کیا آپ کسی کو ہمیشہ کے لیے کھو کر دکھی ہو گئے ہیں؟


جب ہمارا کوئی دوست ’کوئی عزیز‘ کوئی رشتہ دار یا کوئی محبت کرنے والا ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جاتا ہے تو ہماری زندگی میں خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم دکھی ہو جاتے ہیں۔ ہم اداس ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ اس خلا کو جلد اور بعض اسے دیر سے پر کرتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو ساری عمر اس دکھ اور اس اداسی کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں سے بھی ملا ہوں جو اپنے محبوب کی جدائی کے بعد اتنے دکھی اور رنجیدہ ہوئے کہ نفسیاتی بحران کا شکار ہو گئے اور انہیں پیشہ ورانہ تھیرپی کی ضرورت پڑی۔ ایسی تھراپی کو ہم نفسیات کی زبان میں

GRIEF COUNSELLING کہتے ہیں۔

آج اپنے سائیکو تھراپی کلینک میں میری ملاقات اپنی کنیڈین مریضہ جینیفر اور اس کے بیٹے ڈیوڈ سے ہوئی۔ دونوں بہت اداس دکھائی دے رہے تھے جینیفر نے بتایا کہ ان کی والدہ جن کی عمر صرف پچاس برس تھی اور وہ چند ماہ سے کینسر کی مریضہ تھیں اس جہان فانی سے کوچ کر گئی ہیں۔ جب ان کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اس وقت تک وہ سارے جسم میں پھیل چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہ صرف چار ماہ زندہ رہیں گی لیکن وہ سات ماہ زندہ رہیں۔ آخری دنوں میں انہیں ہسپتال کے PALIATIVE CARE کے حصے میں منتقل کر دیا گیا تھا تا کہ وہ زندگی کے آخری چند دن سکون سے گزار سکیں۔ یہ علیحدہ بات کہ کووڈ وبا کی وجہ سے صرف دو لوگوں کو ان سے ملنے کی اجازت تھی۔

جینیفر کو جہاں ماں کی وفات کا دکھ تھی وہیں اسے اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ ان کی والدہ کینسر کی وجہ سے کافی تکلیف اور اذیت میں تھیں اور موت نے اس اذیت کو کم کر دیا تھا۔ جینیفر کی والدہ کی کہانی سنتے ہوئے مجھے احمد فراز کے دو اشعار یاد آ رہے تھے

؎ انکار نہ اقرار بڑی دیر سے چپ ہیں
کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چپ ہیں
آسان نہ کر دی ہو کہیں موت نے مشکل
روتے ہوئے بیمار بڑی دیر سے چپ ہیں

جینیفر کو اپنی ذات سے زیادہ اپنے سات سالہ بیٹے کی فکر تھی جو اپنی نانی کو ٹوٹ کر چاہتا تھا اور ان کے ساتھ دل کی باتیں کیا کرتا تھا۔ اسی لیے آج وہ اسے اپنے ساتھ لائی تھیں۔

میں نے ڈیوڈ سے بات کی تو اس نے مجھے بتایا کہ اسے اپنی نانی بہت یاد آتی ہیں۔ وہ انہیں یاد کر کے آنسو بہاتا ہے لیکن وہ اپنی ماں سے اس لیے بات نہیں کرتا کیونکہ وہ انہیں زیادہ دکھی نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے ڈیوڈ سے کہا اپنی ماں سے اپنی نانی کے بارے میں گفتگو کرنا ایک صحت مند عمل ہے اس کا دونوں کو فائدہ ہو گا۔

ڈیوڈ نے بتایا کہ اسے اپنی نانی کی یاد آتی تو وہ اس تکیے کو دل سے لگا کر سوتا ہے جو اس کی نانی نے اسے سالگرہ کے تحفے کے طور پر دیا تھا۔

میں نے ڈیوڈ سے پوچھا کہ تمہاری نانی اب کہاں رہتی ہیں تو اس نے بڑے پیار سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’میرے دل میں‘

پھر میں نے جینیفر اور ڈیوڈ کو بتایا کہ جب میں بارہ سال کا تھا تو میرے قاسم نانا جان بھی فوت ہو گئے تھے۔ ان دنوں ہم پشاور میں اور نانا جان لاہور میں رہتے تھے۔ ہمیں ان کی موت کی تار آئی تو میں اپنے والدین اور چھوٹی بہن کے ساتھ ائرپورٹ چلا گیا اور ائرپورٹ پر چھ گھنٹے کے انتظار کے بعد ہم سب لاہور پہنچ گئے۔

مجھے اپنے نانا جان سے بہت پیار تھا۔ وہ مجھے اور میری دوست سودہ کو باغ میں سیر کے لیے لے جایا کرتے تھے۔

میری والدہ نے مجھے بتایا تھا کہ پشاور واپس آ کر میں بھی چند ماہ تک تکیے میں سر چھپا کر اپنے نانا جان کو یاد کیا کرتا تھا اور رویا کرتا تھا۔

(میرے نانا جان ایک شعر گنگنایا کرتے تھے وہ شعر مجھے آج تک یاد ہے
؎ قسام نے لکھ کر میری قسمت مین فقیری
فرمایا مزاج اس کا امیرانہ بنا دے )

میری باتوں سے جینیفر اور ڈیوڈ کو تسلی ہوئی۔ میں نے ڈیوڈ سے کہا کہ وہ جب بھی مجھ سے بات کرنا چاہے تو وہ اپنی امی کے ساتھ میرے کلینک آ سکتا ہے اور جب میں اس کی امی سے بات کر رہا ہوں وہ میرے کلینک کے کچھووں سے کھیل سکتا ہے۔

نانا جان کی وفات میرا موت سے تعارف تھا۔ اس واقعے نے مجھے یہ سبق سکھایا کہ محبت کے سب رشتے عارضی ہوتے ہیں اور ہمیں نئے دوستوں اور محبوبوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد الوداع کی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔

جینیفر اور ڈیوڈ کے رخصت ہونے کے بعد میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ والدین اور اساتذہ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں اور شاگردوں سے موت کے بارے میں تبادلہ خیال کریں تا کہ جب انہیں موت کا پہلی بار سامنا کرنا پڑے تو وہ اس کے لیے تیار ہوں۔

جب ہمیں اپنی زندگی میں کسی محبوب کی جدائی سے خلا کا احساس پیدا ہو جاتا ہے تو پھر شعوری طور پر نئے دوستوں کا حلقہ بنا کر جسے ہم “فیمیلی آف دی ہارٹ” کہتے ہیں۔ اس خلا کو پر کیا جا سکتا ہے۔ جانے سے پہلے آپ کو اپنی ایک غزل کے دو اشعار سناتا جاؤں

؎ کبھی ہر عارضی کو دائمی میں سمجھا کرتا تھا
اور اب ہر دائمی کو عارضی محسوس کرتا ہوں۔
وہ کب کی جا چکی خالدؔ مگر میں اس کے بارے میں
کبھی سوچوں تو آنکھوں میں نمی محسوس کرتا ہوں
۔ خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail