوا اور بدنام کریں گے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر بات ریکارڈ ہو سکتی ہے اور بعد میں دھرائی بھی جا سکتی ہے، لہذا ایک عام آدمی کے لئے امر استعجاب یہ ہے کہ کل تک جس کی شدید مخالفت کر رہے تھے یہاں تک کہ اپنے مخالف کی ماں بہن تک کو گالیاں دے رہے تھے آج اسی کے ساتھ کھا پی رہے ہیں، ہنس بول رہے ہیں اور حمایت میں آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں، یہ کردار کی انتہائی پستی اور موقع پرستی کی بدترین مثال کہی جا سکتی ہے۔

آج کل جو کچھ ہو رہا ہے باشعور اقوام ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ دشمن کے آلہ کار تک بن سکتے ہیں، کرسی کی خاطر بک سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنے مفاد کی خاطر ملک تک کو بیچ سکتے ہیں۔ یہ ڈھٹائی اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں اور اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے کسی رشتے کسی تعلق کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں ہیں، ان کا جینا مرنا، اول و آخر صرف اور صرف سیاسی مقاصد کا حصول ہے، اور وہ بھی صرف دولت و مرتبہ اور مراعات کے حصول اور اس کے مزے اڑانے کی حد تک، عملی سیاست سے تو یہ کوسوں دور ہیں، کیوں کہ ان کے پاس نہ تعلیم ہوتی ہے، نہ تربیت اور نہ ہی اخلاق، عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی و نیک نامی سے انہیں کچھ سروکار نہیں ہوتا، یہ تو بس ہر وقت کسی بھی سیاسی دنگل کے لئے تیار رہتے ہیں، کہ اس طرح ان کے بہت سارے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہتے ہیں۔

دنیا بھر کے سیاسی منظر ناموں پر اگر نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ یہ سب کچھ وہاں بھی ہوتا ہے، مگر آٹے میں نمک کے برابر اور اگر کرپٹ سیاستدان قانون کی زد میں آ جائے تو وہ چاہے کسی حیثیت کا حامل ہو سزا سے نہیں بچ سکتا۔ بلکہ اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے عمومی سیاسی ماحول کے برعکس دنیا بھر میں عمدہ اور باکردار سیاست دان موجود ہیں جو آج بھی دنیا بھر کے لئے مثال ہیں جو یہ بات ثابت کرتی ہیں کہ سیاست دادا گیری، بدمعاشی، کمینگی اور ذاتی مفادات کے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں عمومی سیاست موروثیت پر قائم ہے، جس کے لئے صرف ایک شرط ہے اور وہ ہے سیاستدان کی اولاد ہونا ہے۔ اس کے بعد نہ تعلیم اور نہ تربیت کسی بھی چیز کی ضرورت رہ نہیں جاتی، نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ ان لوگوں کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر پوری قوم شرم سے پانی پانی ہو رہی ہوتی ہے لیکن شرم ان کو مگر نہیں آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments